پروفیسر ملک زادہ منظور احمدماہانہ رسالہ ’امکان‘ کے
مالک اور مدیر تھے جوکسی طرح سے دوسرے ماہ شائع کر ہی دیتے تھے۔ رسالہ ادبی
تھا۔ملک زادہ صاحب نئے شعراء اور ادباء کے مضامین اور کلام مع فوٹو ان کی
حوصلہ افضائی کے لیے ضرور شائع کرتے۔اسّی اوراق پر مشتمل یہ رسالہ مضامین
اور کلام کے اعتبار سے بہت معیاری تھا۔پریس سے ’امکان ‘ کے آنے کے بعد
خریداروں تک پہنچانے کے لیے لیٹر باکس کو سپرد کیے جانے تک پوری کاروائی
خود کیا کرتے تھے۔
’امکان ‘ میں ایک شاندار اور جاندار موجودہ حالات پر ’اداریہ‘ ہوا کرتا
تھا۔جولائی-اگست ۲۰۰۸ء کے اداریہ کا عنوان تھا ’ادب میں رشوت‘ آپ تحریر
کرتے ہیں’’اور اب تو صورتِ حال یہ ہو گئی ہے کہ آپ کی ادبی اور شاعرانہ قدر
وقیمت کو تعین بھی آپ کی چکائی ہوئی قیمت کے پس منظر میں ہونے لگا ہے۔ آپ
اتنے ہی بڑے شاعر اور ادیب ہیں جتنا مد و جزر آپ کے دریائے سخاوت میں موجود
ہے۔ میری خود نوشت ’’رقصِ شرر‘‘ جب شائع ہوکر منظرِ عام پر آئی تو ایک صاحب
قرطاس و قلم نے مجھے خط لکھا کہ اگر میں تبصراتی مضمون،انٹرویو اور داستان
حیات کے لیے الگ الگ اتنی اتنی رقم ادا کردوں تو ایک ہی دِن میں میری شہرت
آسمان پر پہنچ جائے گی۔میں نے معذرت چاہی اور لکھا کہ بغیر ان کے تعاون کے
جتنی شہرت یا بدنامی میری ہے میں اُسی کا بوجھ سنبھال نہیں پا رہا ہوں۔
خریدی ہوئی شہرت کے بار گراں میں متحمل نہیں ہو سکوں گا۔ اس لیے معذرت
چاہتا ہوں‘‘۔
ڈاکٹر ر ملک زادہ صاحب خریدی ہوئی شہرت کے مالک نہیں تھے۔شہرت ان کی لونڈی
تھی۔اپنے طالب علمی کے زمانے سے ہی اپنے دوستوں میں ایک نمایا حیثیت رکھتے
تھے۔ملازمت شروع کرتے ہی مشاعروں کا دور شروع ہو گیا اور شہرت کے دائرے میں
گھرنا شروع ہو گئے۔کالج سے ڈگری کالج اور پھر یونیورسٹی، ٹیچر سے لیکر
پروفیسر تک کا سفرشہرت کو بڑھاتا ہی رہا۔ملک کے کونے کونے کے علاوہ بیرون
ممالک امریکہ ، کنیڈا،ایران،متحدہ عرب امارت،بحرین،عمان، سعودی
عرب،قطر،نیپال اور پاکستان سمیت کئی ملکوں میں ہزاروں مشاعروں میں شرکت
کی۔اترپردیش اردو اکادمی کے صدر بھی رہے۔ پہلا ناول ’کالج گرل‘ جو ۱۹۵۴ء
میں شائع ہوا تھا اس کے بعد شائع ہونے والی کتابوں کی ایک لمبی فہرست
میں’اردو کا مسئلہ‘،(۱۹۵۷)، ’شہرِسخن‘ شعری مجموعہ (۱۹۶۱)، ’ابوالکلام
آزادؔ : فکر و فن (۱۹۶۴)، ’ابو الکلام آزادؔ۔ الہلال کے آئینہ میں (۱۹۷۲)،
’غبار خاطر ‘ کا تنقیدی مطالعہ (۱۹۷۶)، ’شہرِستم‘ شعری مجموعہ (۱۹۹۱)،
