عقیدہ ختم نبوت ﷺ اور ہماری زندگی (حصہ اوّل)

 حالات اور مصروفیات کی بدولت کافی وقت سے کسی قسم کا کچھ بھی لکھ نہ سکا اور اس سے پہلے جو لکھا بھی وہ اصلاح ِ معاشرہ کے لیے لکھا ـ"کہ کاش تیرے دل میں اتر جائے میری بات" مگر اب سوچا کے قلم کا اصلی حق اس انداز میں ادا کروں کہ قلم سے نکلا ہر لفظ ہمارے لیے باعث شفاعت اور باعث رحمت و مغفرت بن سکے اور اس میدان میں کسی بھی قسم کی آنے والی ہر آزمائش کا خندہ پیشانی سے سامنا اس امید پہ کروں کہ میرے آقا و محبوب نبی آخر زمان حضرت محمد عربی ﷺ ہماری پشت پر ہاتھ رکھ کر ہماری رہمنائی فرمائیں اور ہمارے قلم سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ دشمنان اور منکرین ختم نبوت ﷺ کے لیے کسی ذوالفقار حیدر کے وار سے کم نہ ہو اور سیائی کی گہرائی اس قدر گہری ہو کہ منکرین و منافقین کے چہروں کو بے نقاب کر کے امت محمدی ﷺ کو اس دجالی فتنہ سے محفوظ رکھا جا سکے۔ تاریخ کے اوراق کو اگر پلٹ کر دیکھا جائے تو یہ آشنا ہوتا ہے جب حضرت یوسف علیہ ا لسلام کو مصر کے بازار میں فروخت کیا جا رہا تھا تو اس وقت ایک طرف جدھر بڑی بڑی تجوریوں کے منع کھولے جا رہے تھے ادھر ہی ایک طرف ایک بوڑھی عورت بھی تھی جو رسیاں لے کر آئی ۔ کسی پوچھنے والے کے سوال پر وہ بولی کہ یوسف علیہ السلام کے خریداروں میں کم از کم میرا نام تو آجائے گا گو اسی امید کے ساتھ ہم بھی دفاعیان عقیدہ ختم نبوت ﷺ میں اپنی کم عمری اور کم علمی کے باوجود اس میدان میں آنا چاہتے ہیں کہ کم از کم ہمارا نام تو ان غازیوں میں شامل ہو اور جس وقت اس دنیا فانی سے ہماری روح لینے کے لیے فرشتے آئیں تو وہ بھی خوشبووں اور معطر فضاؤں کے ساتھ آئیں ۔ شروعات میں جن باتوں کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ اول معلوم ہو کہ عقیدہ ختم نبوت ﷺ ہے کیا۔ ۔۔؟؟ معذرت کے ساتھ اکثر و بیشتر ہمارے نوجوان تاجدار ختم نبوت ﷺ کانفرس کے بارے میں سنتے ہیں تو پوچھتے ہیں کہ معاذ اﷲ یہ عقیدہ ختم نبوت ﷺ ہے کیا۔ ۔۔؟؟؟یہ لمحہ فکریہ امت مسلمہ کے لیے اس وقت سب سے سنگین ہے کہ ہم نے اپنی آنے والی نسلوں کو عقیدہ ختم نبوت ﷺ کے بارے میں کس طرح روشناس کروانا ہے ۔۔۔؟؟ کس طرح ان کو عشق مصطفی ﷺ میں اپنی جان و مال قربان کر نے کا جذبہ دینا ہے۔۔۔؟عشق مصطفی ﷺ وہ جذبہ اور لگن ہے جس کے لیے کسی تعلیم اور کسی حسب و نسب کے ہونے کا لازمی جزو نہیں بس ضرورت ہے کہ دل کی گہرائیوں میں عشق ِ بلالی دل میں اس طرح بیدار رکھنا ہے کہ دھہکتے کوہلوں پر بھی جب لٹایا جائے تو عشق ِ مصطفٰی ﷺ کیا جذبہ نہ مٹایا جا سکے اور نہ ہی اس عقیدے کے ختم کیا جائے ۔