دیکھے کوئی کہ ہم بھی تماشے سے کم نہیں

ایک زمانہ تھا جب ہم دنیا کو حیرت سے دیکھا کرتے تھے۔ اب معاملہ یہ ہے کہ دنیا ہمیں حیرت سے دیکھتی، بلکہ تکتی ہے۔ دُنیا یقیناً دیکھنے کی چیز ہے مگر اُس سے کہیں زیادہ قابل دید تو ہم ہیں! اور کیوں نہ ہوں؟ احتجاج کے نام پر ہم اپنے ہی جیسے انسانوں اور اپنی ہی معاشی سرگرمیوں کا قتل عام کرتے ہیں۔ اور ستم بالائے ستم یہ کہ اِس پر شرمندہ ہوتے ہیں نہ کبھی نتائج پر غور کرنے کی زحمت گوارا کرتے ہیں! کیا جون ایلیا نے غلط کہا تھا؟
بے دِلی! کیا یونہی دِن گزر جائیں گے؟
صرف زندہ رہے ہم تو مر جائیں گے!

دنیا بھر میں لوگ تفریح کے مواقع ڈھونڈتے ہیں۔ اور ہمارا حال یہ ہے کہ تفریحی سرگرمیاں ہمیں تلاش کرتی ہیں تاکہ ہم سے محظوظ ہوں۔ ہر معاملے کو ہنسی مذاق میں اڑانے کی روش نے ہمیں مضحکہ خیز بنادیا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس حالت کو پہنچنے پر بھی فخر کیا جارہا ہے!

جب پورا معاشرہ بازار بن جائے گا تو کون سی چیز ہے جو فروخت نہیں ہوگی؟ پاکستان کا کچھ ایسا ہی حال ہے۔ جو چیز کہیں نہ بک پائے وہ پاکستان میں بک جاتی ہے۔ چھ سات سال سے یہی حال ٹی وی پروگرامز کا بھی ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ ان پروگرامز کے لیے اب ہم بک جاتے ہیں!

جنگل کے حیوانات کو دیکھنا ہو تو لوگ ٹکٹ خرید کر چڑیا گھر میں داخل ہوتے ہیں۔ دنیا بھر کے لوگ اگر پاکستانیوں کو دیکھنا چاہتے ہیں تو اچھی خاصی رقم خرچ کرکے اِتنی دور آنے کی ضرورت نہیں، سیٹلائٹ پر ہمارے ٹی وی چینلز دستیاب ہیں۔ دنیا بھر میں کوئی بھی شخص ٹی وی سیٹ کا سوئچ آن کرنے پر ہمیں دیکھ کر محفوظ ہوسکتا ہے! ٹی وی پروگرامز میں طرح طرح کے تماشے دیکھ دیکھ کر اب ہم بھی تماشے ہی تو کرنے لگے ہیں۔ احتجاج کے نام پر جو کچھ براہ راست نشر کیا جاتا ہے اُسے کیا کہا جائے گا؟ جس طرح بعض اداکاروں کی فلمیں دیکھ کر یہ سیکھا جاسکتا ہے کہ اداکاری کس طرح نہیں کرنی چاہیے، بالکل اُسی طرح ہمارے ٹی وی پروگرامز کی لائیو کوریج دیکھ کر دُنیا سیکھ سکتی ہے کہ زندگی کس طور بسر نہیں کرنی چاہیے!

ویسے تو انسان مختلف ادوار سے گزرتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں یہ کلیہ بھی پلٹ گیا ہے۔ مختلف ادوار ہم میں سے ہوکر گزرتے ہیں! اس وقت بے ہنگم میڈیا کا دور ہم میں سے ہوکر گزر رہا ہے! اور ہمارا یہ حال ہے کہ
رات کیا گزرے گی، ہم جاں سے گزر جائیں گے!

ہم جس دور سے گزر رہے ہیں وہ ہر معاملے میں لفظ گراں کے استعمال کا مستحق ہے، بلکہ سچ پوچھیے تو اب گرانی کی ارزانی ہے! گراں خوابی کا شکار کون ہے؟ ہم! گراں فروشی نے کسے جکڑ رکھا ہے؟ ہمیں! حالات کے ہاتھوں گراں باری نے کسے دبوچ رکھا ہے؟ ہمیں! اور اب تو گراں بینی بھی تقدیر نے ہمارے کھاتے میں ڈال دی ہے۔ گراں بینی نے ہماری بصیرت اور بصارت دونوں ہی کو سلب کرلیا ہے۔

آٹھ دس سال سے ہم ٹی وی چینلز کے سمندر میں غوطے لگا رہے ہیں۔ ناظرین بنے رہنے کی ہوس ہمیں ڈوبنے بھی نہیں دیتی کہ کہیں کچھ مِس نہ ہو جائے! عوام سانس بھی لے رہے ہیں تو ٹی وی سیٹس کی پکچر ٹیوبز کی مدد سے! ہر ملک کچھ نہ کچھ کرکے دوسروں سے آگے نکلنے کی تگ و دَو میں مصروف دکھائی دیتا ہے۔ ہمارا حال یہ ہے کہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں اور ”پدرم سلطان بُود“ کی رٹ لگائے ہوئے ہیں۔ لوگ اپنا بھرپور قیمتی وقت بے سر و پا ٹی وی پروگرامز کی نذر کرکے سمجھتے ہیں کہ بہت بڑا تیر مار لیا۔ یقیناً
جو لوگ کچھ نہیں کرتے، کمال کرتے ہیں!