’رقصِ شرر‘، خود نوشت (۲۰۰۴)، ’انتخابِ غزلیات‘، نظیر اکبر آبادی (۱۹۸۳)،(
دوسرا ایڈیشن۱۹۹۴) اور شہر ادب (۲۰۱۱)۔
یہ وہ دس تصانیف ان کی اپنی ہیں لیکن جن حضرات نے ملک زادہ صاحب پر کتابیں
لکھی ہیں یا آئندہ لکھیں گے، ان کی کوئی تخمینہ نہیں لگایا جا سکتا ہے۔ ملک
زادہ صاحب کا انتقال ۲۲؍اپریل ۲۰۱۶ ء کو ایک لمبی علالت کے بعد اس سرائے
فانی سے ہمیشہ کی زندگی کی طرف،ادب کی دنیا میں نہ پُر ہونے والا ایک خلاء
چھوڑ کر، اور اپنے متعلقین کو ایک ’کسک‘دے کر،منتقل ہوئے۔اﷲ ان کی مغرفت
فرمائے۔
۲۰۰۵ء میں ’جشن لکھنؤ‘ کے تحت جو مشاعرہ ہوا تھا ۔ سی․ڈی․کی مدد سے میں نے
ہندی رسم الخط میں ’مشاعرہ لکھنؤ مہوتسو ۲۰۰۵‘ کو کتابی شکل میں مرتب
کیا۔صدر، اتر پردیش اردو اکیڈمی کوکتاب کی ایک کاپی دینے کی غرض سے اردو
اکیڈمی پہنچا۔میری پہلی ملاقات ضرور تھی لیکن مجھے ایسا لگا کہ وہ مجھے
پہلے سے جانتے ہیں۔کتاب دیکھ کر خوش ہوئے ، تعریف کی۔ایک محترمہ بھی وہاں
تشریف رکھتی تھیں، ملک زادہ صاحب نے ان کا تعارف کرایا تو معلوم ہوا وہ’
سلمیٰ حجاب صاحبہ ‘ ہیں۔میں نے ایک کتاب ان کی خدمت میں بھی پیش کی۔
ملک زادہ صاحب نے مجھ سے پوچھا’’اس وقت مشغلہ کیا ہے؟‘‘۔ میں نے کہا’’ابھی
چار دِن پہلے ۳۱؍اگست ۲۰۰۶ء کو میں رٹائر ہوا ہوں،ابھی کچھ زیادہ کرنے کو
نہیں ہے، ہاں مراسلے اور مضامین اخباروں کے لیے لکھتا رہتا ہوں‘‘۔ ملک زادہ
صاحب نے کہا ’’میں چاہوں گا کہ آپ میرا رسالہ ’امکان‘ کمپوز کر دیا
کریں‘‘۔میرے راضی ہونے پرانھوں نے خوشی کا اظہار کیا۔اور پھر میں کیوں نہ
راضی ہوتا۔میرا تو وہی حال ہوا کہ ’’گئے تھے آگ لینے مل گئی پیغمبری‘‘۔ملک
زادہ صاحب کے ساتھ کام کرنے کا موقع میں کیوں گنوا دیتا۔
دو تین دن کے بعد ملک زادہ صاحب میرے غریب خانہ پر،دیے گئے پتہ کے مطابق،
تشریف لائے۔امکان کے گزشتہ دو شمارے اور اگلے شمارے کے لیے مضامین بھی لائے
تھے۔رسالہ کے متعلق میں خوب سمجھتا رہا اور وہ خوب سمجھاتے رہے۔ ’امکان‘ کو
سمجھنے اور سمجھانے کا کام تقریباًتین سال تک بحسن خوبی چلتا رہا اور
’امکان‘ شائع ہوتا رہا۔ اور پھر ملک زادہ صاحب نے اپنی دیگر مصروفیات کی
وجہ سے وہ ’ سمجھانے کا کام‘ کسی دوسرے کے سپرد کر دیا تو حاکم اور محکوم
کارشتہ مجھے راس نہیں آیا اور مجھے مجبوراً کام بند کرنا پڑا ۔حالانکہ اپنے
اس فیصلہ سے میں خوش نہیں ہوا اورملک زادہ صاحب بھی خوش نہیں ہوئے تھے اور
