منظور وسان کا خواب

ہر دور میں، ہر معاشرے میں خواب بلا معاوضہ ہوتے ہیں۔ آنکھیں بند کیجیے اور خوابوں کی نگری میں پہنچ جائیے۔ اور کبھی کبھی تو خواب دیکھنے کے لیے آنکھیں بند کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی یا ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ آج کل ہمارا معاشرہ خواب دیکھنے کے دور ہی سے گزر رہا ہے۔ سندھ کے نئے نویلے وزیر داخلہ منظور وسان نے بھی منصب سنبھالتے ہی عندیہ دیا ہے کہ وہ خوابوں پر یقین ہی نہیں رکھتے بلکہ یقین رکھواتے بھی ہیں!

سندھ کے وزیر داخلہ کا ”کانٹوں بھری سیج“ جیسا منصب سنبھالتے ہی منظور وسان صاحب نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ انہوں نے خواب دیکھا ہے کہ پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے درمیان ڈیڈ لاک ختم ہوگیا ہے۔ بات یہاں تک رہتی تو ہمیں کوئی اعتراض نہ ہوتا کہ سیاسی بنیاد پر اِسی طرح کے خواب دیکھے جاتے ہیں اور جو اقتدار میں ہوں اُنہیں تو خواب دیکھتے رہنے ہی سے کام ہوتا ہے۔ مگر صاحب، منظور وسان ایک قدم آگے بڑھے اور یہ بھی فرمایا کہ ”میرے حلقے کے لوگ جانتے ہیں کہ میں جب بھی کوئی خواب دیکھتا ہوں تو وہ سچا ثابت ہوتا ہے۔“ اس خواب ہی کی روشنی میں انہوں نے بھرپور امید ظاہر کی کہ متحدہ بہت جلد سیاسی پارک میں بینچیں تبدیل کرلے گی یعنی حکومتی بینچوں پر آ بیٹھے گی، بلکہ اقتدار کے جمپنگ کیسل پر حکومت کے ساتھ کھیلنے کودنے لگے گی!
ہمیں مجروح سلطان پوری مرحوم کا شعر یاد آ رہا ہے
بات تو جب ہے کہ بھردے ساغر ہر خاص و عام
یوں تو جو آیا وہی پیر مغاں بنتا گیا

ہم پاکستانیوں کا ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ جو بھی آتا ہے وہ ہمیں ہنسا ہنساکر مارنا چاہتا ہے! زندگی نے ہمیں ایسا اور اتنا رُلایا ہے کہ جن سے مسائل کے حل کی توقع کی جاتی ہے وہ ہمیں کسی نہ کسی طرح ہنسانے بلکہ ہنساتے رہنے کو اپنے منصبی فرائض کا حصہ گرداننے لگے ہیں! جنہیں عوام مسائل کے حل کی ذمہ داری سونپتے ہیں وہ خوابوں کی نگری میں ڈیرے ڈال دیتے ہیں اور اس کے بعد ہمیں بھی غنودگی کی ڈوز دینے پر اکتفا کیا جاتا ہے۔

ڈیڈ لاک تو کیا ختم ہونا ہے، یہاں تو لاک ہی ڈیڈ دکھائی دے رہا ہے! ایسے میں کوئی چابی تلاش کرلی جائے تب بھی کون سا بھلا ہونے والا ہے؟ اور پھر منظور وسان صاحب کو خوابوں کی دُنیا اپنے حلقے تک محدود رکھنے کی کیا ضرورت تھی؟ خوابوں کی دُنیا تو لامحدود ہوتی ہے۔ آنکھ بند کرکے ہم پوری کائنات کا چکر لگاسکتے ہیں۔ ایسے میں اپنے حلقے تک محدود رہنا سندھ کے وزیر داخلہ کو زیبا نہیں۔

1988 سے پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے اشتراک عمل کا حوالہ دیتے ہوئے منظور وسان نے نوید سنائی کہ متحدہ کی ناراضی جلد دور کردی جائے گی۔ یہ بھی منظور وسان صاحب کا کمال ہے کہ 1988 سے اب تک کے پورے دور کو پی پی اور متحدہ کی دوستی اور اخوت کا زمانہ شمار کرلیا! ان کا ارشاد تھا کہ گھر میں چھوٹے بڑے بھائیوں میں لڑائی تو ہوتی رہی رہتی ہے۔ متحدہ سے تعلق رکھنے والے دوستوں نے استعفے ضرور دیئے ہیں مگر ہمیں استعفے قبول کرنے کی جلدی نہیں۔ بھائیوں کے درمیان لڑائی والی بات تو خیر تسلیم کی جاسکتی ہے کہ بھائیوں میں اختلافات ہوتے ہی ہیں۔ مگر صاحب! بھائی جب ایک دوسرے کو ”بھائیوں“ کی طرح برتنے لگیں تب؟ متحدہ سے دوستی اور ”اُخوت“ اب پیپلز پارٹی کے لیے کچھ کچھ خواب ہی کا معاملہ ہے۔ مگر مرزا نوشہ فرماگئے ہیں۔
تھا خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ
جب آنکھ کھل گئی تو زیاں تھا نہ سُود تھا

