|
|
زندگی خوشی اور غمی کا مجموعہ ہے۔ کوئی بھی حالت ہمیشہ
رہنے والی نہیں ہوتی ہے مگر یہ انسانی فطرت ہے کہ اس کو خوشی کے پل مختصر
اور پریشانی کا وقت بہت طویل محسوس ہوتا ہے۔ ایسی ہی ایک پریشانی کا شکار
ٹیکساس سے تعلق رکھنے والا یہ جوڑا بھی ہوا- ڈیانا اور مارک آلگر ایک دوسرے
کے ساتھ خوش و خرم زندگی گزار رہے تھے ان کو اللہ نے چار بچوں سے نوازا تھا
اور پانچویں بچے کی آمد کی تیاری تھی- |
|
52 سالہ مارک کینسر کے مرض کے مبتلا تھا مگر اس کا علاج
جاری تھا اور کافی حد تک وہ اس بیماری پر ڈاکٹروں کی مدد اور علاج سے قابو
بھی پا چکا تھا اور اس میں اس کی بیوی ڈیانا نے حاملہ ہونے کے باوجود بہت
ساتھ دیا تھا- |
|
ابھی یہ خاندان مارک کے کینسر کے خاتمے کی
خوشی پوری طرح ہی منا بھی نہیں پایا تھا کہ ڈاکٹروں نے اس خاندان کو ایک
بری خبر سنا دی- ڈاکٹروں کے مطابق کینسر کے مرض کے خاتمے کے لیے کی جانے
والی کیموتھراپی نے مارک کے پھیپھڑوں کو بری طرح متاثر کر دیا ہے جس کی وجہ
سے اس کے پھپھڑوں کو تباہ کر دیا ہے اور اس کے پھیپھڑوں میں فائبروسس ہو
چکے ہیں- |
|
|
|
مگر اس کے باوجود ڈیانا کو امید تھی کہ جب مارک کینسر کا
مقابلہ کر سکتا ہے تو اس بیماری سے بھی دواؤں اور اسٹیرائڈ کی مدد سے لڑ
سکے گا- مگر ڈاکٹروں نے ان کی اس امید کو بھی ختم کرتے ہوئے ان کو بتایا کہ
مارک کے پاس زندہ رہنے کے لیے صرف ایک ہفتہ ہے- |
|
اس موقع پر مارک نے اپنی آخری خواہش ظاہر کرتے ہوئے
بتایا کہ وہ اس وقت تک زندہ رہنا چاہتا ہے جب تک ان کے پانچویں بچے کی
پیدائش نہ ہو جائے۔ جب کہ ابھی اس بچے کی پیدائش میں دو ہفتے رہتے تھے- |
|
اس موقع پر اپنے شوہر کی محبت اور ان کی آخری خواہش کو
پورا کرنے کے لیے ڈیانا نے ایک مشکل فیصلہ کیا اور انہوں نے اس بچی کو دو
ہفتے قبل اس دنیا میں لانے کا فیصلہ کیا- ڈیانا نے اپنے اس فیصلے سے جب
ڈاکٹروں کو آگاہ کیا تو وقت کے نزاکت کو سمجھتے ہوئے انہوں نے اس مشکل
فیصلے میں ان کا ساتھ دیا- |
|
|
|
ننھی سوانا کو دیکھ کر مارک اپنی بیماری کو بھول گیا اور
اس نے بے ساختہ اپنی اس بچی کو اپنی آغوش میں لے لیا- مگر زندگی نے اس کو
زیادہ مہلت نہیں دی اور وہ سوانا کو گود میں لیے لیے کومہ میں چلا گیا اور
اسی حالت میں اگلے دن اس کی موت واقع ہو گئی- |
|
مگر ڈيانا کو اس حوالے سے خوشی تھی کہ اس نے اپنے شوہر
کو مرنے سے قبل ان کی آخری خواہش کو نہ صرف پورا کر دیا بلکہ ان کی بچی
سوانا اور اس کے باپ کی اکٹھی تصویر ساری زندگی کے لیے ان کو یاد دلانے کے
لیے کافی ہے- |