ظریفانہ: ورون گاندھی کا کمل مرجھا گیا


للن پنجے نے کلن کمل سے پوچھا تم لوگوں نے بیچارے ورون گاندھی کو نیشنل ایکزیکیوٹیو سے باہر کا راستہ کیوں دکھا دیا ؟
کلن بولا یار یہ تو جگ ظاہر ہے ۔لکھیم پور کے معاملے میں ورون گاندھی سرکار کے خلاف کسانوں کے ساتھ کھڑا ہوگیا ۔
للن نے پوچھا تو کیا مظلوم کسانوں کا ساتھ دینا کوئی جرم ہے؟
کلن بولاجرم تو نہیں ہے مگراپنی ہی سرکار کی مخالفت کو کیسے برداشت کیا جاسکتاہے؟
لیکن ورون گاندھی مخالفت کب کی؟ اس نے تو ویڈیو شیئر کرکے ظلم کی مذمت کی اور انصاف کا مطالبہ کیا۔ اس میں کیا غلط ہے؟
ارے بھائی للن تم اتنا بھی نہیں سمجھتے کسان سرکار کے مخالف ہیں اور جو ان کا حامی ہو وہ بھی انہیں میں شمار ہوگا۔ دشمن کا دوست دشمن ہوتا ہے۔
اچھا چلو مان لیا لیکن اگر سرکار سے کوئی غلطی ہوجائے تو کیا اس کو ٹوکنا غلط ہے؟ اگر یہ نہیں کیا گیا تو اصلاح کیسے ہوگی؟
اوہو مجھے پتہ ہے لیکن اصلاح سرِ بازار ٹوئٹر پرتھوڑی نا کی جاتی ہے؟
اچھا یہ بتاو کہ اگر بند کمرے میں تنقید کی جائے تو رائے دہندگان کو کیسے پتہ چلے اور کیوں ووٹ دیں ؟
جی ہاں وہ تو ہے مگر پارٹی ڈسپلن بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے۔ ہمارا تعلق سنگھ پریوار سے ہے ہمارے اپنے آدرش ہیں ۔
لیکن ورون گاندھی کا تعلق سنگھ پریوار کے مخالف گاندھی پریوار سے ہے۔ اس کے آدرش الگ ہیں اور نظم و ضبط کا مطلب داداگیری ہے کیا؟
اس میں دادا گیری کا کیا سوال نئے لوگوں کو لانے کے لیے پرانے لوگوں کو ہٹانا ہی پڑتا ہے۔ تم تو بات کا بتنگڑ بنا رہے ہو۔
اچھا اگر پرانے لوگوں کو نکالنا تھا تو اڈوانی جی کو نکالتے لیکن جو اب کافی لاغر ہوچکے ہیں ورون تو صرف 41سال کا ہے ۔
وہ ایسا ہے نا للن کے اب ہماری پارٹی میں کانگریسیوں کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لیے نکال دیا ۔
اس کا مطلب ہے جب ضرورت تھی تو شامل کرلیا اور جب وہ ختم ہوئی تو نکال دیا ۔ اس کو ابن الوقتی کہتے ہیں ۔
ویسے للن موجودہ سیاست میں ابن الوقتی اور موقع پرستی کوئی عیب نہیں بلکہ خوبی ہے۔
اچھا تو کیا یہی تمہارے سنگھ کے آدرش ہیں جن پر تمہیں فخر ہے؟
یار تم بار سنگھ کو بیچ میں نہ لاو ۔ وہ اپنا کام کرتا ہے ۔ ہم اپنا کام کرتے ہیں کیا سمجھے؟
لیکن پچھلے دنوں تو وہ وزیر اعظم کی شبیہ سدھارنے کے لیے بڑی قلا بازیاں کھا رہا تھا۔
وہ ایمرجنسی ضرورت تھی ۔اب کوئی مریض وینٹی لیٹر پر ہوتو اس کی مدد کے لیے کوئی بھی آجاتا ہے۔
چلو اچھا ہوا کہ تم نے خود یہ تسلیم کرلیا کہ کمل فی الحال وینٹی لیٹر پر ہے۔ تبھی بنگال میں تمہارے ارکان اسمبلی نکل نکل کر بھاگ رہے ہیں ۔
اوہو تم تو الفاظ پکڑ لیتے ہو۔ میرا مطلب ہےاب ہم لوگ خود ہی اپنی پارٹی کا شدھی کرن کررہے ہیں اور کانگریسیوں کو نکال رہے ہیں۔
لیکن دوست ورون گاندھی کانگریس میں کب تھا؟ اس نے اپنی سیاست کی ابتداء ہی بی جے پی سے کی تھی ۔
اچھا لیکن اس کی ماں مینکا گاندھی کا کیا؟