سیاسی مصلحتیں بسا اوقات اقتدار کے ایوان میں بیٹھے ہوئے انسانوں کو اس قدر مجبور کردیتی ہیں کہ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی زمینی حقائق کو یکسر نظر انداز کردیتے ہیں۔ اِس کا نتیجہ، ظاہر ہے، بہت بھیانک نکلتا ہے۔ فرحت شہزاد نے کہا ہے۔
کھلی جو آنکھ تو وہ تھا، نہ وہ زمانہ تھا
دَہَکتی آگ تھی، تنہائی تھی، فسانہ تھا

جب کسی نے کراچی میں مہاجر صوبے سے متعلق وال چاکنگ کا ذکر کیا تو منظور وسان صاحب نے فرمایا کہ اگر کوئی مہاجرستان صوبے کے قیام کا خواب دیکھ رہا ہے تو یہ اُس کی بھول ہے! پھر وہی ہنسانے والی بات! یہ تو کوئی بات نہ ہوئی کہ آپ جب چاہیں اپنی مرضی کا خواب دیکھیں اور کسی دوسرے کے خواب کو برداشت کرنے سے انکار کردیں!

منظور وسان صاحب نے ایک اچھا راستہ دکھایا ہے ۔ آپ سوچیں گے اس میں حیرت کی کیا بات ہے، راہ نُما ہوتا ہی راستہ دکھانے کے لیے ہے۔ حق یہ ہے کہ جنہیں ہم راہ نُما قرار دیتے آئے ہیں انہوں نے تو ہمارے راستے ہی ڈکار لیے ہیں! ایسے میں خیر کی ہر بات کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ اگر صوبے کے مزید دو چار وزراءبھی خواب دیکھنے کی عادت ڈال لیں تو بہت سے مسائل کچھ کئے بغیر ہی حل ہو جائیں گے۔ آپ شاید اختلاف کرتے ہوئے یہ کہیں کہ جنہیں اقتدار نہیں ملتا وہ خوابوں کی دُنیا میں رہتے ہیں اور جب اقتدار مل جاتا ہے تو خوابوں کی تعداد اور شدت بڑھ جاتی ہے اور وہ خوابوں کی نگری سے باہر آنے کا سوچتے بھی نہیں۔ حد یہ ہے کہ تمام تنازعات اور اختلافات خوابوں ہی میں دور کرلیے جاتے ہیں اور اتحادیوں کو منانے کا بھاری پتھر بھی خوابوں ہی میں اُٹھایا جاتا ہے! حالات کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ارباب بست و کشاد خوش فہمی کی بھنگ کا پیالہ چڑھاکر خوابوں کی دُنیا میں گم رہا کریں! بھنگ بھی کیا چیز ہے۔ ہی تو غریبوں کا نشہ مگر ”اعلیٰ“ سطح پر بھی اپنے مستانہ جلوے خوب دکھاتی ہے!

فی زمانہ سندھ کی وزارت داخلہ بھی کسی بھیانک خواب سے کم نہیں! مشفق خواجہ مرحوم نے لکھا تھا کہ آج کی ادبی دُنیا کے محقق دوسروں کے چراغ سے چراغ جلاتے نہیں، بلکہ اُن کا چراغ ہی اٹھا لاتے ہیں! سندھ کی وزارت داخلہ کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ اِس وزارت کے ساتھ زندگی بسر کرنا کسی بھیانک خواب کے آغوش میں زندگی بسر میں جینے سے کم نہیں۔ ایسے میں مزید کوئی خواب دیکھنے کی ضرورت ہے نہ گنجائش!

ہوسکتا ہے کہ سندھ کی وزارت داخلہ منظور وسان صاحب کے لیے کسی خواب کی تعبیر ہو مگر کراچی میں امن کے قیام کا چیلنج جاگتی آنکھوں کا خواب نہیں، بلکہ گراؤنڈ ریئلٹی ہے اور اِسے ”گراوؤنڈیڈ ریئلٹی“ ہونے سے بچانا حکومت کا سب سے بڑا کارنامہ ہوگا۔ یہ وہ بھاری پتھر ہے جسے محض خواب و خیال میں نہیں اُٹھایا جاسکتا۔
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 486373 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More