سب کو سب نہیں ملتا۔

یا اللہ جی میری زندگی بہت مشکل ہے میں بہت نکمی بدصورت اور نا اہل ہوں مجھے کچھ بھی نہیں آتا ہے۔ میرا دل بہت خالی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ جی آپ میری دعائیں بھی نہیں سنتے۔ ترکی کے قالین کے اوپر مخمل جائے نماز بچھائے وہ بیس سالہ جوان صائمہ اپنے رب سے محو شکوہ تھی۔ سامنے کھڑکی پر ریشم کے پردے لگائے ہوئے تھے اور کمرے میں قیمتی لیدر کا صوفہ اور میز پر طرح طرح کے نوادرات سجا رکھے تھے۔ لیکن ان سب نعمتوں اور آسائشوں کے درمیان وہ اپنے رب کے سامنے آنسو ٹپکا ٹپکا کر اپنی ادھوری خواہشوں اور نامکمل حسرتوں کا سوال کر رہی تھی۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وہ نماز سے فارغ ہو کر کچن میں آئی۔ امی نے مزیدار پلاؤ، رائتہ، سلاد اور کھیر بنا رکھی تھی۔ کھانے کی مہک سے پورا گھر منور تھا۔
امی: صائمہ جلدی سے کھانا میز پر لگاؤ۔ تمہارے ابو گھر آچکے ہیں۔
وہ امی کا حکم فوراً بجا لائی۔ لیکن میز پر سب کے ساتھ بیٹھ کر وہ اپنی ہی سوچوں میں گم ہو گئی اور کھانا کھانا اس لئے دوبھر ہو رہا تھا۔
امی: صائمہ کے ابو۔ کل فریدہ باجی کے گھر جانا ہے۔ اسلم بھائی کا چالیسواں ہے آ پ کو یاد ہے ناں۔
ابو: ہاں جانا تو ہے مگر گاڑی میں نہیں ٹرین میں۔
امی: آہا، ٹرین کا برا سفر ہم کیسے کریں گے؟
ابو : فکر نا کرو میں نے بزنس کلاس کے ٹکٹ لئے ہیں۔ محسوس نہیں ہوگا۔ ویسے بھی ڈرائیور کل چھٹی پر جا رہا ہے۔ میں اتنی لمبی ڈرائیو کیسے کرونگا۔ ابو نے بات مکمل کی۔ امی نے سر ہلاتے ہوئے تسلیم کیا۔
۔ ۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔
اربعین کے موقعے پر قرآن خوانی کی گئی اور طرح طرح کے لذیذ کھانوں سے مہمانوں کی خاطر تواضع کی گئی۔ جب سبھی مہمان اپنے گھروں کو چلے گئے تو فریدہ باجی نے صائمہ اور اس کے ساتھ اس کی کزن کو یہ ڈیوٹی دی کہ ڈرائیور کے ساتھ قریبی بستی میں گھر گھر جا کر بریانی کے پیکٹ تقسیم کریں۔
ایصال ثواب کے لئے
جب وہ بستی پہنچی تو اندازہ ہوا کہ نا تو نالیاں پکی ہیں اور نا گھروں کے دروازے ہیں۔ کچے فرش چھوٹے گھر اور تنگ راستے جن میں نالیوں کی وجہ سے تعفن سر پر چڑھ رہا تھا۔
وہ گھر گھر گئیں اور ایک ایک پیکٹ پکڑاتی جاتیں۔ ایک گھر کے دروازے کی جگہ پردہ لگا تھا۔ اس نے پیچھے سے آواز دی۔ اسلام و علیکم! کوئی ہے۔ اندر سے ایک نفیس عورت جس کے چہرے پر غربت کی جھریاں ظاہر تھی۔
کہنے لگی۔ وعلیکم السلام بیٹا! اندر آؤ۔ اس نے اصرار کیا ۔ صائمہ اور کزن نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر ان کے گھر داخل ہوئیں۔
گھر کا فرش مٹی تھا جس پر پانی کا چھڑکاؤ کر کے ریت کو دبایا رکھا تھا۔ دیواریں سیمنٹ کی بنی تھی۔
وہ انہیں لے کر ایک کمرے کی طرف بڑھی جو شائد ان کا مہمان خانہ تھا۔ جس میں فرش پر ایک پھٹی پرانی لیکن صاف ستھری چٹھائی بچھا رکھی تھی۔۔اور بیٹھنے کے لئے ایک روئی کا گدا ڈبل کر کہ بچھا رکھا تھا۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی اس کی نظر سامنے ایک نماز پڑھتی ہوئی لڑکی کی طرف پڑی۔ جو نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ اپنے رب کے سامنے سجدہ ریز تھی۔ گویا اس خاتون کی سولاں سال کی بیٹھی تھی۔
ماں نے سیون اپ دو گلاسوں میں ڈال کہ پیش کی۔ اس کا مہمان نوازی کا انداز اپنی جگہ بہت شاہانہ تھا۔
لڑکی نے نماز مکمل کر کہ سلام پھیرا اور سامنے بیٹھی دو لڑکیوں کو دیکھ کر جن کے ہاتھ میں ایک بڑا سا پیکٹ بریانی کا تھا۔ اس کی أنکھیں ستاروں کی طرح چمکنے لگی۔ اس نے خوشی سے مسرور ہو کر کہا الحمداللہ اللہ جی آپ کا شکر ہے۔
صائمہ نے اس کا جائے نماز طے ہوتے ہی کھڑے ہو کر مصافحہ کے لئے ایک ہاتھ بڑھایا۔
اس نے دونوں ہاتھوں سے اس کا ہاتھ تھام کر اور گردن تھوڑی جھکا کر کہا۔ اسلام و علیکم آپ کا بہت شکریہ
صائمہ وعلیکم السلام۔ آپ مدرسہ پڑھتی ہیں؟
لڑکی: جی باجی دوسرے سال میں ہوں۔ اس نے بہت اعتماد کے ساتھ جواب دیا۔
اور صائمہ دل ہی دل میں خود سے شرمندہ ہونے لگی۔ سب جو سب کچھ نہیں ملتا لیکن جنہیں صبر و شکر کی نعمت مل جائیں وہ گداگری میں بھی اللہ کے درویش ہوتے ہیں۔
اور اللہ کے درویش اللہ کے دوست ہوتے ہیں۔

بس رب دل مرتضیٰ، سوز صدیق رض دے!!
 

Hafsa Saqi
About the Author: Hafsa Saqi Read More Articles by Hafsa Saqi: 49 Articles with 43457 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.