حالیہ برسوں میں عالمی سطح پر تنازعات ،موسمیاتی تبدیلی
اور اقتصادی سماجی مسائل کے باعث خوراک کی قلت کے مسائل سامنے آئے ہیں اور
اب کووڈ۔19 وبا نے عالمی معاشی بحران کو جنم دیا ہے جس کے نتیجے میں خوراک
کے عدم تحفظ میں اضافہ ہوا ہے۔ آج دنیا میں مجموعی طور پر تقریباً 811 ملین
افراد بھوک کا شکار ہیں ، بشمول 132 ملین ایسے افراد جنہیں وبائی صورتحال
کے دوران غذائی قلت کا سامنا ہے۔دنیا میں ایسے افراد کی تعداد بھی لگ بھگ
تین ارب ہے جو صحت مند غذا کے متحمل نہیں ہیں۔اگرچہ دنیا میں بھوک کے خاتمے
کے حوالے سے عزم توموجود ہے اور اسی مقصد کی خاطر 2015میں 193 ممالک اقوام
متحدہ میں جمع ہوئے تھے اور پائیدار ترقی کے ایجنڈے کے تحت 2030 تک عالمی
سطح پر بھوک کے خاتمے کا وعدہ کیا گیا تھا مگر آج حقائق کے تناظر میں اس
مقصد کے حصول کے امکانات تاریک دکھائی دیتے ہیں۔ آج نئی صورتحال میں دنیا
کے سبھی ممالک کو بیک وقت عالمی خوراک ،معاشی بحالی اور ماحولیاتی بحرانوں
سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ماحولیات کے اعتبار سے دیکھا جائے تو بھوک سے لڑنے کی
کوششوں نے روایتی طور پر زیادہ خوراک کی پیداوار پر توجہ دی ہے لیکن اس کے
لیے ایک بھاری ماحولیاتی قیمت چکانا پڑی ہے۔ماہرین کے نزدیک زرعی مقاصد کے
لیے دنیا کا 70 فیصد میٹھا پانی اور 40 فیصد زمین استعمال کی جاتی ہے۔یوں
حیاتیاتی تنوع کے حوالے سے مسائل سامنے آئے ہیں۔ خوراک کی پیداوار عالمی
گرین ہاؤس گیس کے اخراج کا 30 فیصد پیدا کرتی ہے جبکہ ایمیزون میں جنگلات
کی کٹائی کی سب سے بڑی وجہ بھی یہی ہے۔
اس صورتحال میں پالیسی ساز جہاں دنیا سے بھوک مٹانے کے خواہاں ہیں وہاں
انہیں کرہ ارض کو بچانے کے حوالے سے بھی چیلنجز کا سامنا ہے۔ مختصراً یوں
کہا جا سکتا ہے کہ بیک وقت اربوں افراد کو بھوکے رہنے سے بچانا ہے اور
سیارے کا تحفظ بھی لازم ہے۔ مثال کے طور پر کھاد کی ہی بات کی جائے تو یہ
فصل کی پیداوار کو تو بڑھا سکتی ہے اور بھوک مٹانے میں بھی معاون ہے ، لیکن
اس میں نائٹروجن کا زیادہ استعمال قدرتی مٹی کے لیے تباہ کن ہو سکتا ہے۔اسی
طرح مویشی فارم اور چاول کے کھیتوں سے میتھین خارج ہوتی ہے ، جو گرین ہاؤس
گیس کے اعتبار سے کاربن ڈائی آکسائیڈ سے زیادہ طاقتور ہے۔ میتھین کے اخراج
میں کمی کی کوششوں سے خوراک کی قیمتیں بڑھیں گی ، غریب صارفین کی غذائیت تک
رسائی متاثر ہوگی اور کسانوں اور مویشی بانوں کی معاش کو خطرہ لاحق ہوگا۔
ان مسائل سے نمٹنے کے لیے ماحولیاتی آلودگی میں کمی کا ایک ایسا نظام ترتیب
دینے کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی ہے جو زرعی پیداواری صلاحیت میں کمی
کا باعث نہ ہو اور غریب افراد کی سماجی اور معاشی بہبود کو نقصان نہ
پہنچائے۔ دوسری جانب ایک ایسے پائیدار حل کی ضرورت ہے جو کرہ ارض کو خطرے
میں ڈالے بغیر ہر ایک کو خوراک کی فراہمی کاموجب ہو۔یہ حقیقت ہے کہ کوئی