اس طرح بیدار کر نا ہے کہ زندگی تو زندگی مر بھی جائے تو لاشہ بھی یہ ہی بولے کہ حق تو یہ تھا کہ حق ادا نہ وہوا ۔ یہ کیا ہو ا کہ زندگی ملی۔ کھانا کھایا ، پیسہ اکھٹا کیا ، گھر بنایا ، نوکری کی ، کاروبارکیا، شادی کی، بچے پیدا کر کے بڑے کر کے ان کی شادیاں کر وا کہ خود گھر کے ایک کونے میں اپنی زندگی کے آخری لمحات کو سسکیوں کے ساتھ گزار دینا ۔ کیا یہ ہی ہماری زندگی کا مقصد رہ گیا ہے۔۔۔؟؟ اصول تو یہ ہے کہ آ پ کے چہرے پر جب کسی کفار کی نظر بھی پڑے تووہ کلمہ حق پڑھنے پر مجبور ہو جائے ۔۔ آپ کے کردار سے ، اخلاق سے ، اقدار سے ہم اپنی شناخت دوسروں سے نمایا ں رکھیں ۔ لازمی تو نہیں کہ اب ہماری مدد یا ہماری رہنمائی کے لیے پھر سے کوئی نیا سلسلہ جاری کیا جائے گا ۔ ہمارے سر پر ہمارے آخر زمان نبی ﷺ وہ روشن تاج رکھ کر گئے ہیں کہ جو ہر کسی مسلئے اور ہر کسی دور کے لیے نمایا ں رہنمائی اور روشنائی ہے۔ صحابہ اکرام رضوان اﷲ ا جمعین فرماتے ہیں کہ ہمارے اونٹ کی رسی بھی گم ہو جاتی تو ہم اس کو بھی قرآن کریم سے تلاش کرتے ہیں مگر ایک طر ف ہم ہیں کہ قرآن مجید جو کہ اﷲ رب العزت نے اپنے خوشخبریاں دینے والے پیارے حبیبﷺ کو واحد اور آخری کلام دیا کہ جس جیسا کوئی کلام نہ تھا اور نہ ہی کوئی کلام آ سکتا ہے، گو کہ آسمانی کتب اور بھی ہیں مگرقرآن حکیم وہ واحد محفوظ کتا ب ہے جو دن ازل سے لے کر دن آخر تک حرف بہ حرف محفوظ ہے اتنی عظمت و برکت والی کتاب کو ہم آج چودہیوں صدی کے مسلمانوں ،نام نہاد مولیوں ، پیسے کے پجاری نعت خوان ، شہرت کی ہوس میں جلنے والے کچھ پیروں نے اور کرسی اور اقدار کے لالچی سیاسدانوں نے قرآن کو مسجد اور مدرسے کے طالبعلموں تک محدود کر کے رکھ دیا ہے۔ جب کہ یہ وہ کتاب ہے کہ جس کے اندر ہر مسلۂ زندگی کے بارے میں بیا ن کیا گیا ہے۔ مگر ہم کو کیا ضرورت کہ ہم قرآن کے نزدیک جائیں ہاں جب کوئی مر جاتا ہے تو وہ بھی کچھ لوگ اکثر تو آج کل ایصال ثواب کے لیے بھی قرآن مجید کی تلاوت نہیں کرواتے اور جو کرواتے ہیں وہ بھی مدرسے کے حفاظ کو ڈھربہ سے گاڑی میں بیٹھا کر لے جاتے ہیں اور اس طرح ان سے تلاوت قرآن حکیم کرواتے ہیں کہ جس طرح وہ اپنے مرحومین کے ایصال ثواب کے لیے جو تلاوت کا اہتمام کروا رہے ہیں وہ ان حفاظ پر احسان کروا رہے ہیں خیر یہ بات کسی اور طرف نکلتی جاری ہے ۔ گو کہ ہم نے قرآن مجید کو صرف اور صرف مدرسے کے حفاظ تک محدود کر دیا ۔ کاش کہ مسلمانوں کے اندر وہ جذبہ ایمانی پھر سے بیدار ہو جائے ، وہ انقلابی روح پھر سے کسی کونے سے امڈ آئے کہ آج کے مسلمان کو اپنے دین ِ مبین کی سمجھ نصیب ہو یہ نہیں کہ بس آئے اور گئے ۔ 