مجھ سے اکثر’امکان‘ کی کمپوزنگ شروع کرنے کوکہا کرتے تھے لیکن میں وقت نہ
نکال پانے کی معذرت کر لیتا تھا۔
بہر حال نکلنے والی چیز نکل کر رہتی ہے اور ُامکان‘ پابندی سے نکلتا
رہا۔اداریہ کے علاوہ ملک زادہ صاحب کسی کے انتقال پر ’کسک‘ کے عنوان سے ایک
مضمون اور لکھا کرتے تھے جو ان کے فوری تاثرات ہوتے تھے جو کسی شاعر یاادیب
کے انتقال کی خبر سن کر ان کے دِل میں پیدا ہوتے تھے۔
میں نے ڈاکٹر صاحب سے یہ خواہش ظاہر کی اور اجازت چاہی کہ ان مضامین کو
کتابی شکل دینے کی۔وہ صرف خوش ہی نہیں ہوئے بلکہ پرانے رسالے تلاش کر کے
دیتے رہے۔اور میں نے بکھرے ہوئے ان مضامین کو اکٹھا کرتا رہا اور ہر مضمون
کے آغاز میں سنین پیدائش اور سنین وفات، فوٹو اور مضمون کے اختتام پر نوٹ
لکھ کر مرحومین کی سوانح اور ان کی کتابوں کی مکمل فہرست اور دیگر معلومات
کے علاوہ نمونہ کلام کا اضافہ کر کے ۲۷۶؍اوراق کی کتاب مرتب ہو گئی۔میں نے
مسودہ ان کی خدمت میں پیش کیا دیکھ کربہت خوش ہوئے اور کافی دیر تک ورق
گردانی کرتے رہے۔ اور کئی باریہ جملہ دوہرایا کہ’’شمیم! آپ لوگوں سے یہ
کتاب پڑھوا دیں گے‘‘۔
۲۴؍اپریل،۲۰۱۵ء کو ’فخرادین علی احمد میموریل کمیٹی‘ میں اس کتاب کا مسودہ
داخل کیا جس کی منظوری میں ایک سال کا وقت لگ گیا۔ اور اب ’پروفیسر ملک
زادہ منظور احمد کی وفاتی تحریروں کا مجموعہ۔۔۔کسک شائع ہوا لیکن ملک زادہ
صاحب کے انتقال کے بعد، جسے وہ دیکھ نہیں پائے ۔ ملک زادہ صاحب نے ’کسک‘ پر
جو دیباچہ لکھا تھا وہ اس طرح تھا:
’کسک‘ کے عنوان سے میرے لکھے ہوئے زیر نظر’تعزیتی نوٹس‘ در اصل میرے وہ
فوری تاثرات ہیں جو کسی شاعر یا ادیب کے انتقال کی خبر سن کر میرے دل میں
پیدا ہوئے۔ ان کا مقصد نہ تومعلومات فراہم کرنا تھا اور نہ ہی مرحومین کے
ادبی کارناموں کے تفصیلی جائزہ لے کر اردو شعر و ادب میں ان کی قدر و قیمت
کا تعین کرنا تھا۔ بلکہ میرے حافظے میں مرحومین کی شخصیت اور کارناموں کی
جو بھی واضح یا دھندلی یادیں تھیں انہیں فوری طور پر صفحہ قرطاس پر بکھیر
دینا تھا۔مجھے بے حد مسرت ہے کہ ماہنامہ’امکان‘ کے قارئین نے انہیں پسند
یدگی کی نگاہ سے دیکھا اور ان کی کتابی صورت میں اشاعت پر خطوط لکھ کر
اصرار کیا۔ ارادہ تھا کہ فرصت و فراغت کے کچھ لمحات میسّر آتے تو انہیں
اکٹھا کر کے کچھ مزید معلومات کے ساتھ کتابی صورت میں پیش کرتا مگر قلبی
عارضہ کا شکار ہونے کے بعد ماہنامہ’امکان‘ کی بذات خود اشاعت بھی تعطل اور
