ابھی حال ہی میں اقوام متحدہ کی دوسری عالمی پائیدار
ٹرانسپورٹ کانفرنس کا بیجنگ میں انعقاد کیا گیا۔ کانفرنس کے دوران پائیدار
نقل و حمل کو درپیش عالمی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے وسیع تبادلہ خیال کیا گیا
کیونکہ ماہرین کے نزدیک پائیدار ترقی کے لیے اقوام متحدہ کے 2030 کے ایجنڈے
اور پیرس موسمیاتی معاہدے جیسے دوہرے اہداف کے حصول کے تناظر میں پائیدار
ٹرانسپورٹ کو نئے چیلنجوں کا سامنا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ نقل و حمل کی
بہتری نے طویل عرصے سے لوگوں کی زندگی اور معاش ، معاشی ترقی ، سماجی ترقی
اور بین الاقوامی تبادلوں میں اہم کردار ادا کیا ہے، تاہم عہد حاضر میں نقل
و حمل میں پائیداری کا مسئلہ پہلے سے کہیں زیادہ نمایاں ہو چکا ہے۔
ایک جانب کم ترقی یافتہ دنیا میں کمزور انفراسٹرکچر کا مسئلہ مسلسل درپیش
ہے ، جہاں نقل و حمل کے ناقص بنیادی ڈھانچے کے باعث لوگوں کو خدمات کی
فراہمی اور نقل و حرکت میں رکاوٹ کا سامنا ہے، اس سے مختلف ممالک میں غربت
اور عدم مساوات سمیت دیگر سماجی مسائل پیدا ہوئے ہیں۔لہذا پائیدار اور
لچکدار ٹرانسپورٹ انفراسٹرکچر کی فوری ضرورت دنیا بھر میں محسوس کی گئی ہے۔
دوسری جانب ، ذرائع نقل و حمل سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج عالمی اخراج
کا تقریباً 24 فیصد ہے۔ چونکہ دنیا پیرس موسمیاتی معاہدے پر عمل درآمد کے
لیے کوشاں ہے ، لہذا اقتصادی سماجی ترقی کو برقرار رکھنے اور موسمیاتی
تبدیلی سے نمٹنے کے لیے گرین اور پائیدار ٹرانسپورٹ کو وقت کی اہم ضرورت
قرار دیا گیا ہے۔ مزید پریشان کن بات یہ ہے کہ کووڈ۔19 نے دنیا بھر میں
ٹرانسپورٹ انفراسٹرکچر کی کمزوری کو بے نقاب کردیا ہے۔ وبائی صورتحال نے
عالمی سطح پر پبلک ٹرانسپورٹ کے تمام ذرائع بشمول ریلوے، ہوا بازی سمیت
سیاحت اور دیگر کئی متعلقہ شعبوں کو بھی وسیع پیمانے پر دھچکا پہنچایا ہے۔
انہی تمام حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے پائیدار ٹرانسپورٹ کانفرنس کا انعقاد
کیا گیا تاکہ عالمی سطح پر شعور اجاگر کیا جاسکے اور پائیدار ٹرانسپورٹ کے
حوالے سے بین الاقوامی تعاون کی اپیل کی جا سکے تاکہ موجودہ اور آئندہ
نسلوں کے لیے محفوظ ، سستی ، قابل رسائی ، موثر و لچکدار ،کم کاربن اور
ماحول دوست ٹرانسپورٹ فراہم کی جا سکے۔
کانفرنس کے دوران چین کی اقتصادی سماجی ترقی میں نقل و حمل کے بنیادی زرائع
کی ترقی اور اہمیت سے متعلق بھی آگاہی ملی۔نقل و حمل کے شعبے میں چین کی
ترقی کے حوالے سے جاری رپورٹ کے مطابق عہد حاضر کے تقاضوں کے مطابق چین میں
ایک جامع ٹرانسپورٹ انفراسٹرکچر نیٹ ورک میں مزید وسعت آتی جا رہی ہے،
