محسن پاکستان پروفیسر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی رحلت
کی خبر پوری قوم پر سوگواریت کا اثر چھوڑ گئی. اس سے کچھ دن پہلے عمر شریف
کی موت بھی پہاڑ بن کر ٹوٹی تھی. بے شک ہم سب کی جان اللہ رب العزت کی
امانت ہے اور اسے اپنے مقررہ وقت پر ہمیں خالق حقیقی کو لوٹانا ہے اور یہی
وہ مقام ہے جہاں پر آکر ہر انسان مکمل طور پر بے بس ہوجاتا ہے. مگر یہاں
قابل ذکر بات یہ ہے کہ ایسے واقعات سے ملک بھر کے لوگوں کے ہاتھ ایک نیا
موضوع زیر بحث آجاتا ہے. چند روز تک سیاست دان اور باقی مقتدر حلقے سٹریم
میڈیا اور ٹیوٹر پر تعزیت نامے جاری کرتے ہیں , ٹی وی اینکروں کو ٹاک شوز
کے لیے ایک نیا موضوع مل جاتا ہے. ملک بھر کے ادیب اور لکھاریوں کو ان کی
شان میں لمبے لمبے قصیدے لکھنے کا موقع مل جاتا ہے. لیکن یہ بھی حقیقت ہے
کہ لوگ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی شان میں قصیدے کیوں نہ لکھیں اور ان کی مدح
سرائی کیوں نہ کریں کہ وہ ملک کے حقیقی ہیرو ہیں. ان کی وجہ سے ہی ہمارا
ملک ایٹمی طاقت بنا اور ہم ناقابل تسخیر ممالک کی صف میں شامل ہوگئے. جب ہم
میں مزید جنگوں کا بوجھ سہنے اور پاکستان کے مزید ٹکڑے ہوتے ہوئے دیکھنے کی
سکت نہیں رہی تب اس ایٹمی طاقت نے دشمن ممالک کو اس طرف نظر غلط ڈالنے سے
روکے رکھا.
مگر یہاں یہ بات اہم نہیں ہے کہ ہم اس ملک کو ایٹمی طاقت بنانے والے محسن
کے بچھڑنے کے دکھ کا شکار ہیں بلکہ یہ بات اہمیت رکھتی ہم ایک مردہ پرست
قوم بن چکے ہیں. زندہ انسانوں کی ہمارے ہاں کوئی قدر و قیمت نہیں. جب تک
کوئی زندہ رہتا ہے کسی کو خبر ہی نہیں ہوتی کہ وہ کس حال میں ہے, کیسا ہے.
مگر مرنے کے بعد اس کی خوبیاں ایک دم سے ہی ہم سب پر آشکارہ ہوجاتی ہیں.
دنیا کے کئی علاقوں میں سیاست بھی ہوتی ہے تو لاشوں پر , احترام بھی ملتا
ہے تو لاشوں کو , خوف آتا ہے تو لاشوں سے آتا ہے. یہاں زندہ انسان سے زیادہ
ایک میت کی اہمیت ہے . یہی وجہ ہے کہ زندہ انسان کی زندگی لاش سے بھی برتر
ہوتی جارہی ہے.
قیام پاکستان سے لے کر اب تک ہم نے صرف اس وقت آواز بلند کی ہے جب کہیں کسی
کی موت کا واقعہ ظہور پزیر ہوا ہو. چاہے پھر وہ طبی موت ہو یا غیر معمولی
نوعیت کا واقعہ. وگرنہ دیگر تو ہم قوت سماعت اور قوت گویائی سے محروم خاموش
تماشائی ہیں. یہی وجہ ہے کہ آج تک کسی بھی قتل اور دہشت گردی کے واقع کی
حتمی رپورٹ سامنے نہیں آئی. قیام پاکستان سے لے کر اب تک کے واقعات پر نظر
دوڑائیں تو یہ حقیقت آشکارہ ہوتی ہے کہ جن کو ہم مرنے کے بعد عزت و احترام
دیتے ہیں ان کی زندگی میں ہمارا ان کے ساتھ رویہ کیسا رہا ہے یا ان کی موت
مشکوک کیوں بن گئی ہے.