تاخیرکا شکار ہوئی اور گرتی ہوئی صحت نے اس بات کی اجازت نہ دی کہ میں
مرحومین کے بارے میں کچھ مزید اور ضروری اضافہ کر کے انہیں معلومات افزا
بناتا۔
میں جناب شمیم اقبال خاں کا شکر گزار ہوں کہ ماہنامہ ’امکان‘ میں بکھرے
ہوئے میرے اِن مضامین کو اکٹھا کیا اورمیرے ہر مضمون کے آغاز میں سنین
پیدائش اور سنین وفات، فوٹو اور مضمون کے اختتام پرنوٹ لکھ کر مرحومین کی
سوانح اور ان کی کتابوں کی مکمل
فہرست و دیگر معلومات کے علاوہ نمونہ کلام کا اضافہ کرنے سے کتاب کی قدر و
قیمت بہت زیادہ بڑھا دی۔ موصوف محکمۂ پولیس میں ایک معزز عہدہ پر فائز تھے
مگر رٹائرمنٹ کے بعد انھوں نے تصنیف و تالیف میں اپنا وقت گزارنا شروع کر
دیا اورانکا تحقیقی اور ادبی کارنامہ جناب شوقؔ بہرائچی کے بکھرے ہوئے کلام
کو اکٹھا کر کے ان کا دیوان’طوفان‘شائع کرنا ہے جو واقعی بڑی دیدہ ریزی،
محنت اور لگن تحقیقی کارنامہ رہا ہے اور جسے ارباب علم و دانش نے پسندیدگی
کی نگاہ سے دیکھا۔ اس کے بعد انھوں نے ’ذھیب جنرل نالج‘ نام کی ایک ’بین
الاقوامی معلومات ‘کی کتاب لکھی جو بے حد معلومات افزا ہے اور عالمی سطح کی
معلومات فراہم کرتی ہے اور طلباء میں پسند کی کی جا رہی ہے۔ اس کتاب پر اتر
پردیش اردو اکاڈمی نے انعام سے بھی نوازا ہے۔
ملک زادہ منظور احمد کے انتقال پرکچھ دانشوروں نے اپنی اپنی ’کسک ‘ کا
اظہار کچھ اس طرح کیاجسے قارئین کی دلچسپی اور معلومات کے لیے ذیل میں درج
کر رہا ہوں:
شارب ردولوی: پروفیسر ملک زادہ منظور احمد کا انتقال دنیائے ادب کا تابندہ
سورج غروب۔ ایک فرد نہیں ایک تہذیبی عہد کا خاتمہ۔
انیس اشفاق: پروفیسر ملک زادہ منظور احمد آداب تدریس سے اچھی طرح واقف تھے۔
افضل امام: پروفیسر ملک زادہ منظور احمد نے نظامت کو فن کا ذریعہ بنایا۔
عارف نقوی: پروفیسر ملک زادہ منظور احمد اردو کی روشن شمع۔مشاعروں کی سحر
انگیز آواز ڈاکٹر ملک زادہ منظور احمد۔۔۔خاموش۔
عبداﷲ بخاری: پروفیسر ملک زادہ منظور احمد نے اردو مشاعروں کو عوام سے قریب
کیا۔وہ آسمان ادب کے درخشندہ ستارہ تھے۔
مشیر اطلاعات: اردو والے ایک بے لوث خادم سے محروم۔
سہیل کاکوروی: پروفیسر ملک زادہ منظور احمد خزینہ علم و دانش تھے۔
کل ہند اردو رابطہ کمیٹی: پروفیسر ملک زادہ منظور احمد عظیم شخصیت ہی نہیں
بلکہ شخصیت ساز تھے۔
خالد محمود: ان کی شخصیت اُس پرانے چراغ کی طرح تھی جس نے علم و ادب کے
سیکڑوں چراغ روشن کیے۔