تکنیکی جدت کے معیار میں بہتری کا رجحان برقرار ہے ۔ چین نے ماحولیات کے
تحفظ کو اولین اہمیت دیتے ہوئے شعبہ ٹرانسپورٹ میں سبز اور کم کاربن تبدیلی
کو آگے بڑھایا ہے جس سے قابل ذکر نتائج حاصل ہوئے ہیں، عالمی سطح پر ذرائع
نقل وحمل کی ترقی کے لیے بین الاقوامی تبادلے اور تعاون کو مزید گہرائی ملی
ہے اور بنی نوع انسان کے ہم نصیب سماج کی تعمیر کے لیے اقدامات جاری ہیں ۔
پائیدار نقل و حمل سے متعلق نمایاں پیش رفت نے چین کی قومی معیشت کی ترقی
کے لیے اہم کردار ادا کیا ہے ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین کی مثالی
کوششوں سے عالمی پائیدار ترقی کو فروغ دینے اور انسانیت کے ہم نصیب معاشرے
کے قیام کے لیے چینی دانش اور طاقت کا بھرپور مظاہرہ کیا گیا ہے۔
چینی صدر شی جن پھنگ نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئےکہا کہ ٹرانسپورٹ کا نظام
کسی بھی ملک کی معیشت کے لئے شریان کی طرح ہوتا ہے اور ٹرانسپورٹ تہذیبوں
کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کرتی ہے۔ تاریخ کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا
ہے کہ قدیم شاہراہ ریشم پر اونٹوں کے قافلوں اور کشتیوں کی شکل میں نقل و
حمل نے معاشی انضمام کو فروغ دیا اور لوگوں کو سہولیا ت فراہم کی ہے۔ اس سے
افرادی تبادلوں کو فروغ ملا اور دنیا ایک گلوبل ویلج میں تبدیل ہو چکی ہے
۔شی جن پھنگ نے مزید کہا کہ گزشتہ ایک صدی میں رونما ہونے والی بڑی
تبدیلیوں جیسے کووڈ-19 کی وبا نے عالمی معاشی بحالی اور لوگوں کے معیار
زندگی میں بہتری کی کوششوں کو شدید خطرات سے دو چار کردیا ہے۔ اس صورت حال
میں یہ ضروری ہے کہ ہم عالمی ترقی کے مروجہ رجحان کی پیروی کریں ، عالمی
ٹرانسپورٹ تعاون کو فروغ دیں ، اور تعاون کا ایک نیا باب رقم کریں جس میں
انفراسٹرکچر کے رابطے ، تجارت اور سرمایہ کاری کا بلا روک ٹوک بہاؤ ، اور
تہذیبوں کے مابین تعاون شامل ہیں۔انہوں نے دنیا پر زور دیا کہ رابطے اور
باہمی مفاد کے امید افزا راستے پر قائم رہیں ، مشترکہ طور پر ایک کھلی ،
جامع ، شفاف اور خوبصورت دنیا کی تعمیر کریں جہاں ہر کوئی پائیدار امن ،
عالمگیر سلامتی اور مشترکہ خوشحالی سے لطف اندوز ہو سکے ، اور بنی نوع
انسان کا مشترکہ مستقبل کا حامل معاشرہ تعمیر کیا جا سکے۔
حقائق کے تناظر میں آج جدت پر مبنی معیشت پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے جس
میں شعبہ ٹرانسپورٹ کی کلیدی حیثیت ہے۔ اس ضمن میں سمارٹ ٹرانسپورٹ اور
سمارٹ لاجسٹکس کی ترقی اور نئی ٹیکنالوجیز جیسے بگ ڈیٹا ، انٹرنیٹ ،
آرٹیفیشل انٹیلی جنس اور بلاکچین کی نقل و حمل کے ساتھ گہرے انضمام کی
اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے۔
|