معروف ادیب علی عمران ممتاز کی آپ بیتی۔ایک جائزہ
(Zulfiqar Ali Bukhari, Islamabad)
حال ہی میں آپ بیتیاں کے نام سے ایک مجموعہ شائع ہوا ہے جس میں تیس نامورادیبوں اورمدیران کی آپ بیتیاں شامل ہوئی ہیں، انہی میں سے ایک کے حوالے سے مضمون پیش کیا جا رہا ہے۔ |
|
|
رقیق القلب، دھیمے مزاج و خوب صورت جذبات کے صدارتی ایوارڈ یافتہ ادیب علی عمران ممتاز کی دھیمی دھیمی آنچ پر سلگتی آپ بیتی تبصرہ نگار: ذوالفقارعلی بخاری، پاکستان
”آپ بیتیاں“ میں شامل معروف ادیب اورماہ نامہ کرن کرن روشنی، ملتان کے مدیراعلیٰ علی عمران ممتاز کی آپ بیتی آپ کو زندگی کی وہ قوس وقزح دکھاتی ہے جو بظاہر رنگین ہے مگراندر سے بے حدسنگین ہے۔ علی عمران ممتاز وہ ہستی ہیں جو نوجوانوں کی بھرپورحوصلہ افزائی کرنے میں بھی پہل کرتے ہیں، بطور مدیر نئے لکھنے والوں کی تحریریں نوک پلک درست کرکے شائع کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ اس سے کسی بھی قلمکار کی ادبی دنیا میں ایک پہچان بنتی ہے۔
علی عمران ممتاز کی آپ بیتی نے بھی اُن کی ایک ساتھ متعین کر دی ہے، وہ تمام افراد جو علی عمران ممتاز کو سمجھنا چاہتے ہیں وہ اُن کی آپ بیتی ضرور پڑھیں آپ کو علم ہوگا کہ ایک سچے قلمکار اوربہترین انسان کی نشانیاں کیا ہوتی ہیں۔دل چسپ بات یہ ہے کہ علی عمران ممتاز نے اپنے ادیب ہونے کے حوالے سے بڑی کڑی شرط عائد کی ہے وہ آپ بیتی میں کچھ یوں اس حوالے سے بیان کرتے ہیں۔
”اسی طرح میں اپنے بارے میں یہی کہتا ہوں کہ میں خود کواس وقت تک ادیب نہیں کہوں گا جب تک میرے قلم سے نکلے الفاظ کسی کی زندگی میں انقلاب برپانہ کردیں اورمیرے عمل سے متاثر ہوکر، کوئی اپنی زندگی نہ بدل لے میں لکھاری نہیں ہوں۔میری خوش نصیبی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اچھے والدین،اچھے اساتذہ اور اچھے دوست دیے۔یہ سب میرے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے انمول تحفے ہیں۔میرا اپنا کچھ نہیں ہے سب کچھ اللہ پاک کا دیا ہے۔یہاں تک کہ کرن کرن روشنی رسالے کی سوچ بھی تو اسی خالق نے میرے دل ودماغ میں پیدا کی ہے“۔
ایک قلمکار کا فرض ہے کہ وہ سچ کا پرچار کرے اورنہ صرف لکھے بلکہ بلکہ اس پر خود بھی عمل کرے، یہ بچوں کے ادیبوں کے لئے ایک مثال ہے کہ آپ کو ایسا بننا ہے کہ نونہال بھی آپ کی پیروی کریں۔علی عمران ممتاز نے اس حوالے سے آپ بیتی میں جو کہا ہے وہ ذرا ملاحظہ کیجئے۔