وہاج الدین علوی: پروفیسر ملک زادہ منظور احمدتہذیب اودھ کی آخری نشانی کے
طور پر یاد کیا۔
احمد ابراہیم علوی: بے مثل ادیب، باکمال خطیب، باوقار ناظم مشاعرہ سے دنیا
محروم۔
ڈاکٹر عمیر منظر: تہذیب و شرافت کی آخری یاد گار تھے پروفیسر ملک زادہ
منظور احمد۔
مصعود جعفری : پروفیسر ملک زادہ منظور احمد، سخن کے شہنشاہوں کے امام تھے۔
نایاب حسین: پروفیسر ملک زادہ منظور احمد کا میدانِ کار صرف مشاعروں کی
نظامت ہی نہ تھا بلکہ وہ ایک نہایت عالم و فاضل،روشن ضمیر دانشور تھے۔ ان
کا اپنا ادبی سراپا بالا و بلند تھا، وہ ایک با کمال شاعر تھے۔
سمیح احمد قریشی: اُن کا سلیقہ، زبان سے لفظوں کی ادائگی، بہترین حسن بیاں،
برجستہ حالات حاضرہ پر بولنا ان کا خاصہ تھا۔
حفیظ نعمانی: نئے انداز کی نظامت کے موجد اور خاتم سے اب اردو محروم رہے
گی۔ملک زادہ نے شعر اتنے نہیں کہے جتنا قدرت نے موقع دیا لیکن نظامت کو
انھوں نے ایسا بنا دیا کہ ترازو کے ایک پلڑے میں پورا مشاعرہ ہوتا تھااور
دوسرے پلڑے پر صرف نظامت۔
رضوان احمد فاروقی: جہاں جہاں وہ رہے آسمان بن کے رہے۔وہ تھے آزاد فضا میں
اُڑنے والے، مشاہدے کے سمندر میں غوطہ لگاکر موتی نکالنے والے۔انہیں ایک
طرح کے ماحول، ایک طرح کے لوگوں، زہد و تقویٰ کا اظہار کرنے والوں میں گھٹن
کا احساس ہوتا تھا۔
قطب اﷲ: وہ جو پڑھاتے وہ طلبا کے دِل و دماغ میں اُتر جاتا تھا۔ اردو کو
دوسری سرکاری زبان بنانے اور اردو کا اس کا کھویا ہوا وقار بحال کرانے میں
انھوں نے نمایا رول ادا کیا۔
ایچ․ایم․ ےٰسین: اردو کے لیے زندہ رہنے اور مرنے والا زبان و ادب کا مربی و
پاسدار، عالمی شہرت یافتہ شاعر،نثر نگار، صحافی، نقاد،گھن گرج والا ناظم،
قومی و ملی ہمدرد،متنوع شخصیت، محفلوں کو وقار بخشنے والا،ہمہ جہت صفات کا
مالک ملک زادہ منظور احمد بھی ہم سے جدا ہوگئے۔
بی․بی․شریواستو: اردو کے مصنف، شاعر، نقاد، پروفیسر اور مشاعروں میں اپنے
منفرد انداز نظامت کے لیے شہرت رکھتے تھے،وہ ایک بے باک قلم کار تھے۔
ملک زادہ منظور احمدکی وفات پر عالمی سطح پرغم منایا گیا کیونکہ ان کی
شخصیت صرف لکھنوتک محدود نہیں تھی عالمی سطح پر پھیلی ہوئی تھی۔انہوں نے اﷲ
کے بندوں کی زبان(اردو) کی بڑی خدمت کی۔اﷲ انہیں جوار رحمت میں جگہ دے۔
موت اُسی کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس
یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لیے
ooOoo
|