|
|
1857 کی جنگ آزادی نے جہاں ہندوستان کے لوگوں سے
آزادی چھین لی وہیں مسلمانوں پر دہری تباہی آئی ایک طرف حکمرانی انگریزوں
کے حصے میں آئی دوسری جانب ہندو جو مسلمانوں سے حکمرانی کا ادھار کھائے
بیٹھے تھے- انگریزوں کے آتے ہی اچھی ملازمتوں پر قابض ہو گئے، گویا
مسلمانوں کی معیشت تباہ ہو کر رہ گئی- |
|
سید احمد خان وہ پہلی شخصیت تھے جنہوں نے اس صورت حال کو
نا صرف بھانپ لیا بلکہ اس کا تدارک کرتے ہوئے مسلمانان ہند کو جدید انگریزی
تعلیم کی طرف متوجہ کیا- سید احمد خان 17 اکتوبر 1817 دہلی میں پیدا ہوئے،
سرسید احمد خان کے والد کا نام میر متقی تھا۔ سرسید کے آباؤ اجداد تاریخ کے
مختلف ادوار میں مغلیہ دربار سے وابستہ رہے، خود سید احمد خان نے ایسٹ
انڈیا کمپنی کی ملازمت اختیار کی- کچھ عرصہ ہندوستان میں مختلف مقامات پر
خدمات انجام دے رہے بعد میں دہلی میں منصف مقرر ہوئے، سید احمد خان بڑے گھر
میں ضرور پلے بڑھے مگر آپ کی والدہ عزیز النساء نے آپ کی تربیت میں کوئی
کسر نہیں چھوڑی- |
|
1838 میں والد کی وفات کے بعد بہادر شاہ ظفر کے دربار سے
عارف جنگ کا خطاب حاصل کیا، سر سید کی مختلف تحریروں میں 1859 میں ایک
رسالہ بنام اسباب بغاوت ہندمنظر عام پر آیا جس میں 1857 ء کی جنگ آزادی کے
حالات کا خلاصہ کردیا- اس تحریر کا مقصد انگریز حکمرانوں کو بغاوت اور اس
کے بعد مسلمانوں کے جذبات سے آگاہ کرنا تھا۔ |
|
1877 میں Muhammadan Anglo-Oriental College کے نام سے ایک درسگاہ
علی گڑھ میں قائم کی، اس درس گاہ نے بڑی ترقی حاصل کی، سید احمد خان کی اس
کو یونی ورسٹی بنانے کی خواہش تھی جو ان کی زندگی میں تو پوری نہیں ہو سکی-
اس درسگاہ کی خاص بات یہ تھی کہ یہاں ذریعہ تعلیم انگیریزی تھی اور مغربی
علوم کے ساتھ ساتھ دینیات کو لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جاتا تھا- علی
گڑھ یونی ورسٹی سے فارغ التحصیل کئی نامور مسلم لیگی لیڈر جن میں پاکستان
کے 2 وزارائے اعظم جن میں لیاقت علی خان خواجہ ناظم الدین بھی شامل ہیں۔ |
|
|
|
سر سید ہی بر صغیر کی وہ پہلی شخصیت تھے جنہوں نے سب سے
پہلے دو قومی نظریہ پیش کیا وہ بہت جلدی اس بات کو سمجھنے میں کامیاب ہو
گئے کہ مسلمان اور ہندوؤں زیادہ عرصے ایک دوسرے کے ساتھ نہیں چل سکیں گے-
مسدس حالی کے خالق مولانا الطاف حسین حالی نے حیات جاوید کے نام سے سر سید
احمد خان کی سوانح عمری میں یہ واقعہ تحریر کرتے ہیں کہ’’ بنارس میں بعض
ہندو معززین نے یہ کوشش کی کہ اردو کے بجائے ہندی کو عدالتی اور سرکاری
زبان بنا دیا جائے، سر سید احمد خان کو جب اس واقعے کا علم ہوا تو سر سید
نے واضح الفاظ میں کہا ہندو اور مسلمانوں کا ایک قوم کی حیثیت سے ساتھ چلنا
اب ممکن نہیں ‘‘- |
|
یورپین اقوام کی یہ عادت ہے کہ شان رسالت ﷺ پر حملہ آور
ہونا، ایسی ہی ایک گھناؤنی حرکت ایک برطانوی سر ولیم مور نے بھی کی جس نے
1861 میں حضور اکرم ﷺ کی زندگی پر ایک متنازع کتاب لکھ ڈالی- جس پر سر سید
کا دل بہت دکھا اور آپ نے اس کتاب کا جواب بھی کتاب سے دینے کا فیصلہ کیا،
سر سید نے لندن نے اپنے دوست کو خط لکھا ’’مجھے اس کتاب کا جواب دینا ہے،
تم چاہے راجہ جے کرشن سے قرضہ لے لو چاہے میری دہلی والی حویلی فروخت کر دو
مجھے اس کا جواب دینا ہے، سر سید نے اس کتاب کا جواب دیا اور خوب دیا- |
|
اس کی تحقیق کے لیے سر سید احمد نے بر طانیہ کے کتب
خانوں کی خاق چھانی اور مغربی اسکالرز کی کتابوں سے ریفرنس لے کر ایک
شاندار کتاب تحریر کی جو یقینا ان کی ادبی اور دینی خدمات میں نہایت اہم ہے- |
|
|
|
برصغیر کے یہ نامور مصلح 27 مارچ 1898 ء کو انتقال
کر گئے سر سید کو علی گڑھ یونی ورسٹی کی مسجد کے احاطے میں ہی سپرد خاک
کردیا گیا ۔ |