سُکوں کہیں بھی میسر نہیں ہے شوہر کو

جو چند باتیں ہم لاکھ کوشش کے باوجود اب تک سمجھ نہیں پائے ان میں ایک یہ بات بھی شامل ہے کہ دنیا بھر میں آج تک لوگ بیویوں کو کیوں سمجھ نہیں پائے! عورت اِس بات پر فخر کرتی ہے کہ وہ وفا کی پُتلی ہے۔ ہم بھی مانتے ہیں کہ عورت وفا کی پُتلی ہے مگر کبھی اِس بات پر بھی کسی نے غور کیا ہے کہ وفا کی اِس پُتلی ہی کے باعث بے چارے مردوں کی حالت پتلی ہے؟ بیویوں کی پتلی کمریا کے لیے بے چارے مردوں کی کمر تختہ ہو جاتی ہے! کبھی وفا کے اِن غریب پُتلوں کے بارے میں بھی کچھ سوچا جائے!

دُنیا بھر میں خواتین پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ شوہروں کا بھلا نہیں چاہتیں اور اُنہیں تکلیف ہی دیتی رہتی ہیں۔ ہم یہ سوچ کر دل کومطمئن کرلیتے ہیں کہ جب پوری دنیا ایک بات کہہ رہی ہے تو اُس میں کہیں نہ کہیں صداقت کا عنصر ضرور ہوگا! مرزا تنقید بیگ یہ بات ہضم کرنے کو تیار نہیں۔ اِس کا سبب یہ نہیں کہ وہ زن مرید ہیں۔ بھابی بے چاری تو اُن کی ”جور و جفا“ کے قصے سُناتے نہیں تھکتیں! بات یہ ہے کہ مرزا گھر میں خاصا کم وقت گزارتے ہیں۔ جب انٹر ایکشن یعنی ٹاکرا ہی نہیں ہوگا تو تکلیف کہاں سے ہوگی؟ کچھ دن قبل مرزا اخبار میں شائع ہونے والی ایک خبر لیکر ہماری خبر لینے آ دھمکے۔ اُن کا کہنا تھا کہ عورت کسی بھی حالت میں شوہر کا بھلا سوچنے سے باز نہیں آتی۔ ہم نے کہا کہ یہی سوچ تو خرابی کی اصل جڑ ہے۔ بیویوں کو ہر وقت شوہر کی فکر لاحق رہتی ہے۔ مگر اس فکر میں تشویش کا کم اور شکوک و تحفظات کا تناسب زیادہ ہوتا ہے! بیویاں اگر ہر وقت شوہروں کے بارے میں سوچتی رہتی ہیں تو بس یہی کہ کہیں کسی اور میں تو دلچسپی نہیں لے رہے، کسی سے زیادہ ہنسی مذاق تو نہیں کر رہے، کہیں محنت کی کمائی کسی اور کل مُوہی پر تو نہیں لٹا رہے! یہ وہ موضوع ہے جس پر ہر سُہاگن تنہائی میں گھنٹوں سوچ سوچ کر محظوظ بھی ہوسکتی ہے! گویا یہ اُن کا مینٹل وڈیو گیم ہے! بیویاں یہ نہیں سوچتیں کہ گھر کا معاشی بوجھ اٹھاتے اٹھاتے جن غریبوں کے کاندھے جھک گئے ہیں اور کمر میں خم آگیا ہے وہ تو اب کسی نازک کمریا کے خم کا سوچنے کے قابل بھی نہیں رہے! اور پھر ایسی کون سی کمائی اُن کے پاس بچتی ہے کہ کسی ایری غیری پر لٹاتے پھریں؟ بے چارے گھر کا خرچہ نکالنے کے بعد ڈبل پتی پان کو بھی ترستے ہیں! بیویوں کو ہر وقت مبتلائے تشویش دیکھ کر مرد بے چارے خاموشی کی زبان سے بس یہی استدعا کرتے رہتے ہیں کہ
تجھ کو پرائی کیا پڑی، اپنی نبیڑ تو!

خیر، جب ہم نے حیران ہوکر وضاحت چاہی تو مرزا نے ایک اخباری خبر دکھائی جس کے مطابق میکسیکو میں ایک خاتون نے غیر قانونی اسلحہ فروخت کرنے کے جرم میں اسیر اپنے شوہر سے ملاقات کے بعد اُسے جیل سے فرار کرانے کی کوشش کی۔ یہ عورت اپنے ساتھ سُوٹ کیس لیکر گئی تھی جس میں شوہر کو بٹھاکر وہ جیل سے باہر جانے لگی تو جذبات پر قابو نہ رکھ سکی اور اُس کا تمتماتا چہرہ دل کی کہانی سُنانے لگا۔ گارڈز کو شک گزرا۔ اُنہوں نے جب خاتون کو روک کر سُوٹ کیس کی تلاشی لی تو قیدی برآمد ہوگیا اور میاں بیوی گرفتار کرلیے گئے۔

ہم نے مرزا سے پوچھا کہ کوئی شخص سُوٹ کیس میں بھی جیل سے فرار ہوسکتا ہے؟ عام طور پر، محبت کے کیس میں، سُوٹ کیس لیکر تو لڑکیاں فرار ہوتی ہیں بلکہ گھر سے بھاگ جاتی ہیں!

