دنیا کا سب سے بڑا تجارتی کھلاڑی

معاشی ماہرین کووڈ۔19 کے باعث درپیش اقتصادی بحران اور معاشی بحالی کو صدی کی ایک بڑی آزمائش قرار دے چکے ہیں جس سے کوئی بھی ملک تنہا نہیں نمٹ سکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان سمیت دیگر ممالک میں مہنگائی ،بے روزگاری اور غربت سمیت کئی مسائل کا سامنا ہے۔ عالمی برادری کے نزدیک اقتصادی بحالی کے لیے اتحاد و تعاون کی ضرورت جس قدر آج محسوس کی جا رہی ہے ماضی میں شائد اس کی کوئی مثال ہمارے سامنے نہیں ہے۔انسداد وبا کے ساتھ ساتھ اقتصادی سماجی سرگرمیوں کی مکمل بحالی اس وقت تمام ممالک کی یکساں خواہش ہے۔دیگر دنیا کے برعکس چین میں انسداد وبا کے مضبوط ترین اقدامات اور ویکسی نیشن کی بلندشرح کی وجہ سے معاشی سرگرمیاں تیزی سے رواں دواں ہے، اس کی ایک حالیہ مثال "کینٹن فیئر" کا کامیاب انعقاد ہے۔

چین کی اہم ترین معاشی سرگرمیوں کی بات کی جائے تو اس میں عالمی شہرت یافتہ "کینٹن فیئر" سرفہرست ہے۔"کینٹن فیئر" کو چائنا امپورٹ اینڈ ایکسپورٹ میلہ بھی کہا جاتا ہے ۔اس میلے کی تاریخ پر نگاہ دوڑائیں تو تاریخی اعتبار سے ترقی کا ایک بے مثال سفر نظر آتا ہے۔پہلی مرتبہ جب 25 اپریل 1957 کو یہ میلہ گوانگ جو شہر میں لانچ کیا گیا تو اُس وقت صرف 13 کمپنیاں اس سرگرمی میں شریک ہوئیں اور مجموعی طور پر 17 ملین ڈالر سے زائد کا لین دین ہوا۔آج کینٹن میلہ اپنے 130 ویں سیشن میں چین کی سب سے بڑی تجارتی سرگرمی اور برآمدات و درآمدات کے لحاظ سے اہم ترین تجارتی شو بن چکا ہے۔ وبائی صورتحال کے دوران تمام تر مشکلات اور چیلنجز پر قابو پاتے ہوئے رواں برس بھی اس میلے کا آن لائن اور آف لائن بنیادوں پر کامیاب انعقاد کیا گیا۔ کینٹن میلہ عام طور پر سالانہ بالترتیب موسم بہار اور موسم خزاں میں دو مرتبہ منعقد ہوتا ہے ۔گزشتہ 64 برسوں اور 129 سیشنز کے بعد آج میلے کا نمائشی رقبہ چار لاکھ مربع میٹر ہو چکا ہے ، اس اعتبار سے جرمنی کے ہینوور فیئر گراؤنڈ اور امریکہ میں ورلڈ مارکیٹ سینٹر لاس ویگاس کے بعد یہ دنیا کا تیسرا بڑا تجارتی میلہ کہلاتا ہے۔