پاکستان کی تاریخ کئی ایسے اموات سے بھری پڑی ہے جو آج بھی ذہنوں میں شکوک
و شبہات کی شکل میں کئی سوال پیدا کرتے ہیں. اپنی زندگی کے آخری ایام میں
جب بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے تھے
تب زیارت سے کوئٹہ اور کوئٹہ سے کراچی پہنچنے تک جہاز میں کم آکسیجن والے
سلینڈر اور کراچی میں ایک حاضر سروس گورنر کے ایمبولینس کے خراب ہونے اور
خالق حقیقی سے ملنے کا واقعہ معمولی نوعیت کا واقعہ نہیں تھا لیکن تحقیقات
اور حتمی رپورٹ تاحال نادرد. قیام پاکستان کی کوششوں میں پیش پیش ہمشیرہ
قائد اعظم, محترمہ فاطمہ جناح کی زندگی میں انہیں ان کی لازوال خدمات اور
حب الوطنی کے اعتراف میں غدار وطن کا تمغہ ملنا اور پھر ان کی موت پر ان کے
جسم پر پائے جانے والے غیر معمولی نشانات کئی سوال کھڑے کرتے ہیں. سولہ
اکتوبر1951 کو ,تعمیر پاکستان کے معماروں میں شامل ایک بڑے نام, پاکستان کے
پہلے وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کا کمپنی باغ راولپنڈی جلسے میں
دوران خطاب قتل , مسلم لیگ کے مرکزی اور صوبائی رہنماؤں کی غیر موجودگی اور
فوراً ہی قاتل سید اکبر کا بھی قتل کئی سوالات چھوڑ گیا.
پاکستان کے سب سے بڑا عوامی لیڈر اور جمہوریت کے سب سے بڑے دعوے دار
ذولفقار علی بھٹو کی ایک طرف عوام کے لیے خدمات تو دوسری جانب قید بند کی
صعوبتیں اور پھانسی کی داستان بہت سے راز لے کر ماضی میں دفن ہوچکی ہے.
اسی طرح جنرل محمد ضیاءالحق کے جہاز کا فنی خرابی کے باعث کریش ہونا بھی اس
واقعے کو مشکوک بناتا ہے. آگے بڑھیں تو گورنر سندھ حکیم سعید کی شہادت کا
واقعہ اور پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم بے نظیر بھٹو کا جلسے میں
دہشتگردی کا شکار ہونا کئی جواب طلب سوال چھوڑ جاتا ہے. ایک اور اہم ترین
شخصیت بلوچستان کے بگٹی قبیلے سے تعلق رکھنے والے شہید اکبر خان بگٹی کی
زندگی بھر اسٹیبلیشمنٹ کا حصہ رہنے کے بعد آخر میں انہیں ڈکٹیٹر جنرل مشرف
کے جانب سے غدار کا لقب دے کر شہید کرانا اور اس کی لاش سے خوفزدہ ہوکر اسے
تدفین کے بغیر دفنانا بھی بہت سارے سوالیہ نشان چھوڑ جاتا ہے .
نواب اکبر خان بگٹی کی میت سے خوف کے حوالے سے اگر بات آگے بڑھائی جائے تو
زندوں کا خوف تو ایک عام بات ہے مگر اب دنیا اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ
میتوں کا خوف بھی پریشان کن ہے. موت تو بر حق ہے, چاہے موت طبعی ہو یا جبری
مگر دونوں ہی صورتوں میں اکثر لوگوں کے جست خاکی متعلقہ حکمرانوں کے لیے
باعث خوف بنتے ہیں. ایسی ہی صورت حال دنیا کے اکثر ممالک سمیت پاکستان اور
انڈیا کے حکمرانوں کو بھی در پیش ہے .
علی گیلانی کشمیر کا حریت پسند اور عظیم لیڈر جب موت کی آغوش میں گیا تو
دنیا کے ایک ایٹم بم بنانے والے ملک بھارت کے لیے خوف کا پیغام بن گیا. کم
و پیش ایسی ہی صورت حال پاکستان میں بھی ہے یہاں بھی ایسے کئی واقعات ملیں
گے جہاں میتیں خوف کی وجہ بن گئیں. نواب اکبر خان بگٹی کی لاش سمیت کریمہ
کی لاش کینیڈا سے اس کے آبائی علاقت مند پہنچانے تک خوف کا باعث بن گئی .
لاشوں کی باقی سیاست سے ہٹ کر اب تو لوگوں کو اپنا احتجاج ریکارڈ کروانے کے
لیے بھی لاشوں کا سہارہ لینا پڑ رہا ہے. دہشت گردی کے واقعات کا شکار ہزارہ
برادری کے لوگ اپنی درجنوں میت سمیت کوئٹہ میں احتجاج کر رہے ہوتے ہیں اور
ان کا یہ احتجاج باوجود سخت موسمی حالات کے گھنٹوں کے بجائے دنوں پر محیط
ہوجاتا ہے. کبھی زیارت کے دہشت گردی کا شکار متاثرہ پٹھان خاندان کے افراد
اپنے لواحقین کی لاشوں کے ساتھ مسلسل کئی دن احتجاج کرتے ہیں تو کبھی تربت
میں بلوچ مگر حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی اور میتوں کی بے
حرمتی الگ ہوتی ہے. لاشوں کی یہ بے حرمتی لاشوں کی اہمیت بڑھانے کا سبب
بنتی ہے .اس سلسلے میں پولیس ٹریننگ سینٹر کوئٹہ میں دہشت گردی میں ہلاک
ہونے والے ٹرینیز کی میتوں کو ایمبولینس کے بجائے ویگنوں کی چھتوں پر رکھ
کر دور دراز ان کے آبائی علاقوں تک منتقل کیا گیا. یاد رہے کہ یہ وہی دہشت
گرد ہیں جو نظریہ ضرورت کے تحت پہلے جہادی تھے پھر دہشت گرد بن گئے اور
الحمد اللہ آج پھر جہادی بن چکے ہیں.
