ہمارے ہاں جب کسی لڑکی کی شادی ہونے والی ہوتی ہے تو عام
طور پر مائیں جہیز کی تیاری میں لگ جاتی ہیں۔ زیادہ سے زیادہ بنیادی مسائل
ازبر کروائے جاتے ہیں۔ مگر شائد ہی کوئی گھرانہ ایسا ہو جو اپنی بیٹیوں کی
سیرت ازواج مطہرات سے انہیں روشناس کروائے اور باقاعده پڑھائے۔ باغ رسالت
میں گلدستہ ہائے ازواج کا ہر پھول نرالا ہے اور صرف ان کی عادات پڑھ لینے
سے بدن خوشبو سے بھر جاتا ہے۔ مفتی عبد الواحد قریشی فرماتے ہیں کہ ایک
موبائل کی کمپنی اپنی پروڈکٹ لانچ کرنے کے لئے ایک سیمپل موبائل پیش کرتی
ہے تا کہ ناظرین کے سامنے اس کے تمام فیچر واضح ہو جائیں۔ اسے ماسٹرپیس
کہتےہیں
ا سی طرح اللہ تبارک نے صحابہ و صحابیات کو آئیڈیل ماڈل بنا کر پیش کیا اور
تمام شعبہ ہائے زندگی کے مسائل سے انہیں گزارہ تاکہ رہتی دنیا کے لئے تمام
فیچرز واضح ہو جائیں۔
لیکن افسوس کے ساتھ کہونگی کہ آپ اسلام آباد کے کسی بھی بڑے گرامر سکول میں
جا کر بچیوں سے پوچھ لیں کہ ازواج مطہرات کے نام کیا ہے تو سوائے ایک دو کہ
باقی سب نا آشنا اورنا بلد ہونگی
کبھی اے نوجوان مسلم تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا جس کا تو ہے ٹوٹا ہوا تارہ۔
بچیوں کو اصل اسوہ حسنہ دکھایا ہی نہیں گیا اور پھر بچیاں ماہرہ خان، صبا
قمر اور مہوش حیات کو اپنا ہیروئن اور ماڈل سمجھ بیٹھتی ہے۔ نظریہ حیات
مادیت پر مبنی ہے۔ دیدۃ بینا سے سب محروم ہیں۔ اور دوسری طرف اگر کوئی سیرت
صحابیات اور زواج مطہرات کو دیکھتا ہے تو سمجھ آتی ہے کہ زندگی کے نشیب و
فراز کیسے سہتے ہیں۔ وہ کیا آداب تھے جس نے اماں ہاجرہ کو ایک ویران صحرا
میں شیر خوار بچے کے ہمراہ اکیلے رہنے پر مائل کردیا۔ آخر وہ کونسی عشق کی
رمز تھی جس نے صبر عفت اور نیکی کے ساتھ مریم علیہ السلام کو پورے جہاں کے
سامنے تہمت کا سامنا کروایا۔اور وہ جو صبر و وفا کی دلیل و مجسمہ محبت تھی
حضرت خدیجہ جنہوں نے ہر طوفان میں ہر سونامی میں شوہر کی اطاعت و نصرت کی۔
کبھی شکوہ زبان پر نہیں لائی، دو بچوں کو بھی کھویا، بیٹیوں کی طلاقیں بھی
دیکھی۔
لیکن شوہر کی
نصرت کی خاطر کھڑی رہی
آج ٹی وی دیکھ کر اپنی زندگی کو فیری ٹیل سمجھنے والی لڑکیوں کو سیرت عائشہ
رضہ دیکھنے کی اشد ضرورت ہے۔کہ کیسے وہ اپنے شوہروں سے لاڈ اٹھواتی تھی۔
گویا ذہانت، شوخی، بچپنا اور میچورٹی ایک ہی شخصیت میں ملتے ہے۔ ان کا
غزوات تک میں زیب وزینت اختیار کرنا زیور (ہار) پہننا ان بیٹیوں کے لئے
پیغام ہے کہ شوہر جس بھی مصائب سے گزر رہا ہو اسے بیوی سجی سنوری ہی چاہئے۔
اور یہی دل جیتنے کا نسخہء کیمیاء ہے۔