رواں برس 15 سے 19 اکتوبر تک جاری رہنے والے پانچ روزہ میلے کے دوران 26 ہزار سے زائد کمپنیوں نے اپنی مصنوعات کی نمائش کی جبکہ 210 ممالک اور خطوں سے دو لاکھ سے سے زائد افراد نے میلے میں شرکت کی ، رواں برس یہ امید ظاہر کی گئی ہے کہ میلے کے دوران مختلف تجارتی سرگرمیوں کی مجموعی مالیت 30 ارب ڈالر سے زائد رہے گی۔رواں برس ایک خاص بات یہ بھی رہی کہ دنیا کی معروف کمپنیوں کے ساتھ ساتھ چین میں دیہی معاشی زندگی کے مختلف پہلووں کی خصوصی نمائش بھی کی گئی ، جہاں دیہی کمیونٹیز میں فعال کمپنیوں کی خصوصی مصنوعات رعایتی قیمتوں پر پیش کی گئیں۔ ان میں زیادہ تر کمپنیاں ایسی ہیں جو چینی حکومت کے انسداد غربت اقدامات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے صنعتی زرعی مصنوعات بناتی ہیں۔ مجموعی طور پر 838 کمپنیوں نے اس پیشکش سے فائدہ اٹھایا ہے۔اسی طرح میلے کے دوران ماحول کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے شفاف توانائی کو بھی نمایاں اہمیت دی گئی، 70 سے زائد کمپنیوں کی جانب سے شمسی توانائی ، ونڈ پاور اور بائیو فیول کے شعبوں میں نئی کم کاربن ، کم آلودگی اور توانائی کی بچت والی سبز مصنوعات کی نمائش کی گئی۔یوں کہا جا سکتا ہے کہ چین کی ماحولیاتی تحفظ کی کوششوں کو اجاگر کرنے اور موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے کینٹن میلے نے اپنے طور پر دنیا کو نئی چینی ٹیکنالوجیز سے بھی متعارف کروایا ہے جو کرہ ارض کے تحفظ میں انتہائی مددگار ہیں۔

کینٹن میلے کی تاریخ اور ترقی اس بات کی بھی مظہر ہے کہ چین نے کس موئثر انداز سے باقی دنیا کے ساتھ تجارتی روابط استوار کیے ہیں اور عالمی معاشی ترقی میں اپنا کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اسی طرح یہ میلہ ایسے کاروباری افراد اور کمپنیوں کی کامیابی کی داستان بیان کرتا ہے جن کی شبانہ روز محنت سے آج ان کی مصنوعات عالمی منڈی تک پہنچ رہی ہیں ۔ 1950 کی دہائی کے اواخر میں جب کینٹن میلہ شروع ہوا تو اُس وقت چین کی بیرونی تجارت بالکل نہ ہونے کے برابر تھی۔آج چین دنیا کا سب سے بڑا تجارتی ملک ہے ، دنیا کا سب سے بڑا برآمد کنندہ اور دوسرا بڑا درآمد کنندہ ہے۔ 1990 سے قبل عالمی تجارت کے مجموعی حجم میں چین کا شیئر ایک فیصد سے بھی کم تھا جو تیزی سے بڑھتے ہوئے گزشتہ برس پندرہ فیصد تک ہو چکا ہے ، یوں چین عالمی تجارت میں امریکہ کے 8.1 فیصد اور جرمنی کے 7.8 فیصد سے کہیں آگے ہے۔

گزشتہ دو سہ ماہیوں کے تجارتی اعدادوشمار کو دیکھتے ہوئے یہ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ عالمی تجارت میں چین کے شیئر میں مزید اضافہ ہو گا ، اسی طرح کینٹن میلے کے لین دین کا مجموعی تجارتی حجم بھی مزید بڑھے گا۔ اس میلے کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ یہ چین کی اپنی کمپنیوں کے ساتھ ساتھ غیر ملکی کمپنیوں کو شرکت کے مساوی مواقع فراہم کرتا ہے تاکہ وہ دنیا کے سامنے اپنی مصنوعات کی نمائش کر سکیں، بیرونی کمپنیوں کو یہ فائدہ بھی ہوتا ہے کہ وہ چین کی بڑی منڈی سے آگاہی حاصل کرتے ہوئے چینی صارفین کی طلب کی روشنی میں اپنی مصنوعات بنا سکتے ہیں اور چینی عوام کی مضبوط قوت خرید سے استفادہ کر سکتے ہیں۔

 

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1328 Articles with 616855 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More