”میری زندگی کا ایک سچ یہ بھی ہے کہ میں نے جب بھی کوئی جھوٹ بولا، پیارے اللہ جی نے اسے سچ میں بدل دیا اور مجھے یہ سمجھایا کہ جھوٹ بولنا بُری عادت ہے، ہمیشہ سچ بولا جائے، میرے پیارے اللہ جی کی مجھ پر بے پناہ محبتیں، مجھے اس کا مقروض کرگئیں۔اور میں یہ زندگی بھر،اتار تو نہیں سکتا لیکن انسانیت کی خدمت کرکے پیارے اللہ جی کو مزید خوش کرنے کی کوشش کررہا ہوں“۔
ہمارے ہاں اکثر قلمکاروں کی لکھائی کے حوالے سے اورکہانی لکھنے پر بات کی جاتی ہے اورسنایا جاتا ہے کہ آپ کس طرح سے کچھ اچھا کر سکتے ہیں، یہ قصہ پڑھ کر محسوس ہوا ہے کہ ہر قلمکار اپنی زندگی میں کچھ ایسا ضرور برداشت کرتا ہے جو کسی اورقلمکار نے بھی اپنی زندگی میں دیکھا ہوتا ہے، لیکن ان سب کو حوصلے سے برداشت کرکے جو سامنے آتا ہے اُسے ہم ”علی عمران ممتاز“ کہتے ہیں۔
”آپ کو یہ پڑھ کر حیرت ہوگی کہ میں نے کبھی کوئی کہانی پڑھی،نہ ہی لکھی تھی،صرف نصابی کتابوں میں موجود کہانیاں ہی پڑھی تھیں۔میری بات سن کر،میرے بھائی نے کوئی جواب نہ دیا اور چلے گے۔اسی دن میں نے پین اور کاپی اٹھائی اور کاپی کے صفحہ پر لکیریں مارنے لگا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے ذہن کااستعمال بالکل بھی نہیں کیا تھا اور اپنی خراب لکھائی میں لکیروں کی شکل میں ٹوٹے پھوٹے الفاظ لکھے،پھر وہ صفحہ بھائی کودکھایا۔میرے بھائی نے کہا ”تمہاری لکھائی بہت گندی ہے،کہانی بہت اچھی ہے لیکن تم کہانی کیسے لکھ سکتے ہو؟ تمھیں تو کہانی لکھنا آتا ہی نہیں ہے،کہیں سے نقل تو نہیں کی۔“
آپ کے علم میں ہوگا کہ ہر انسان مشکل وقت میں ساتھ نبھانے والوں کو یاد رکھتاہے، یہی ایک بہترین انسان کی بھی خوبی ہوتی ہے کہ وہ اپنے دوستوں کو ہمیشہ اپنی خوشی میں یاد رکھتا ہے۔ علی عمران ممتاز نے بھی اپنی آپ بیتی میں اپنے خیرخواہوں کا تذکرہ کرکے تاریخ میں ان کا نام بھی رقم کر دیا ہے اب جب بھی کوئی ان کی آپ بیتی کو پڑھے گا وہ ان کے دوستوں کے بارے میں بھی جان سکتا ہے۔اُن کے دوست بھی اس بات پر فخر کرسکتے ہیں کہ وہ علی عمران ممتاز جیسا انسان دوست کو اپنے حلقہ احباب میں رکھتے ہیں۔ان کی آپ بیتی میں جہاں دوستوں کے تذکرے ہوئے ہیں وہ قارئین کی نذرکیے جا رہے ہیں۔
”میرے مشکل وقت میں نعیم جہانگیر، عبداللہ نظامی،یونس جاوید، صالح جوئیہ، محمد شفیق،حافظ نعیم احمد سیال، عبدالصمد مظفر،ہارونہ آپی،ماجد حسین ملک، سرفراز احمد نصاری ہمیشہ میرے ساتھ رہے، ان کے ہوتے ہوئے، میں نے کبھی بھی خود کو تنہا نہیں سمجھا۔مجھے کوئی بھی تکلیف پہنچتی تومیرے دوست نعیم جہانگیر یونس جاوید اور اقبال بلال تڑپ جاتے تھے“۔