وہ بھی کانگریس سے نکل مختلف پارٹیوں سے ہوتی ہوئی بی جے پی میں پہنچی اور دو مرتبہ وزیر بنی ۔ سونیا کو تو وہ اپنا سوتن سوری دشمن سمجھتی ہے۔
ہاں لیکن آخر وہ سنجے گاندھی کی بیوی توتھی نا جس کی رگ رگ میں کانگریسی خون دوڑتا تھا۔
اچھا تو جیوتر دتیہ سندھیا کی رگوں میں کس کا خون دوڑتا ہے؟ اس کا باپ بھی تو پکا کانگریسی تھا ۔
کیا ؟ یہ جیوتردتیہ ہماری راج ماتا وجئے راجے سندھیا کا پوتا نہیں ہے ؟
جی ہاں وہ خودبھی ایک زمانے میں کانگریس میں تھیں اور ان کا بیٹا مادھو راو سندھیا تو ساری عمر کانگریس میں رہے اور جیو تر دتیہ خود بھی کانگریس میں تھا ۔
اچھا ! میں تو سمجھتا تھا کہ وہ ہماری وسوندھر راجے سندھیا کا بھانجا ہے اس لیے اس میں زعفرانی خون دوڑ رہا ہوگا۔
ارے واہ اچھا یاد دلایا ۔ تم لوگوں نے جیوتردیتیہ کو تو لے لیا مگر وسندھرا کے بیٹے دشینت سنگھ کو نکال دیا جس میں خالص زعفرانی خون ہے۔
کلن زچ ہوکر بولا اچھا بھائی ہار گئے۔ اب تم ہی بتاو کہ ورون گاندھی کو کیوں نکالا گیا ؟
للن نے سر کھجاتے ہوئے کہا اس کے لیے تمہیں ورون کی تاریخ میں جانا ہوگا۔
اچھا ! ہم لوگ تو سیکڑوں سال پرانی تاریخ میں الجھے رہتے ہیں۔ اب حالات حاضرہ کے بارے میں تم ہی بتا دو؟
وہ ایسا ہے کہ ورون گاندھی نے 29سال کی عمر میں 2009 کے اندر مسلمانوں کو تلوار نکال کر دھمکی دیتے ہوئے اپنی سیاست کا آغاز کیا تھا۔
اس میں کون سی بڑی بات ہے ۔ ایسا تو میں نے بھی کیا تھا لیکن مجھے تو کوئی نہیں پوچھتا۔
ارے بھائی کیاتمہارے خلاف کوئی مقدمہ بنا یا این ایس اے لگا ؟ کیا تم جیل گئے؟
کیسی باتیں کرتے ہو للن ہماری ڈبل انجن سرکار ہے ہمیں کون جیل میں ڈال سکتا ہے؟
یہی تو مسئلہ ہے اس وقت یوپی میں مایا وتی کی سرکار تھی اس نے ورون گاندھی کو جیل بھیج دیا اور پھر کیا تھا وہ ہیرو بن گکر باہر آگیا ۔
یہ میں نہیں مانتا آئے دن نہ جانے کتنے لوگوں کو ہم لوگ جیل میں ڈال دیتے ہیں ۔ وہ تو ہیرو نہیں بنتے ۔
للن بولا تمہاری بات درست ہےلیکن 2009میں مینکا گاندھی نے اپنی 20 سال کی پشتینی سیٹ سے بیٹے کو نواز دیا اور خود سلطانپور چلی گئیں ۔
اچھا تو گویا ورون گاندھی کو سیاست وراثت میں ملی ہے ؟
جی ہاں ایسا ہی ہے ۔ اس کے بعد 2014 اور 2019 میں بھی انتخاب جیت چکے ہیں ۔
اچھا تب تو 2014میں انہیں وزیر بنانا چاہیے تھا ؟
جی ہاں لیکن ماں کے ساتھ بیٹے کو بھی وزیر بنانا مشکل تھا۔
لیکن جب 2019 میں مینکا گاندھی کو ہٹادیا گیا تب تو بنا سکتے تھے ؟
جی ہاں مگر کچھ اور بھی مسائل تھے۔
اچھا وہ کیا ؟
ورون گاندھی نے کئی سیاسی غلطیاں کیں جن کے سبب آج وہ بی جے پی میں حاشیے پر کھڑا ہے۔
کلن نے حیرت سے پوچھا ۔اچھا وہ کیا تھیں؟
پہلی غلطی تو یہ تھی کہ اس نے اپنے محسن راجناتھ سنگھ کا موازنہ اٹل بہاری واجپائی سے کر کے انہیں نریندر مودی سے بہتر قرار دے دیا۔
یہ تو بھائی پسند اپنی اپنی خیال اپنا اپنا والی بات ہے۔ اس سے کیافرق پڑتا ہے ؟