اگر ٹی وی دیکھنے کے دورانیے کی بات ہو تو بحیثیت قوم شاید ہم گنیز بک آف ورلڈ میں جگہ پاجائیں۔ پاکستان میں آبادی میں اضافے کی رفتار سے چار گنا رفتار سے ٹی وی ناظرین کی تعداد بڑھتی جارہی ہے! دنیا کی توجہ ابھی اس طرف گئی نہیں، ورنہ وہ ہمارے سے ناظرین درآمد کرے۔ کوئی دیکھے تو سہی کہ ہم کس انہماک سے ٹی وی دیکھتے ہیں! وہ ٹی وی پروگرام بھی ہماری پسند کے معیار پر بخوبی پورے اترتے ہیں جنہیں دیکھنے سے زیادہ جھیلنے کے لئے تیار کیا جاتا ہے! اور شاید یہ پروگرام دکھا دکھا کر ہمیں مزید بہت کچھ جھیلنے کے لئے تیار کیا جارہا ہے! کیا یہی سبب نہیں کہ ہم ہر طرح کے حکمران، پارلیمنٹ، سرکاری ادارے، حالات اور پتا نہیں کیا کیا جھیلنے کے عادی ہوگئے ہیں؟

بہت سے لوگ اس قدر ٹی وی دیکھتے ہیں کہ جب ٹی وی نہیں دیکھ رہے ہوتے تب بھی اُن کے ہاتھوں کی انگلیاں تصوراتی ریموٹ کے بٹنوں پر رقص کر رہی ہوتی ہیں! غالب نے شاید ایسی ہی کسی کیفیت کے لیے کہا تھا۔
ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب میں!

الیکٹرانک چینلز نے جو ستم خواتین پر ڈھایا ہے اس کا کوئی جواب نہیں۔ خواتین کی سوچ اور رویے میں ایسی تبدیلی رونما ہوئی ہے کہ اب تو
.... پہچانی ہوئی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی!
اور کوئی پہچانے بھی تو کیسے کہ
دِل تو دِل، وہ دماغ بھی نہ رہا!

اب یہ ستم نہیں تو اور کیا ہے کہ گھر کی چار دیواری میں اپنے ہی لوگ بھی بدل گئے ہیں؟ گھر کے باہر حالات اور زندگی سے نپٹ کر جب لوگ تھکے ہارے گھر میں داخل ہوا کرتے تھے تو یہ سوچ کر دل کو ایک گونہ سُکون ملتا تھا کہ چلو، گھر والے تو اپنے ہیں اور گھر کا کھانا تو نصیب ہوگا۔ مگر صاحب وہ زمانے بھی ہوا ہوئے۔ اب وہ زمانہ کہاں کہ خواتین خانہ ماں کے بتائے ہوئے نُسخوں کی مدد سے کچھ پکائیں؟ خواتین خانہ کھانے پکانے کی تراکیب سکھانے والے چینلز اس قدر دیکھتی ہیں کہ اب اُنہیں ”خواتین کھانا“ کہنا مناسب ہوگا! جو کھانے وہ برسوں سے پکاتی آرہی ہیں اُنہیں ٹی وی پر دوبارہ سیکھتی ہیں تاکہ ”بے ذائقگی“ کے تابوت میں آخری کیل آسانی سے ٹھونکی جاسکے! ٹی وی پر دکھائے جانے والے کھانے تیار کرنے کی کوشش میں بہت سی خواتین نے ایسے ایسے تجربات اور اُن سے ایسے ایسے نتائج اخذ کئے ہیں کہ اب اُنہیں سائنس دان قرار دیا جاسکتا ہے! اور عجائب میں شمار کی جانے والی ڈِشوں کو خواتین نے اپنے شوہروں پر کچھ اِس قدر آزمایا ہے کہ وہ بے چارے چوہے ہوکر رہ گئے ہیں! بہت سی خواتین سات سمندر پار کی عجیب و غریب ڈش کھلاکر اپنے اپنے شوہر کے خلوص، محبت اور قوت برداشت کو آزماتی ہیں! اور بے چارے شوہر نادر روزگار ڈش کے نوالے حلق سے اتار کر اس کسوٹی پر کھرے اترتے رہنے پر مجبور ہیں!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 525034 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More