”نومبر 2015ء میں ہی پیارے اللہ جی نے،مجھے پہلے سے زیادہ مضبوط ٹیم عطاکی۔ماجدحسین ملک،مراد علی،حاجی لطیف کھوکھر،حافظ نعیم سیال،عبداللہ نظامی،نیئر رانی شفق،عبدالصمدمظفر،یونس جاوید،اقبال بلال،ڈاکٹرعبیداللہ،ارسلان سرفرازاور ہارونہ آپی تو ٹیم کا حصہ تھے ہی، اب مجید احمد جائی،عبدالرحمن رزاقی،غلام زادہ نعمان صابری، احتشام الحق،طاہر شہزاد،جبران منہاس،امان اللہ نیئرشوکت،جنیداکرم،علی حسنین تابش،عمر فرید،شادپندرانی،صالحہ عزیزصدیقی،شہاب حسن صدیقی،سمیع الحق،محسن ملک،راؤندیم اسلم،عثمان نیاز،ساجد سعید،علی حسنین تابش اور حافظ معاویہ ظفر روشنی ٹیم کا حصہ بن گئے۔اس کے ساتھ ہی27فروری2016کو باقاعدہ طور پر کرن کرن روشنی پبلشرز کے نام سے ملتان کی معروف پریس مارکیٹ میں دفتر کا افتتاح شکیل انجم(صدر پریس کلب ملتان) نے کیا۔اللہ تعالی کے فضل سے اب میں پہلے سے ذیادہ مضبوط ٹیم کے ساتھ کرن کرن روشنی چلانے لگا تھا“۔
”اللہ پاک کا خاص کرم ہے اس پر میں جتنا بھی شکراداکروں کم ہے۔اس کے بعد میں شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اپنے ان پیارے احباب محمدادریس قریشی (جنہوں نے سب سے پہلے میری تصویر سوشل میڈیاپر اپلوڈ کی،شاعربھی ہیں)امجدجاوید(ناول نگار)،ندیم اختر،قاری محمدعبداللہ،قاضی محمدشعیب،احتشام الحق، نعیم بلوچ، عمیر کھوکھر، ستارہ امین کومل، وقاص اسلم کمبوہ،عادل ابڑو،فضل الرحمن، سرفرازاحمدانصاری محمد ریاست، شہباز اکبر الفت،نبیل جمیل، ارباب بزمی عبید الرحمن غازی کا جنہوں نے صدر پاکستان جناب ڈاکٹر عارف علوی سے ایوارڈ لیتے ہوئے کی میری فوٹو اپنی وال پر اپلوڈ کرکے مجھے مبارک باد دی۔بہت شکریہ آپ سب احباب کا۔ان کابھی شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں ان احباب کی پوسٹ پر مجھے مبارک باد دی“۔
علی عمران ممتاز کی زندگی کے بہت سے دل چسپ قصے آپ بیتی میں موجود ہیں جو کہ آپ کو ان کی ذات اورشخصیت کو سمجھنے کا موقعہ دیتے ہیں، راقم السطور کی خواہش ہے کہ قارئین براہ راست اُن واقعات کو”آپ بیتیاں“سے پڑھیں اس لئے یہاں اُن خاص حصوں پر بات کہی جا رہی ہے جس سے اُن کی شخصیت کے کچھ پہلو اُجا گر کیے جا سکیں، اسی حوالے سے یہ اقتباس ملاحظہ کیجئے۔
”جب میں نے لکھاری ساتھیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے القلم ایوارڈ دینے کا منصوبہ بنایا تو میرے ساتھیوں نے اسے بے حد سرایا اورمیری حوصلہ افزائی کی،اسی حوصلہ افزائی کی بدولت ہی میں نے القلم ایوارڈ کااعلان کیا جس میں لکھا ریوں نے بھر پور دلچسپی لی۔اگر بات کی جائے بڑوں کے ادب کی تو بڑوں کے ادب کے لیے میں نے زیادہ نہیں لکھا، شاعری بھی کی تو بچوں کے لیے۔ویسے بڑوں کے ادب میں احمد ندیم قاسمی،علیم الحق حقی اور غلام عباس کے افسانے بہت اچھے لگے، احمد فراز پروین شاکر اور وصی شاہ کی شاعری نے بہت متاثر کیا۔لفظ محبت کے حوالے سے،میں شاعری زیادہ پڑھتا ہوں،دنیا کے لوگوں سے محبت اللہ کے لیے ہو تو میں اسے محبت سمجھتا ہوں،اگر اپنے لیے ہو تو وہ محبت نہیں ہوتی بلکہ میں اسے دھوکا سمجھتا ہوں کیونکہ ہم اگر اپنے لیے کسی سے محبت کریں گے تو یہ دنیا کی محبت ہوگی“۔