بھی ملک یا خطہ تنہا بھوک کا مسئلہ حل نہیں کر سکتا ہے بلکہ اشتراکی کوششیں
اور متفقہ لائحہ عمل ہی اصل بنیاد ہے۔ تحقیقی نتائج کے مطابق زرعی پیداوار
بڑھانے ، خوراک کے ضیاع اور فضلے کو کم کرنے کے لیے اہم اقدامات کا مرکب
آئندہ دہائی میں خوراک کی قلت کے شکار افراد کو 314 ملین تک کم کر سکتا ہے
اور 568 ملین لوگوں کے لیے صحت مند خوراک بھی مہیا کر سکتا ہے۔
ان اقدامات میں زرعی تحقیق اور ترقی شامل ہے تاکہ خوراک کو مزید موثر طور
پر تیار کیا جا سکے ، معلوماتی خدمات کی فراہمی جو کسانوں کو موسم کی پیش
گوئی اور موزوں فصلوں سے متعلق بتاتی ہے ،کسانوں اور گلہ بانوں کے لیے
خواندگی پروگرام جو سماجی تحفظ کو فروغ دے سکتے ہیں۔اسی طرح جدید زرعی
تصورات مثلاً آرٹیفیشل انٹیلی جنس اور ڈرون وغیرہ کے استعمال سے فصلوں کو
نقصان پہنچانے والے کیڑوں کی تلفی سمیت ، آبپاشی ، فصلوں کی بوائی و کٹائی
اور کھاد کے استعمال میں رہنمائی مل سکتی ہے۔چھوٹے کسانوں کو مالیاتی خدمات
کی فراہمی سے انہیں جدید کاشتکاری کی جانب مائل کیا جا سکتا ہے جو فصلوں کی
زیادہ پیداوار اور تحفظ خوراک میں انتہائی معاون ثابت ہو سکتی ہے۔
عالمی سطح پر تحفظ خوراک میں چین کے کردار کی بات کی جائے تو چین تسلسل کے
ساتھ مختلف طریقوں سے زرعی پیداوار کی صلاحیت میں بہتری کے لیے ترقی پزیر
ممالک کی امداد کرتا چلا آ رہا ہے۔ سنہ 1996 سے لے کر اب تک چین نے افریقہ
، ایشیا، جنوبی بحر الکاہل اور کیریبین سمیت چالیس سے زائد ممالک اور خطوں
کے لیے اپنے ہزاروں زرعی ماہرین بھیجے ہیں ۔اقوام متحدہ کی تنظیم برائے
خوراک و زراعت کے تحت چینی ماہرین نے کئی ممالک میں 1000 سے زائد زرعی
ٹیکنالوجیز پیش کیں ،جن میں فصلوں کی پیداوار ، جانوروں کی پرورش اور زراعت
،کھیتوں میں آبپاشی اور زرعی مصنوعات کی پروسیسنگ وغیرہ شامل ہیں۔ان
پروجیکٹس کی مدد سے مقامی فصلوں کی پیداوار میں اوسطاً 30 سے 60 فیصد تک
اضافہ ہوا ہے۔چین نے عالمی سطح پر تقریباً ایک لاکھ مقامی کسانوں کو عملی
تربیت فراہم کی ہے جبکہ مجموعی طور پر دس لاکھ سے زائد کسانوں نے مختلف
تربیتی پروگراموں سے فائدہ اٹھایا ہے۔ دنیا کے سب سے بڑے ترقی پزیر اور ذمہ
دار ملک کی حیثیت سے چین نے آفات سے نمٹنے میں بھی دوسرے ممالک کی بھرپور
مدد کی ہے ۔سال دو ہزار بیس میں ٹدی دل کے حملوں سے نمٹنے کے لیے چین نے
پاکستان، ایتھوپیا اور یوگنڈا سمیت ترقی پذیر ممالک کو کیڑے مار ادویہ ،
سپرے مشینز ، حفاظتی لباس ، ماسک اور دستانے فراہم کیے۔اس کے ساتھ ساتھ چین
اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر چین میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ہنگامی
گوداموں اور مراکز کی تعمیر کو آگے بڑھارہا ہے تاکہ امدادی سرگرمیوں کے لیے
مدد و معاونت فراہم کی جا سکے۔یوں چین نہ صرف اپنے ایک ارب چالیس کروڑ عوام
کی خوراک کی ضروریات کو احسن طور پر پورا کر رہا ہے بلکہ دنیا سے بھی بھوک
کے خاتمے میں قائدانہ کردار ادا کر رہا ہے۔
|