مرحوم جنرل ضیاء الحق نے کسی غیر ملکی صحافی کو انٹرویو
دیتے ہوئے کہا تھا کہ ''ہمیں سیکھ لینا چاہیے کہ ہمیں اسی سمندر میں جینا
ہے جہاں شارک مچھلیوںکا بسیراہے '' دیکھا جائے تو پاکستان ایک ایسا جزیرہ
ہے جس کے چاروں طرف آتش فشاں پہاڑ ہر وقت لاوا ابلتے رہتے ہیں۔ ایران اور
چین پر کسی نے حملہ آور ہونا ہو تو پہلا حدف پاکستان ہوتا ہے۔ بھارت ہمارا
ازلی دشمن ہے اور افغانستان بھارت کا روائتی اور قدرتی دوست اور اتحادی ہے۔
اگر کبھی غلطی یا مجبوری سے کوئی افغان حکومت ہماری طرف مسکرا کر دیکھ لے
یا دوستی کا ہاتھ بڑھا بھی دے تو بھارت کی پشت پر کھڑی پاکستان دشمن عالمی
طاقتیں ملکر اسے نفرت اور عداوت میں بدل دیتی ہیں۔
ایسا ہی حال عرب مسلم ریاستوں اور حکمرانوں کا ہے۔ہم جو بھی کر لیں اور
جتنا زور لگا کر مسلم بھائی چارے اور امت واحد کے جذبے سے سرشار ہوکر عرب
بھائیوں سے محبت کا رشتہ قائم کریں وہ ہمیں ایک غلام ، ضرورت مند اور
بھکاری قوم ہی تصور کرتے ہیں۔ البتہ کاروباری حکمران خاندانوں کے معاملات
الگ ہیں۔ چونکہ یہ لوگ غریب اور مفلوک الحال پاکستانی قوم کا بچا کھچا
سرمایہ لوٹ کر عرب اور یورپ کے بینکوںمیںلے جاتے ہیںاور پھر وہی
کاروبارکرتے ہیںجس کی وجہ سے یورپ ، امریکہ ، بھارت اور مشرق وسطحٰی میں
انھیںہر طرح کاتحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔ ان لٹیرے سیاسی اور کاروباری
خاندانوں کی اہمیت کا اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بیان کردہ
ممالک میںان لوگوں کیلے قوانین میں نرمی کر دی جاتی ہے اور انھیں قانونی
تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔
پاکستان کے اندر رہتے ہوئے بھی انھیں کوئی بڑا خطرہ لاحق نہیں ہوتا۔ عدلیہ
اور انتطامیہ ہمیشہ سے ہی ان کے اشاروں پر چلتی آئی ہے اور آئیندہ بھی ان
دونوں اہم اداروں میں مثبت تبدیلی کا کوئی شائیبہ نہیں۔
ہر ادارے اور سیاسی لیڈر کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنی ناکامیوںاور کرپشن کا
ملبہ فوج پر ڈال کر سرخرو ہو جائے جسے عالمی سطح پر قبول کر لیا جاتاہے۔
پاکستانی صحافت میں بھی ایسے لوگوں کا ایک گروہ موجود ہے۔
جو صحافتی اخلاقیات کی پروا کیئے بغیر مفاداتی اور کاروباری صحافت کو اہمیت
دیتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے میڈیا سیل ہوں یا عالمی نشریاتی اداروںکی
نمائندگی یہ لوگ محض ڈالروں، پلاٹوں، غیر ملکی دوروں اور شاہانہ لوازمات
اور مراعات کے بدلے میں ملکی وقار ، قومی غیرت اور اسلامی اقدار و روایات
کا سودا کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔
پندرہ اگست کے دن طالبان کابل میں داخل ہوئے تو دنیا یہ دیکھ کر حیران ہوئی
کہ صدر اشرف غنی اور ان کے رفقائے کار سب سے پہلے ملک سے بھاگ گئے۔ جدید
ترین ہتھیاروں سے لیس تین لاکھ تربیت یافتہ فوج ہتھیار چھوڑ کر غائب ہو گئی۔
سڑکوں ، بیرکوں، پوسٹوں اور ڈیوٹی کے مقامات پر وردیوں کے انبار لگے نظر
آئے تو یوں لگا کہ افغان نیشنل آرمی جسے بھارت ، امریکہ اور امریکی اتحادی