لاش سے متعلق ایک اور دلچسپ واقعہ بھی قابل ذکر ہے. ماضی میں بلوچستان کے
ضلع خاران میں ملنے والی ایج خاتون کی حنوط شدہ ممی نے بڑی مقبولیت حاصل
کی. وجہ شہرت اس کا ممی ہونا نہ تھا بلکہ وہ قیمتی زیورات تھے جو وہ پہنے
ہوئے تھی. وقت کے ساتھ یہ سارے واقعات قصہ پارینہ بن گئے.
ان تمام اموات میں ایک بات تو قابل ذکر ہے کہ جو لوگ سیاسی جرائم کا شکار
ہوئے وہ تاریخ میں امر ہوگئے جب کہ ان کے قاتل گمنامی کے انھیروں کی نذر
ہوگئے.
واپس آتے ہیں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی جانب جو پاکستان کے اصل ہیرو ہیں.
انڈیا میں ڈاکٹر عبدالکلام کو ان کی جوہری خدمات کے عوض صدر کا درجہ دیا
گیا جبکہ ہم نے محسن پاکستان کو ان کی خدمات کا صلہ نظر بندی کی شکل میں
دیا. پروفیسر صاحب نہایت سادہ طبیعت کے انسان تھے. جیو ٹی وی پر ان کا
انٹرویو سہیل وڑائچ کے پروگرام 'ایک دن جیو کے ساتھ' نظر سے گزرا. جس میں
وہ سادہ لباس زیب تن کیے فٹ پاتھ پر بیٹھے سہیل وڑائچ کے سوالات کے جواب دے
رہے تھے . سہیل وڑائچ نے ایک سوال پوچھا کہ "ڈاکٹر صاحب کیا زندگی میں کسی
بات کا پچھتاوا بھی ہے" تو ڈاکٹر عبدالقدیر نے جواب دیا کہ "اس قوم کے لیے
کام کرنے کا" اور یہ ایک جملہ حکمران سمیت پوری قوم کے منہ پر طمانچہ ہونے
کے ساتھ لمحہ فکریہ بھی ہے.
ان کی موت کے ساتھ حسب معمول سب کے اسٹیٹس اور ڈیپیاں ان کی تصاویر سے سج
گئیں مگر کیا ڈاکٹر عبدالقدیر کی تصاویر کی ڈیپیاں لگانے سے ہم ان کا حق
اتار سکیں گے. اسے پہلے ہم نے ان کی ڈیپیاں کیوں نہیں لگائیں اور انہیں ان
کا شایان شان رتبہ کیوں نہیں دیا جب وہ ہمارے درمیان موجود تھے. کیا ٹیوٹر
پر تعزیتی بیانات, ٹی وی, اخبارات, سوشل میڈیا تبصروں اور ڈیپیوں سے ان کے
ساتھ کیے گئے ناروا سلوک کا مداوہ ممکن ہے.
عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے
یہ الگ بات ہے دفنایا بڑے اعزاز سے
یہ سارے واقعات ایک طرف زندگی کی بےثباتی کی داستان بیان کرتے ہیں تو دوسری
جانب زندہ انسانوں کی خود غرضی پر سوالات بھی اٹھاتے ہیں. زندہ لوگوں کو
نظر انداز کرنے سے لے کر مرنے کے بعد اکیس توپوں کی سلامی دینے تک اور
مجبور اور بے بس عوام کی لاشوں کی بے حرمتی تک کی داستانیں طویل ہیں. اس بے
حس ملک اور بے حس قوم میں یہ سلسلہ عشروں سے چل رہا ہے اور چلتا رہے گا
میڈیا, سوشل میڈیا, اخبارات اور صاحب قلم افراد اپنی قلم کی ذمہ داری
نبھاتے رہیں گے اور اس کے بعد سب بھول جائیں گے جب تک کہ کوئی نیا واقعہ
رونما نہ ہو جائے. ایک جگہ پڑھا تھا کہ
"زندہ قومیں اپنے محسنوں کو نہیں بھولتی بلکہ ان کے نقش قدم پر چلنے کی
کوشش کرتی ہیں اور ان کے مشن کو آگے بڑھاتی ہیں".
موت کے بعد کسی کی بھی تعلیمات اور خدمات کا اعتراف کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں
زندگی میں بھی ان کو جائز مقام دے کر اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دینا چاہیے.
|