اور دل کا راستہ پیٹ سے ہو کر گزرتا ہے۔ جیسے اماں صفیہ رضہ مزیدار کھانا
بناتی تھی۔ سنجیدہ اور سگھڑ خاتون تھی۔ آج کل نند بھابھی کی دیرینہ عداوت
ہوتی ہے۔ ان کی سیرت دیکھو ،سوکنوں کا سلوک دیکھو
!اماں صفیہ نے ثرید بنایا۔ محمد ص اور عائشہ رضہ کو پیش کیا۔ عائشہ رضہ نے
کھانے سے انکار کیا تو حضرت صفیہ رضہ نے مزاح میں کہا کہ کھاؤ نہیں تو منہ
پر مل دونگی اور آخر منہ پر لیپ دیا یہاں تک کہ رسالت مآب مسکرانے لگے۔
یہ تجلیات نبوت تھے جس نے ایک سردار کی شہزادی بیٹی حضرت جویریہ رضہ کو
نہایت صبر کے ساتھ کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مائل کر دیا۔
گویا سیرت صحابیات کا ہر پہلو روشن مینار کی طرح گائیڈ کر رہا ہے۔ محرم
رسالت صلی اللہ علیہ وسلم ہر فرد عمدہ نمونہ ہے۔ گلشن مصطفی صلی اللہ علیہ
وسلم کا ہر پھول نرالا ہے۔
حضرت حفصہ رضہ نیکی کا پیکر، پیسے جمع کر کر غریبوں کی امداد کرتی۔ روزہ
زیادہ رکھتی اور ہر وقت اسی کوشش میں رہتی کہ شوہر کو کیسے راضی رکھنا ہے۔
اور ہر معاملے میں آزادانہ رائے دینے والی تھی حضرت سودا جس نے شوہر کی
خوشنودی کی خاطر اپنا حق چھوڑدیا۔ حضرت زینب جو امام المساکین کہلائی۔
حضرت فاطمہ رضہ پانچ کلمات لے کردنیا کی تمام آسائشوں کو چھوڑنے پر راضی
ہوگئیں۔
یہ کہہ کر جان نہیں چھڑوائی جاسکتی کہ وہ عظیم پاک صاف خواتین تھی۔ یہ دین
ہر عام و خاص کے لئے اور وہ ہمارے نبی عملی نمونہ ہے۔
ہاں یہ بات ٹھیک ہے کہ ان کے شوہر عظیم تھے ان جیسا کوئی نہیں تو آپ کے
شوہر کو بھی نبوی تعلیمات حاصل کرنی چاہیئے۔ تاکہ اپنی بیویوں سے اچھا سلوک
کرے چونکہ قبر میں حقوق العباد میں سب سے پہلے بیوی سے کیا سلوک رکھا پوچھا
جائے گا۔
اور تیسری یہ بات کہ جیسے حضرت آسیہ رضہ نے اپنے عجز سے قصر مصر میں ظالم
جابر فرعون کے ساتھ گزارہ کر لیا اور اپنے لئے اللہ کے عرش کے سائے میں گھر
خرید لیا۔
تو ہم ایسا کیوں نہ کریں۔
واللہ میں یہ نہیں کہہ رہی کہ ہر ایک ظلم سہہ جاؤ حد سے نکلے مرد کے ساتھ
گزارہ کریں بلکہ اپنے اخلاقیات بہتر کرے اور مشکلات سے نکلنے کے لئے پہلے
رول ماڈل کو ایک دفعہ پڑھ لیں۔
راقمہ الحروف نے اپنی وکالت کے دوران ایسی عورتیں بھی دیکھی ہیں جو خاوند
کے تشدد سے ذہنی مریضہ بن گئی۔ اور آخر کار خلع ہی لینی پڑی۔
اس لیے خدارا اپنی بیٹیوں کو سکھاؤ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی
ازواجی زندگی کس طرح رومانوی حسن سے مالا مال تھی۔
اود کمپرومائز کی آخری حد عزت نفس سے پہلے ختم ہو جاتی ہے۔
اور میرے نبی نے حجتہ الوداع پر رہتی دنیا کو پیغام دیا کہ عورتوں کے
معاملے میں اللہ سے ڈرو
!!
|