ایک اچھا قلمکار وہ ہوتا ہے جو نہ صرف اپنی زندگی کے مقصد کو سمجھ جائے بلکہ دوسروں کو بھی مقصد حیات سمجھانے کی بھرپور کوشش کرے، اس حوالے سے علی عمران ممتاز بہت حد تک کامیاب ہو چکے ہیں۔ انہوں نے آپ بیتی میں بھی اس حوالے سے تذکرہ کیا ہے جو پیش کیا جا رہا ہے۔اگرآپ ان کی اس بات کو سمجھنے میں کامیاب ہو گئے تو سمجھ لیجئے آپ نے ایک انمول اثاثہ حاصل کرلیا ہے، یہی علی عمرا ن ممتاز کی آپ بیتی کی خاصیت ہے کہ انہوں نے چپکے سے وہ پیغام دے دیا ہے جس پر ہر قاری اگرعمل کرے گا تو اُس کی زندگی کامیاب ہو سکتی ہے۔
”میری لکھاری ساتھیوں سے گزارش ہے یاا سے دراخواست سمجھیں یا نصیحت کہ اپنی زندگی کامقصد پورا کریں اور ہماری زندگی کامقصد کیا ہے۔وہ آپ تلاش کریں اورہمیشہ اچھا کرنے کی کوشش کریں،کیوں کہ اچھا کرنے والا ہی اچھا دوست،ساتھی اور خوشیاں پاتا ہے۔بچوں کے ادب کے فروغ کے لیے اپنی صلاحیتوں کااعتراف اپنی کہانیوں سے کریں۔ آپ کے قلم سے لکھے ہوئے ایک ایک لفظ کاروز قیامت حساب ہونا ہے کہ آپ کاقلم اچھے یا بُرے مقصد کے لیے اٹھا ہے“۔
اپنے من پسند ادیبوں اورمدیران کے حالات زندگی پر شائع ہونے والے ”آپ بیتیاں“ مجموعے کو ضرور خرید کر اپنے کتب خانے کی زینت بنائیں۔یہ آپ کی ادب سے محبت کا بہترین ثبوت ہوگا۔یہاں یہ بات بھی یاد رکھیں کہ دوسروں کی زندگی ہمارے لئے ایک سبق بھی ہوتی ہے ہم ان کی زندگی سے سیکھ کر خود بھی کامیابی کی شاہراہ پر گامزن ہو سکتے ہیں۔علی عمران ممتاز کی آپ بیتی آپ کو ناکامی میں کیا کرنا ہے اورکامیاب ہو کرکیسے رویہ اختیارکرنا ہے سکھاتی ہے اسے ایک بارضرورپڑھیں۔
"آپ بیتیاں " ہارڈ بائنڈنگ، بہترین لے آؤٹ، دیدہ زیب سرخیاں، دیدہ زیب پرنٹنگ، بہترین کاغذ اور شاندار سرورق کے ساتھ اصل قیمت 1200روپے میں دستیاب ہے ہے تاہم خصوصی رعایتی قیمت سرائے اُردو کے شرکا کے لئے صرف 700 روپے مع رجسٹرڈ ڈاک خرچ ہے۔"آپ بیتیاں " حصہ دوم 704 صفحات پر مشتمل ہے جس میں 120 صفحات پر ادیبوں اور مدیران کی نایاب تصاویر شامل ہیں۔
کتاب منگوانے کے لیے ابھی رابطہ کریں۔ الہٰی پبلی کیشنز 95۔R. سیکٹرB۔ 15، بفرزون، نارتھ کراچی۔پاکستان واٹس ایپ نمبر: 0333.2172372 ای میل: [email protected] |