تم کو نہیں لیکن وزیر اعظم کو پڑتا ہے ورون نے 2014 کےاندر کولکاتہ میں مودی کے جلسے میں 2 لاکھ لوگوں کو مبالغہ بتا کر اس کو 50 ہزار بتادیا تھا۔
لیکن اس کو بنگال کے معاملے میں ٹانگ اڑانے کی کیا ضرورت پیش آئی ؟
وہ بی جے پی کی بنگال شاخ کا نگراں ہونے کے سبب حقیقت حال سے واقف تھا۔
لیکن پھر بھی اگر خاموش رہتا تو اچھا تھا بلاوجہ مودی سے پنگا لینے سے کیا فائدہ؟
اس وقت مودی صرف وزیر اعلیٰ تھے اور صدر ہونے کی وجہ سےراجناتھ کا پارٹی میں اونچا مقام تھا۔
وہ تو ٹھیک ہے مرکز میں نہ سہی تو اسے صوبائی سیاست میں دلچسپی لینی چاہیے تھی۔
اس نےیہ بھی کیا اور 2017میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کرکے خود کو مستقبل کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت پیش کیا ۔
اچھا !اس طرح تو اس نے یوگی کو بھی ناراض کردیا۔
جی ہاں لیکن اس وقت یوگی اورورون میں کوئی فرق نہیں تھا وونوں رکن پارلیمان تھے ۔ بس ۔
کلن بولا اچھا تو اب سمجھ میں آیا کہ پارٹی ورون کی چھٹی کرنے کے لیے موقع کے انتظار میں تھی ۔
جی ہاں اور کسانوں کی حمایت کرکے اس نے وہ موقع عطا کردیا ۔ اس کا فائدہ اٹھا اکر اسی کی فرقہ وارانہ تلوار سے اس کا سر قلم کردیا گیا۔
اچھا للن یہ بتاو کہ اترپردیش کی ترائی میں یہ اتنے سارے سکھ کیسے آگئے؟
ہوا یہ کہ تقسیم کے وقت مغربی پنجاب پاکستان میں چلا گیا اس لیے جو سکھ خاندان اپنی زمین چھوڑ کر ہندوستان آئے ان کو نیپال کی سرحد پر بسایا گیا۔
اچھا تو باہر سے آخر ان لوگوں نے اس خطے کو اتنا ترقی پذیر بنادیا۔
جی ہاں اترپردیش میں زرعی پیداوار کے لحاظ سے وہ پہلے نمبر پر ہے ۔
لیکن ہمارے وزیر اعظم نے تو ان کے احترام میں 14؍ کو یومِ تقسیم ہند منانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ وہ ان کا کتنا خیال رکھتے ہیں۔
جی ہاں اسی لیے چار کسانوں کو روندنے کے باوجود نہ وزیر بدلا اور نہ اس کے خلاف زبان کھولی جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ۔
ہاں بھائی للن اس طرح تو ان کا یہ دن منانا سراسر پاکھنڈ لگتا ہے ۔
اور نہیں تو کیا وہ اعلان پاکستان سے آنے والوں کی خاطر نہیں بلکہ مسلمانوں کے خلاف تھا اور یہ حقیقت اب کھل کر سامنے آگئی۔
اچھا یار یہ بتاو کیا اپنے بھائیوں کی یہ حالت دیکھ کر کوئی سکھ سی اے اے کا فائدہ اٹھانے کی خاطر ہندوستان آنے کی غلطی کرے گا ؟
سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ طالبان نے ان کے گردوارے میں جاکر ڈھارس بندھائی ۔ یہاں حکومت کا کوئی نمائندہ ابھی تک ملنے نہیں گیا ۔
یہ تو بہت گمبھیر صورتحال ہے؟
اور نہیں تو کیا ساری دنیا پریشان ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ٹویٹ کرنے والے وزیر اعظم کی چڑیا اس مسئلہ پر کیوں خاموش ہے؟





 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1452467 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.