ممالک نے تربیت دی تھی۔ اس وردی کے بوجھ سے آذاد ہو کر پر سکون زندگی کی
طرف لوٹ گئی ہے۔ دنیا کی تاریخ میں ایسا کوئی واقعہ نہیں کہ ملکی فوج نے
غیر ملکی وردی اور ہتھیاروں کی اس قدر تذلیل کی ہو۔
افغانستان میں بہت کچھ تاریخ میں پہلی بار ہوا اور آگے چل کر بھی شائد پہلی
بار ہی ہو مگر اس کا نقصان ہمیشہ کی طرح پاکستان ہی برداشت کریگا۔ کلنٹن
دور میں امریکہ نے افغانستان پر کروز میزائلوں سے حملہ کیا جن کی زیادہ
تعدادافغانستان تک نہ پہنچ سکی۔ بہت سے میزائل بلوچستان کے پہاڑوں اور
صحراوںمیں گرے جہاں انسانوں کا کبھی گزر ہی نہیں ہوا۔ کچھ بلوچ چرواہووں کی
عارضی بستیوں کے قریب گرے تو پتہ چلا کہ ان چھوٹے چھوٹے جہازوں کا نام کروز
میزائل ہے۔بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ حملہ بھی 9/11 کی طرح ایک معمہ
تھا۔ شائد یہ میزائل اپنی شیلف لائف پوری کر چکے تھے اور انھیں ڈسپوز آف
کرنے کا بہترین طریقہ انھیں افغانستان کی طرف پھینک کر نئی انوینٹری ترتیب
دینا تھا۔
امریکی سکندر مقدونی کی طرح افغانستان میں آئے اور قتل وغارت گری کے سابقہ
ریکارڈ توڑنے کے بعد اپنے جدید اسلحے اور ہتھیاروں کو زندہ انسانوں
پرآزمانے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ سوائے ایٹم بم کے امریک ہ اور اس کے
اتحادیوں نے افغانستان پر آگ اور لوہے کی برسات جاری رکھی۔ ایک نسل کو تباہ
کرنے کے بعد دوسری نسل کو گود لے لیا کہ شاید اسرائیل کی طرز پر ایک جدید
مغربی کلچر سے ہم آہنگ افغان معاشرہ قائم ہو سکے۔ کوریا، تھائی لینڈ،
کمبوڈیااور ملحقہ جزیروں پر تجربہ کرنے والے امریکی دانشور افغانستان میں
ناکام ہو گئے۔ ان کی یونیورسٹیوں ، کالجوں، فوج ، سول سروس حتٰی کہ این ڈی
ایس میں بڑی تعداد میں طالبان نے جگہ بنا لی۔ وہ جدید تعلیم سے تو آراستہ
ہو گئے مگر مدرسوں سے بنیادی تعلیم حاصل کرنے والے طالبان نے مغربی رنگ میں
ڈھلنے سے انکار کر دیا۔ اس کے بر عکس سویت یونین نے افغان طلبا و طالبات کو
وظیفے دیے اور ہزاروں لڑکوں اور لڑکیوں کو مشرقی جرمنی ، یوگوسلاویہ اور
وارساپیکٹ میں شامل ملکوں میں اعلٰی تعلیم دلوائی جس کی وجہ سے روسی انخلا
کے بعد تا دیر افغانستان پر سوشلسٹ کلچر کا غلبہ رہا۔
امریکی تسلط کے دوران اتحادی افواج اور ممالک جن میں بھارت سر فہرست تھانے
پاکستان کے خلاف سفارتی ، ثقافتی، صحافتی اور دھشت گردی کی جنگ کا آغاز کیا
تو تحریک طالبان پاکستان ، بلوچ لبریشن آرمی جسے پہلے سے ہی طالبان کی
اخلاقی ، سیاسی، مالی اور نظریاتی حمائت حاصل تھی کی تربیت اور اسلحے کی
فراہمی اپنے ذمے لے لی۔
طویل عرصہ تک پاکستانی قوم اور کاروباری قیادت اس زہم میں مبتلا رہی کہ ٹی
ٹی پی اور بی ایل اے کا تحریک طالبان سے کوئی تعلق نہیں۔ کرنل امام جیسا
شخص جس نے زندگی کا طویل حصہ افغانستان کے معاملات سلجھانے اور مجاہدین کی
صفوں میں اتحاد برقرار رکھنے میں صرف کیاوہ بھی یہ نہ سمجھ سکا کہ ٹی ٹی پی
اور افغان طالبان ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ ایک ٹیلیویژن انٹریو میں کرنل