مرزا نے شوہر کو فرار کرانے کی ناکام کوشش کرنے والی خاتون کے اخلاص سے بے حد متاثر ہوتے ہوئے کہا ”تم ہمیشہ حقیقت سے فرار کی راہ اختیار کرتے ہو۔ تمہارے ذہن پر گھر سے بھاگنے والی لڑکیوں کا تصور اب تک سوار ہے۔ بھلے مانس! آج کے زمانے میں ایسی عورتیں کہاں ہیں جو اپنے شوہروں کے لیے اِس حد تک جائیں؟“ ہم نے کہا جناب! عورتوں کا مسئلہ یہی تو ہے کہ وہ محبت، نفرت، خلوص، سادگی، رنگینی، بے بسی، جبر .... غرض ہر معاملے میں منطقی حدود سے گزرنے پر یقین رکھتی ہیں! شاید خواتین کی نفسیاتی ساخت میں یہ بات گھر کرگئی ہے کہ حد سے گزرے بغیر کوئی اُن کی نیت کے اِخلاص پر یقین نہیں کرے گا! سُوٹ کیس کے ذریعے فرار کرانے کی منصوبہ بندی حماقت کی نشاندہی کرتی ہے۔ اِتنا سننا تھا کہ مرزا بھڑک اُٹھے اور گفتگو کو چند بھاری الفاظ کی مدد سے وزنی بناتے ہوئے بولے ”منفی سوچ کا ایسا ہی نتیجہ برآمد ہوا کرتا ہے۔ ایک عورت اپنی وفا ثابت کر رہی ہے اور تم ہو کہ اُس کی نیت اور عقل پر شک کر رہے ہو۔ لکھنے کے لیے نکات کی تلاش میں رات دن منفی انداز ہی سے سوچتے رہتے ہو۔ اپنی یہ کالمانہ یعنی جاہلانہ سوچ اپنے تک ہی رکھا کرو اور کبھی کبھی دانش سے بھی کام لیا کرو۔“ مرزا جب ہم سے زیادہ تپ جاتے ہیں تو گفتگو کے دوران ساحل کی سی ہیئت اختیار کرلیتے ہیں یعنی منہ سے جھاگ اڑنے لگتا ہے! ایسے موقع پر ہم ”تپڑ ہے تو پاس کر، ورنہ برداشت کر“ والے مشورے پر عمل کرتے ہوئے اُن کے نزدیک آنے سے گریز کرتے ہیں۔

مرزا جب ہمارے خلاف کچھ کہنے پر آتے ہیں تو ایک ہی سانس میں اِتنا کچھ کہہ جاتے ہیں کہ لوگ غور سے سُنیں تو معروف گلوکار محمد رفیع مرحوم کا پکّا سانس بھی بھول جائیں! ایسے عالم میں آپ اُنہیں سمجھانے کی لاکھ کوشش کریں، وہ صرف اپنا راگ سُنانے اور منجن بیچنے پر یقین رکھتے ہیں۔ ہم نے وضاحت کی کہ بھائی صاحب! ایسا نہیں ہے کہ میکسیکو کی وہ عورت خاوند کے بغیر پریشان اور بیزار ہوگئی تھی۔ دراصل اُس سے یہ بات برداشت نہ ہوسکی کہ شوہر جیل میں ایک طرف پڑا سُکون سے زندگی بسر کرتا رہے۔ نہ رونا پیٹنا، نہ روز روز کی تو تو میں میں۔ یہ بھی کوئی زندگی ہوئی؟ کوئی بھی عورت شوہر کا اِس قدر آرام کس طور برداشت کرسکتی ہے؟ خوب سوچ بچار کرنے کے بعد اُس نے سُوٹ کیس کے ذریعے شوہر کو فرار کرانے کا منصوبہ تیار کیا تاکہ آسانی سے پکڑی جائے۔

مرزا کو ہماری بات سے ذرا بھی اتفاق نہ تھا۔ کہنے لگے ”پکڑے جانے کا خوف ہوتا تو وہ عورت سُوٹ کیس والی ترکیب آزماتی ہی کیوں؟ اور پھر اِس منصوبے کی ناکامی سے وہ خود بھی تو گرفتار کرلی گئی۔“

بس یہی تو وہ بات ہے جو مرزا کی سمجھ میں نہیں آ رہی تھی۔ ہم نے سمجھایا کہ بھائی! اُس عورت کے لیے یہ بات ناقابل برداشت تھی کہ شوہر جیل میں مزے سے پڑا رہے۔ اُس کا سُکون غارت کرنے کے لیے وہ خود بھی اب جیل میں ہے!

یہ بات سُن کر مرزا نے چند ناقابل بیان الفاظ کی مدد سے ہماری نفسیاتی ساخت کو ”خراج تحسین“ پیش کیا اور گھر کی راہ لی۔ جاتے جاتے اُنہوں نے یہ حتمی رائے بھی دی کہ اخبار کے لکھاریوں کو کچھ سمجھانے سے بہتر ہے کہ انسان اپنی بیوی کی دل جُوئی کرے۔ ہم نے الوداعی جملہ رسید کیا کہ آپ کے لیے موزوں سزا یہ ہے کہ آپ کو سُوٹ کیس میں بند کرکے بھابھی بھول جائیں کہ سُوٹ کیس کہاں رکھا تھا!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 525057 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More