پچھلے چندبرس میں بڑے بڑے بزرگ ہمیں داغِ مفارقت دے گئے۔
دنیا ئے اسلام کے عظیم ہیرو ، رشک پاکستان اور جوہری سائنسدان محسنِ
پاکستان ڈاکٹر عبد القدیرخان گزشتہ کل 85 برس کی عمر میں داعیِ اجل کو لبیک
کہہ گئے ۔ اﷲ تعالی ان کی کامل مغفر ت فرمائے اور اپنی خاص رحمتوں میں جگہ
دے۔ یوم ِ تکبیر یعنی جس دن پاکستا ن دفاعی سطح پر ناقابل تسخیر بنا! کیا
گزشتہ20 سالوں میں ہمارے کسی حکومتی نمائندہ نے یومِ تکبیر کے موقع پر
ڈاکٹر عبد القدیر خان کو فون کرکے مبارکباد دی!! آج جب ڈاکٹر عبد القدیر
خان ہم میں نہیں رہے تو ہر ایک سیاستدان ، حکومتی نمائندہ اور وہ تمام جو
ان کی لمبی قید میں برضا شامل رہے ، وہ سب اظہارافسوس کا بیان دے کر فرض
کفایہ اداکر رہے ہیں۔بھوپال چھوڑ کر پاکستان کو اپنا مسکن بنا کر بھارت کے
مقابلے میں ایک ایٹمی قوت بنا نے والا ہیرو جب گیا تو نجانے کیا کیا ادھورے
خواب سجائے رخصت ہوا ہے! حقیقت ِحال یہ ہے کہ ڈاکٹر عبد القدیر خا ن جمہوری
و غیر جمہوری قوتوں سے کافی نالاں نظر آتے تھے۔
ستم دیکھئے کہ ہماے حکمرانوں نے ڈاکٹر عبد القدیر خان کیساتھ کیا سلوک
کیا!! جب جنوری 2004 میں، عبد القدیر خان کو امریکہ کی بش انتظامیہ نے
جوہری پھیلاؤ کے ثبوتوں کے حوالے سے مشرف کو بریفنگ دی کہ ڈاکٹر عبد القدیر
خان نے یورینیم کے پھیلاؤمیں کردار اداکیا ، تو عبد القدیر خان کو نہ صرف
گھر میں نظر بند کر دیا گیا بلکہ اس وقت کے آرمی چیف و صدر جنرل پرویز مشرف
نے ڈاکٹر اے کیو خان سے کہا کہ الزامات تسلیم کر لیں، نہیں تو امریکہ کے
حوالے کر دیا جائے گا ۔ میر ظفر اﷲ خان جمالی نے ایک انٹرویو میں کہا تھا
کہ جنرل(ر) پرویز مشرف اپنے ساتھیوں سے ڈاکٹر اے کیو خان کے خلاف پھیلاؤ کے
ثبوت مانگے تھے مگر وہ کہتے تھے کہ ایسے کوئی ثبوت نہیں ۔ان پر زبردستی
چارج لگایا گیا تھا جس پر میں نے بحیثیت وزیر اعظم سائن نہیں کیے
تھے۔اندازہ لگائیں !! ان الزامات کے باوجود بھی ملک و قوم کی ساخت بچانے کے
لیے ڈاکٹر اے کیوخان نے خود پر الزامات لے لئے اور اعتراف کر لیا۔ اس پاداش
میں ڈاکٹر اے کیوں خا ن تادمِ مرگ گھر پر نظر بندی میں چلے گئے ، اپنے
ادارے کے آر ایل کو بھی چھوڑنا پڑااور اس پروگرام سے بھی الگ ہونا
پڑا۔حالانکہ 2019 میں جب عدالت نے ڈاکٹر عبد القدیر خان کو آزاد شہری قرار
دیا ، تب بھی انہیں باہر آنے کی یا آزادانہ گھومنے کی اجازت نہ تھی۔ڈاکٹر
عبد القدیر خان کا فٹ پاتھ پر بیٹھ کر ایک معروف صحافی کو دیا گیا انٹرویو
ہمارے سامنے ہے جس میں وہ عوام کی بے رخی او رحکومتوں کی مکاری کا رونا رو
رہے ہیں۔ جب ان کا انٹرویو کیا گیاتو کوہسار مارکیٹ میں جگہ نہ ملنے کی وجہ
سے مجبورکچرے کے ڈبے کے سامنے فٹ پاتھ پر بیٹھ کر ہی انٹرویو دیا۔
عبد القدیر خان کو پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کے پروگرام کا باپ'' کہا جاتا
ہے۔ ہندوستان میں ایٹمی تجربات کے بعد جنوبی ایشیائی خطے میں توازن لانے کے
لیے ڈاکٹر عبد القدیر نے پاکستان کو اس مقام پر پہنچا یا جسے کبھی کوئی
میلی آنکھ دیکھنے کی جرات نہیں کر سکتی۔1951 میں پاکستان سے ہجرت کرنے والے
عبد القدیر خان نے مغربی یورپ کی ٹیکنیکل یونیورسٹیوں میں میٹالرجیکل
انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ سے تعلیم حاصل کی جہاں انہوں نے دھاتی مرکب، یورینیم
دھات کاری، اور گیس سنٹری فیوجز پر مبنی آسوٹوپ علیحدگی کے مرحلے میں تعلیم
حاصل کی۔ 1976 میں خان ریسرچ لیبارٹریز (کے آر ایل) کی بنیاد پر ایٹمی
ہتھیار تیار کرنے کی اپنی قوم کی خفیہ کوششوں میں شمولیت اختیار کی اور کئی
سالوں تک اس کے چیف سائنسدان اور ڈائریکٹر رہے۔
ڈاکٹر صاحب سے پوچھا گیا کہ ــ’’آپ کسی سے ناراض ہیں ؟ تو بتایا کہ عوام سے
نارض نہیں ہوں ، عوام تو بہت محبت دیتے ہیں ۔ میں ملک فروشوں اور نمک
حراموں سے نارض ہوں۔‘‘ایک دوسرے سوالـ’’ کہ آپ کی خوشی کااور غمزدہ لمحہ
کون سا تھا؟ تو ڈاکٹر صاحب کہنے لگے کہ جب 6 اپریل 1998 کو غوری میزائل
فائر کئے اور پھر 28 مئی کو ایٹمی دھماکے کیے تو بے حد خوشی ہوئی اور غمزدہ
لمحہ یہ ہے کہ جو میرے ساتھ ناروا سلوک کیا گیا وہ ناقابل برداشت تھا ، اور
جو لوگ خود غدار نکلے وہ ہمیں زندگی بھر غدار کہتے رہے۔
پاکستان کے ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبد القدیر خان پہلے پاکستانی ہیں جنہیں 3
صدارتی ایوارڈز سے نوازا گیا ۔ ڈاکٹر صاحب کو دوبار نشان امتیاز اور ایک
بار ہلالِ امتیاز سے بھی نوازا گیا۔10 اکتوبر 2021 کی صبح پھیپھڑوں سے خون
بہنے اور دیگر پیچیدگیوں کی وجہ سے اسپتال میں داخل کرایا گیا جہاں وہ
جانبر نہ ہو سکے اور خالق ِ حقیقی سے جا ملے۔انا ﷲ وانا الیہ راجعون |