حضور اکرم ﷺ کی سیرت ِ طیبہ کا جائزہ لیں تو قدم قدم پر
ان کے رسول ہونے کی حقانیت کااظہار ہو تاہے آپ ﷺ کے کئی معجزوں اورکوشش کے
باوجود ابوجہل ایمان نہ لایا حالانکہ متعددبار وہ لاجوب بھی ہو ا لیکن
جھوٹی شان وشوکت اور اکڑ نے اسے دوزخی بنادیا آج کئی مسلمان فرقے بھی اپنی
جہالت کے باعث نبی پاک ﷺ کے معجزوں کو پس ِ پشت ڈال کر ان کی عظیم شخصیت کے
اس پہلو کو ماننے سے انکاری ہیں یہ فتنہ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا ہی جارہاہے
حالانکہ نبی ٔ برحق ﷺ نے بہت سے انکشافات سال ہا سال پہلے کردئیے تھے وقت
نے جنہیں سچ ثابت کردیا ایسے لوگ اپنی جتنی جلدی اصلاح کرلیں وہی ان کے حق
میں بہتر ہے اﷲ تبارک تعالیٰ نے تو اپنے آخری نبی کو دنیا کے تمام مخفی اور
ظاہری علوم کو کھول کھول کر ان سے بہرہ ور کردیا تھا لیکن یہ لوگ ابھی تک
اس پر پھنسے ہوئے ہیں نبی پاک ﷺ کو یہ علم تھا یہ علم نہیں تھا ایسی باتیں
بنی ٔ معظم کی شان کم کرنے کی ناپاک جسارت ہے اور جاہل اور بھولے بھالے
مسلمان ان کے جھانسے میں آکر اپنا ایمان خراب کررہے ہیں یہ واقعہ تمام حدیث
کی کتابوں میں موجود ہے ایک مرتبہ مکہ کے نواح میں اراش کی بستی سے ایک شخص
اونٹ لے کرمکہ آیا۔ ابوجہل نے اس سے اونٹ خرید لئے، پھر قیمت ادا کرنے سے
انکاری ہوگیا۔ اراشی مایوس ہوکر قریش کی مجلس میں آیا اور ان سے مدد مانگی۔
اس نے کہا:’’ قریش کے لوگو! مَیں ایک اجنبی مسافر ہوں اور ابوالحکم بن ہشام
نے میرا حق مار لیا ہے، کون سا شخص مجھے میرا حق دلائے گا‘‘؟ اس وقت رسول
اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم مسجد کے ایک کونے میں تشریف فرما تھے۔
اہل مجلس میں سبھی منکرین حق تھے۔ انہیں شرارت سوجھی تو انہوں نے اراشی سے
کہا: ’’کیا تم دیکھ رہے ہو انہوں نے نبی پاک ﷺ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا
وہ شخص جو کونے میں بیٹھا ہے، وہی تمہارا حق دلا سکتا ہے‘‘۔ دراصل سردارانِ
قریش جانتے تھے کہ ابوجہل حضورِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم سے سخت عداوت رکھتا
ہے۔ وہ آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی سبکی چاہتے تھے اور مسافر سے مذاق کررہے
تھے ایک تماشا لگانا چاہتے تھے لیکن اﷲ تبارک تعالی ٰ نے اس واقعہ کو بھی
اپنے محبوب ﷺ کی شان دوبالا کرنے کا سبب بنادیا لہذااراشی رسول اﷲ صلی اﷲ
علیہ وسلم کے پاس پہنچ گیا اور جا کر کہا: ’’اے اﷲ کے بندے!
