ربیع الاول کی آمد کی ساتھ ہی دنیا بھر کے مسلمانوں
کے دلوں میں میں مسرت کی لہر اٹھتی ہے جس کا نقطہ عروج اس ماہ مبارک کی 12
تاریخ ہوتا ہے۔ یہ وہ دن ہے جس روز
ہوئی پہلوئے آمنہ سے ہویدا۔۔دعا ئے خلیل و نوید مسیحا
رحمت عالم کی دنیا میں تشریف آوری انسانی تاریخ کا سب سے بڑا واقعہ ہے۔ آپ
کی بعث نے ایک ایسا انقلاب پیدا کیا جس سے انسانوں کے دلوں اور فکر ونظر
میں تبدیلی واقع ہوئی۔ انسانوں کو انسانوں کی غلامی کی آزاد کیا اور خدا کا
آخری پیغام قرآن حکیم کی صورت میں اولاد آدام کو ملا جس میں انسان کو خود
اس کے مقام سے آگاہ کیا گیا ہے۔ یہ ماہ مبارک، وہ دن اور وہ لمحات کتنے
عظیم تھے جب آپ ؐکی ولادت باسعادت ہوئی۔
جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند
اس دل آفروز ساعت پہ لاکھوں سلام
دنیا کی تمام اقوام اور مذاہب کو ماننے والے اپنے، قومی دنِ، اہم ایام اور
تہوارپورے جوش و خروش سے مناتے ہیں جس سے اُن کی قومی وحدت ، اپنے نظریہ سے
لگن اور اُس کے ساتھ اپنی وابستگی کا بھر پور اظہارہوتا ہے۔ اس طرح کی
تقریبات ایک طرح سے اُن کے ملی اور قومی جذبہ کا مظہر ہوتی ہیں۔ سورہ یونس
کی آیت ۵۸ میں اہلِ ایمان کو حکم دیا گیا کہ قرآنِ حکیم جیسی عظیم نعمت جو
بعثِ محمدیﷺ سے ممکن ہوئی، اس کے ملنے پر جشنِ مسرت مناؤ۔ قرآن صاحبِ قرآن
سے تو الگ ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ آپﷺ نے اپنی تئیس سال کی زندگی میں قرآن
کو عملاََ متشکل کر کے دیکھایا نیزاُم المومنین حضرت عائشہؓ کا ارشاد ہے کہ
حضورﷺ کا خلق قرآن تھا یعنی آپ مجسمِ قرآن تھے۔ اِس لیے نزولِ قرآن پر جشنِ
مسرت تو عیدالفطر کی صورت میں منایا جاتا ہے اور مجسمِ قرآن کے لیے جشن
ربیع الاول میں ہوتا ہے۔ سورہ مائدہ کی آیت تین میں دینِ اسلام کو نعمت کہا
گیا ہے اورجب دینِ اسلام نعمت ہے تو حضورﷺؑ بھی تو نعمت ہیں جن کی وجہ سے
ہمیں دین ملا ۔ بلکہ قرآنِ حکیم نے متعدد مقامات پر حضورﷺ کو واضع طور پر
اﷲ کی نعمت قرار دیا ہے۔ نعمت کا ذکر کرنے کے بعدیہ بھی ارشاد فرمادیا کہ
نعمت ملنے پر اُس کا چرچا کرو،اور نعمت کا شکرکرنے ِ کو عبودیتِ خداوندی
قرار دیا، نعمت ملنے پر اُس کا شکر ادا کرنے کے بارے میں تو قرآنِ حکیم میں
بہت زیادہ آیات ہیں۔ جب اﷲ تعالیٰ نے رسولِ اکرمﷺ کو نعمت قرار دیاہے بلکہ
آپ نعمتِ کبرٰی ہیں توآپﷺ کی ولادت پر خوشی در حقیت انہی قرآنی تعلیمات پر
عمل کرناہے۔ اﷲ نے آپﷺ کی بعث کو مومنین پر احسان قرار دیاہے۔ اب اِن تمام
آیاتِ قرآنی کی روشنی میں حضورﷺ کی ولادت پر خوشی کرنا درحقیت اﷲ کا حکم
بجا لانا ہے ۔ حدیث نبوی ہے آپﷺ نے ارشاد فرمایا ہے تم میں سے کوئی اُس وقت
تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک وہ مجھ سے سب زیادہ محبت نہ کرے۔جس سے محبت ہو
اُس کا تو اکثر ذکر ہوتا ہے اور جس کا عملی مظاہرہ قول و فعل سے نظر آتا
ہے۔
یہ دِن حضورﷺ کی ولادت کا ہو یا اِس دنیا سے تشریف لے جانے کا، دین کی
ابتدا کا دِن ہو یا تکمیلِ دین کی خوشی میں یا پھر ہجرت کے واقعہ کی یاد
میں ، اِس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کیونکہ مقصد ایک ہی ہوتا ہے اور وہ یہ کہ
قرآن حکیم اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں ختم المرسلینﷺ کا مقام و مرتبہ،
اُن کی شان بیان کرکے اُن کے ساتھ اپنی محبت کا اظہار کیا جاتا ہے اور اپنی
زندگی کو اُن کے اُسوہ حسنہ پر چلنے کا عزم کیا جاتا ہے۔ بہت سی روایات
ایسی موجود ہیں جن میں حضورﷺ نے اپنی ولادت کا تذکرہ کیا ہے اور آپﷺ اپنی
ولادت کے دِن یعنی پیر کو روزہ رکھا کرتے تھے ۔قرآن کی روشنی میں رسالت کا
مقام اور آپﷺ کے بارے میں قرآنی آیات کا مفہوم پیش کرنے کی محافل سے کسی کو
بھی اختلاف نہیں ہونا چاہیے۔
جہاں تک میلاد کی محافل کا تعلق ہے تو مجھے تویہ کہنا ہے کہ ہم نے اِن
محافل کو صرف مسلمانوں تک کیوں محدود کردیا ہے۔ حضور ﷺ تو پوری کائنات کے
لیے رحمت ہیں
آپﷺ پوری انسانیت کے رحمت ہیں اور سب سے بڑے سوشل ریفارمر تھے جن کی
تعلیمات کا ثمر آج کی تمام انسانیت لے رہی ہے۔ دنیا بھر میں مسلم ممالک کے
سفارت خانوں اور بالخصوص اقوامِ متحدہ میں اِس دِن کی مناسبت سے تقریبات
منعقد کرکے دنیا کو انسانی حقوق کے بارے میں رحمتِ عالم کی تعلیمات خصوصاََ
آپﷺ کے آخری خطبہ کو پیش کرنا چاہیے جو کہ حقوقِ انسانی کا عالمی چارٹرہے ۔
وہاں سب کو بتایا جائے کہ حضورﷺ نے غیر مسلموں، عورتوں، بچوں، زیر دستوں،
جنگی قیدیوں اور جانوروں کے حقوق کا جوچارٹردیا تھا اُسی سے روشنی
لیکراقوامِ متحدہ نے اپنا دستور بنایا ہے۔ اِس سے دنیا کو حضورﷺ کی شخصیت
اور اسلام کی اصل تعلیمات سے آگاہی ہوگی۔ مقامی تقریبات میں بھی دوسرے
مذاہب کے لوگوں کو دعوت دینی چاہیے۔
ذکرِرسولﷺ کی محافل سے اگر قلوب میں عشقِ مصطفٰے کی شمع روشن ہوتی ہے اور
حضور سے محبت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے تو یہ قابلِ تحسین ہے اور ان کے انعقاد
کی ترغیب دینی چاہیے۔ جب دِلوں میں محبت ہوگی تو پھرہی آپ ﷺ کی پیروی اور
اتباع ممکن ہوگی۔ میلاد کی محافل کے انعقاد ہی کافی نہیں بلکہ محبت کے
دعویٰ کا ثبوت عمل سے دینا ہوگا ۔ قرآنِ حکیم صرف ایمان لانے کو کافی نہیں
قرار دیتا بلکہ اس کے ساتھ عملِ صالح کی شرط عائد کرتا ہے۔ حضورﷺ سے محبت
کا تقاضا ہے کہ قرآن کو اپنی زندگی کا محور بنایا جائے ۔
|