امام صاحب نے فرمایا کہ ٹی ٹی پی والے چور اچکے ہیںانکا اسلامی جہاد کا
پرچم بلند کرنیوالے طالبان سے کوئی تعلق نہیں ۔سابق آرمی چیف جنرل (ر) مرزا
اسلم بیگ نے اپنی سوانح حیات ''اقتدار کی مجبوریاں'' میں بھی ایسے ہی
خیالات کا اظہار کیاہے۔ حیرت کی بات ہے کہ ہماری عسکری اور سیاسی قیادت کے
علاوہ نام نہاد دانشور بھی طالبان کو نظریات ، افکار اور روایات سے نہ صرف
غافل رہے بلکہ اپنی قوم کو آگاہی اور خطرات کی آمد سے بہرہ ور کرانے میں
بھی ناکام رہے۔ ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کو افغان طالبان ، افغان حکومت ،
بھارت، امریکہ اور پاکستان مخالف قوتوں سے لیکر نظریہ پاکستان کے دشمنوں کی
بھرپور حمائت حاصل رہی ہے۔ ایک طرف پاکستان افغانستان کی خفیہ سفارتکاری کا
مشن لے کرخاموشی سے انکا مددگار رہا اور تیس لاکھ سے زائد افغانوں کی
میزبانی کے فرائض سر انجام دیتا رہا۔ دوسری جانب طالبان ٹی ٹی پی کو
پاکستان کیخلاف استعمال کر تے رہے۔ آرمی پبلک سکول کے سانحے سے لیکر لاکھوں
پاکستانیوں کے قتل کی حمائت کرتے رہے۔ اور اب ہمیں ٹی ٹی پی سے مزاکرات
کرنے اور انھیں معاف کرنے کی تلقین کر رہے ہیں۔ اگرچہ مریم اور بلاول نے
گھونگلووں سے مٹی جھاڑنے کا فریضہ ادا کرتے ہوئے تبدیلی سرکار کے مزاکراتی
ایجنڈے کی مخالفت کی ہے۔ مگر دوسری جانب دونوں بڑی جماعتیں ٹی ٹی پی کے
سیاسی ونگ پی ٹی ایم کی حمائیتی اور مددگار ہیں۔ منظور پشتین کو زرداری اور
مریم کی سیاسی حمائت حاصل ہے اور میاں نواز شریف این ڈی ایس کے سابق سربراہ
سے بار بار مل چکے ہیں۔ ایک طرف طالبان قرآن و سنت کی بات کرتے ہیں اور
دوسری طرف بیگناہ بچوں اور معصوم شہریوں کے قاتلوں کو معاف کرنے کا غیر
شرعی ، غیر اخلاقی اور غیر قانونی درس دیکر بایئس کروڑ پاکستانیوں کی
وفاداری کا تمسخر اڑا رہے ہیں۔ ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کو صرف شہیدوں کے
وارث ہی معاف کر سکتے ہیں نہ کہ عمران خان اور اس کے اردگرد بیٹھے پختون
بیوروکریٹ اور وظیفہ خور مشیر۔ کاش عوام ان نام نہاد لیڈروں کے کاروباری
رویے کو سمجھنے کا شعور رکھتے اور سمندر میں رہتے ہوئے شارکوں سے نبرد آزما
ہونے کا فن سیکھ لیتے۔ آتش فشاں کے دھانے پر بسنے والی قوم کو احساس ہی
نہیں کہ ان کے سیاسی اور مذہبی لیڈر انھیں بچانے کی صلاحیت سے ہی محروم
ہیں۔ریاست مدینہ کا درس دینے والا عمران خان نہ صرف قرآنی تعلیمات سے نابلد
ہے بلکہ سیرت رسول اور غزوات رسول کی تشریح بھی ٹونے ٹوٹکوں کی روشنی میں
کرتا ہے۔ تاریح عالم گواہ ہے کہ فرعون بھی ایسا ہی ناسوتی علم رکھنے وا لے
استدراجی عاملوں کے نرغے میں تھا۔ جنھوں نے اسے اور اس کی قوم کو تباہی کے
گھڑے میں ڈال کر آنے والے ہر دور کے لیے عبرت کا نشان بنا دیا۔ ایک طرف
عمران خان طالبان کے غم میں مبتلا ہے اور دوسری جانب طالبان ڈیورنڈ لائن
پرکروڑوں روپے کی لاگت سے لگائی گئی بھاڑکی مخالفت کر چکے ہیں۔ عمران خان
کو ٹی ٹی پی کے ساتھ مزاکرات سے پہلے غزوہ بنی قریظہ کا مطالعہ بھی کرنا
چاہیے ۔ ورنہ جاتے جاتے وہ ملک و قوم کو ایک نئے عذاب میں مبتلا کر جائے
گا۔ |