ابوجہل نے میرا حق مار لیا ہے اور میں اجنبی ہوں۔ ان لوگوں سے میں نے پوچھا
کہ کون مجھے میرا حق دلا سکتا ہے تو انہوں نے آپ کی طرف اشارہ کیا۔ پس آپ
میرا حق دلادیں، اﷲ آپ پر رحم کرے‘‘۔
آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم اْسی وقت اٹھ کھڑے ہوئے اور اس کے ساتھ چل دئیے۔
قریش کے لوگوں نے دیکھا تو اپنے میں سے ایک شخص سے کہا: ’’اے فلاں ان کے
پیچھے جا اور دیکھ کر آ کیا تماشا بنتا ہے‘‘؟
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اجنبی کو ساتھ لئے ابوجہل کے دروازے پر پہنچے اور
دستک دی۔
اس نے پوچھا: ’’کون ہے‘‘؟ فرمایا: ’’مَیں محمد ( ﷺ) ہوں، ذرا باہر نکلو‘‘۔
ابوجہل باہر نکلا آپ ﷺ کو دیکھ کر وہ پریشان ہوگیا اراشی نے بھی محسوس کیا
کہ ابوجہل کا تو اس کا رنگ اڑا ہوا تھا اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ اس کے
جسم میں روح نہیں ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اس شخص کا حق ادا کردو‘‘۔
ابوجہل نے کہا: ’’بہت اچھا! میں اس کا حق ابھی ادا کرتا ہوں۔‘‘ یہ کہتے
ہوئے وہ خاموشی سے اپنے گھر کے اندر چلاگیا، پوری رقم لے کر آیا اور اراشی
کے ہاتھ پر رکھ دی۔
آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے اراشی سے فرمایا:
’’اچھا بھائی خدا حافظ‘‘ اور آپ چل دئیے۔ اراشی قریش کی مجلس کے پاس سے
گزرا اور ان سے کہا: ’’اﷲ تعالیٰ اسے جزائے خیر عطا فرمائے، خدا کی قسم! وہ
بڑا عظیم آدمی ہے، اس نے مجھے میرا حق دلا دیا‘‘۔
جس شخص کو قریش کے لوگوں نے تماشا دیکھنے کے لئے بھیجا تھا، اس سے انہوں نے
کہا: ’’تیرا ستیاناس ہو، تْو نے کیا دیکھا‘‘؟
اس نے کہا: ’’میں نے عجیب ترین معاملہ دیکھا۔ خدا کی قسم جونہی محمد ﷺ نے
اس کے دروازے پر دستک دی اور وہ باہر نکلا تو میں نے دیکھا کہ اس کے جسم
میں گویا جان ہی نہیں۔ محمد ﷺ نے اس سے کہا کہ اس شخص کو اس کا حق ادا کردو
تو بغیر حیل وحجت کے اس نے اس کا حق ادا کردیا‘‘۔
تھوڑی دیر بعد ابوجہل بھی ان کی مجلس میں آ پہنچا تو لوگوں نے اس سے کہا:
’’تیری تباہی ہوجائے، تجھے کیا ہوگیا تھا؟ خدا کی قسم تو نے جو حرکت کی اس
کی تو ہمیں کبھی توقع ہی نہیں تھی‘‘ ہم نے اراشی کے ساتھ محمدﷺ کو اس لئے
بھیجا تھا کہ تماشا پورا مکہ دیکھے گا لیکن تم تو خودذلیل ہوکررہ گئے ۔ ان
کی باتیں سن کر ابوجہل نے کہا: ’’تمہاری بربادی ہو جائے، مجھے لات و منات
کی قسم! جونہی محمدﷺ بن عبداﷲ نے میرے دروازے پر دستک دی اور مَیں نے اس کی
آواز سنی تو میرے اوپر رعب طاری ہوگیا۔پھر مَیں دروازہ کھول کر باہر نکلا
تو کیا دیکھتا ہوں کہ اس کے سر کے اوپر فضا میں ایک خوفناک سانڈ جیسا اونٹ
معلق ہے۔ اس اونٹ جیسی کوہان، گردن اور دانت ،مَیں نے کبھی کسی اونٹ کے
نہیں دیکھے۔ خدا کی قسم مجھے یوں محسوس ہو اکہ اگر مَیں نے انکار کیا تو وہ
اونٹ مجھے کچا کھا جائے گا۔‘‘ (البدایۃ والنھایۃ، جلد سوم، 45) |