1974 میں جب آئین پاکستان میں منکرین ختم نبوت ﷺ کو جس وقت غیر مسلم قرار ینے کا وقت آیا تھا تو اس وقت بھی ہمارے ان ہی نام نہاد سیاسی پارٹیوں کے اکابرین نے علماء اسلام کو بولا کہ نوارنی صاحب یہ مسلۂ تو مساجد اور مدرسوں کا آپ اس کو اسمبلی تک لے آئے مگر اِسی اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اندر جو ملک ریاست مدینہ کے بعد دوسری بڑی نظریاتی ریاست وجود میں آئی تھی اس ملکِ پاکستان کے اندر منکرین ختم نبوت ﷺ کو غیر مسلم ظاہر کروانے اور عقیدہ ختم نبوت ﷺ جیسے نازک مسلئے پر بہت سے علمائے اکرام نے قید و بند کے علاوہ بہت سی شہیدوں کے خون سے عقیدہ ختم نبوت ﷺ کو پھر ایک دفعہ ہرابھراکرتے ہوئے حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی سنت کو اجاگر کیا انھوں فرمایا تھا سب مسائل کو بعد میں دیکھیں گئے سب سے پہلے مسیلمہ کذاب کے خلاف جہاد عظیم کریں گئے۔ اور تاریخ نے دیکھا کہ اتنے صحابہ اکرام رضوان اجمعین باقی جنگوں میں شہید نہیں ہوئے جتنے جنگ یمامہ کے اندر شہید ہوئے ۔ عقیدہ ختم نبوت ﷺ کوئی آج کا یا پاکستان کا مسلۂ نہیں بلکہ یہ ہمارے نبی آخرزمان حضرت محمد ﷺ کی حیات مبارکہ میں ہی شروع ہو گیا تھا اور تو اور ایک عورت بھی اس میدان میں آگے آگئی تھی ( اس تاریخ کے بارے میں اگلے آنے والے مضامین میں تفصیل سے بیان کیا جائے گا) مگر ہر دور میں ہر اسلام کے غازیوں اور شہیدوں نے اپنے خون کی آبیاری کے ساتھ اس عقیدہ کو زندہ جاویدرکھتے ہوئے یہ ثابت کیا کہ جھوٹ کے دن تھوڑے ہوتے ہیں ۔ مگر قادیان سے چلنے والے مرزاغلام احمد قادیانی جو کہ بذات خود ایک آنکھ سے کانہ تھا نے جو بیسوی صدی کے آغاز سے ہی کر دیا تھا گو کہ مرزا نے انیسوی صدی سے ہی مختلف انواع اقسام کے جھوٹے دعوں اور دلیوں سے سادہ لوح مسلمانوں کو راہ حق سے بہکا سکے۔ گو کہ مرزا نے جب 1902 میں نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا تو اسی وقت سے عالم اسلام کے اندر بے چینی کی کیفت پیدا ہو گئی ۔ جو کہ اس وقت سے آج تک برطانوی حکومت کے پانی اور کھاد پر پرورش پاتا ہو ا پروان چڑھتا چلا گیا ۔ مگر یہ نہیں کہ اس درخت کی شاخیں کبھی کسی نے نہیں کاٹی گو کہ ہر منزل پر اس کا راستہ روکنے کے لیے ، ہر مقام پر ہر عقیدہ اور ہر مکاتب فکر کے دیوانوں نے اپنا اہم کردار قید و بند سے لے کر حق کی راہ میں میں اپنے لہو بہا کر بھی گیامگر عقیدہ ختم نبوتﷺ کے اس عظیم پودے کی آبیاری کو تاقیامت صدا بہار رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ (جاری ہے۔۔۔۔۔)

 

Muhammad Jawad Khan
About the Author: Muhammad Jawad Khan Read More Articles by Muhammad Jawad Khan: 113 Articles with 191101 views Poet, Writer, Composer, Sportsman. .. View More