تبدیلی خالی تقریرنہیں تدبراورتدبیر سے آتی ہے،اقتدار
کیـ"ایوانوں" میں محض چہروں کی" تبدیلی "سے محصور ومجبور عوام کے" ارمانوں"
پراوس پڑ گئی۔ تدبر کی انگلی جھٹک کر تکبر کے سرکش گھوڑے پرسوارعناصر"
اپنے" ساتھ ساتھ" اپنوں" کو تباہ اورنازک"سپنوں" کوچکناچور کر دیتے ہیں۔
حکمران یاحکام انتقام کے بل پرریاستی نظام تبدیل نہیں کرسکتے۔داخلی اور
معاشی استحکام کیلئے ماورائے قانون احکام اورآمرانہ اقدام سے
گریزکرناہوگا۔عوام کے ساتھ پھر ہاتھ ہوگیا،تبدیلی سرکار نے عوام کو اس مقام
پرمارا جہاں سایہ تھا اورنہ دور دور تک پانی کے آثار تھے۔"تحریک انصاف"کی
قیادت نے اپنے بچگانہ جذبات اور احمقانہ تجربات سے "انصاف" کے ایوانوں
کوبھی "تاریک" کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔محروم اورمایوس لوگ ایک دوسرے
سے پوچھ رہے ہیں ،"اب کیا ہوگا"۔کپتان کے دور میں چور بندہوئے اورنہ چوری
بندہوئی،نام نہاد جمہوریت اورمکسچرحکومت بچانے کیلئے "احتساب "کاباب ضرور
بندکردیا گیا ۔ چیئرمین نیب کے منصب نے جاویداقبال کوایکسپوزکردیا
۔جاویداقبال کے بارے جو"بھرم" تھا وہ" دھڑام" سے زمین بوس ہوگیا ۔چیئرمین
نیب کی ایکسٹینشن سے تبدیلی سرکار کوٹینشن کے سوا کچھ نہیں ملے
گا۔جاویداقبال بحیثیت چیئرمین نیب اپنی تقرری سے اب تک مسلسل اورمتعدد
تنازعات میں الجھے رہے۔ اپوزیشن اورکالم نگاروں سمیت مختلف طبقات نے
جاویداقبال کی ترجیحات اوران کے اقدامات کوتنقیدکانشانہ بنایا ۔عہدحاضر کے
سیاسی پنڈتوں کاکہنا ہے جاویداقبال اس منصب کیلئے موزوں نہیں تھے لہٰذاء ان
کی حالیہـ" ایکسٹینشن "کاسخت "ری ایکشن" آئے گا ۔نیب آرڈیننس کے نتیجہ میں
جاویداقبال کی ایکسٹینشن سے کمزور وفاقی حکومت مزید دفاعی پوزیشن پرآگئی ہے
جبکہ یہ آئینی آپشن مردہ اپوزیشن کیلئے آکسیجن کاکام کرے گا ۔ چیئرمین نیب
کاآفس کسی متنازعہ شخصیت کامتحمل نہیں ہوسکتا ۔نیب ریاست کااہم ترین محکمہ
ہے لہٰذاء اسے اندرونی وبیرونی سیاست سے بچانے کی ضرورت ہے ۔حکومت اورنیب
کے درمیان ناگزیر فاصلہ ہرصورت برقراررکھنا ہوگا۔مانا منتخب ایوانوں
اورمیدانوں میں"اپوزیشن "کی "پوزیشن "بہتر نہیں لیکن کپتان اپنے مدمقابل
سرمایہ دارسیاستدانوں اوران کے ہتھکنڈوں کوانڈراسٹیمیٹ نہ کرے ۔پاکستان
نے1992ء میں کرکٹ کاورلڈ کپ اپنے نام کیا تو اس وقت کپتان اور ٹیم بنانے
میں سلیکٹرز پیش پیش تھے لیکن اگر2018ء کے انتخابی معرکے میں کپتان کی پشت
پرسلیکٹرز ہوتے تووفاق میں اس قسم کی ٹیم ہوتی اورناں پنجاب میں عثمان
بزدار منتظم اعلیٰ ہوتا،لہٰذاء مریم بی بی " سلیکٹرز" کا ـ"ماتم" کرنا
بندکردے ۔
مہنگائی کے آگے بندباندھنے میں ناکام حکومت کی طرف سے ڈی جی آئی ایس آئی کی
تقرری جبکہ چیئرمین نیب کی ایکسٹینشن کے معاملے میں ایک نیامحاذ کھلنا
دانائی نہیں۔تبدیلی سرکارکے بس میں ہوتا توکپتان کی آئینی مدت پوری ہونے کے
بعد اسے بھی ایکسٹینشن د ینے کاراستہ تلاش کرلیاجاتا۔پی ٹی آئی کاکپتان
مردم شناس اورجوہرشناس ہوتا تووفاق سمیت پنجاب میں" تبدیلی سرکار"
کاوزیراطلاعات بار بار" تبدیل" نہ ہوتا۔جوکپتان تین برسوں میں پنجاب کیلئے
موزوں چیف سیکرٹری ،آئی جی اورلاہور کیلئے مخلص سی سی پی اوتلاش کرنے میں
ناکام رہا وہ پاک فوج میں تقرریوں سے دوررہے۔جس کپتان نے ڈی چوک میں کنٹینر
کی چھت سے پولیس میں سیاسی مداخلت کیخلاف بھاشن دیاتھا وہ اقتدارمیں آنے کے
بعد مشاورت کی آڑ میں پاک فوج کے انتظامی معاملات میں مداخلت کی جسارت
اورحماقت نہ کرے ۔لاہور کے انتھک اور فرض شناس سی سی پی اوغلام محمودڈوگر
کی ٹرانسفر کی باتوں سے دل بجھ جاتا ہے، کپتان ہوش کریں اورغلام محمودڈوگر
کولاہورمیں قدم جمانے اورانہیں ضروری اختیارات دیں یقینا مجرمانہ سرگرمیوں
میں ملوث شرپسندوں کے قدم اکھڑجائیں گے، نڈراورنیک نیت غلام محمودڈوگر
ارباب اقتدار اورشہریوں کی توقعات پرپوراتریں گے ۔ لاہورمیں ٹارگٹ کلنگ
سمیت کشت وخون کے دلخراش واقعات کاسدباب یقینی بنا نے کیلئے سی سی پی او
غلام محمودڈوگر،ڈی آئی جی آپریشنزکیپٹن (ر)سہیل چوہدری،ڈی آئی جی انوسٹی
گیشن شارق جمال خان،ایس ایس پی آپریشنزاسماعیل کھاڑک اورایس پی سی آئی اے
عاصم افتخار کمبوہ کی قیادت میں لاہور پولیس کوخصوصی ٹاسک اورمینڈیٹ
دیاجائے۔لاہور کوکنٹریکٹ کلرز کے رحم وکرم پرنہیں چھوڑاجاسکتا۔
پچھلے دنوں ایک نجی چینل کے مقبول ٹاک شو میں قلم قبیلے کے مہربان میزبان
میاں اقبال شاہدنے راقم سے سوال کیا ،"وزیراعظم عمران خان چیئرمین نیب کی
تقرری کے معاملے میں اپوزیشن سے مشاورت کیوں نہیں کررہے "، تو میں نے عرض
کیا جووزیراعظم اپنے بیسیوں وزیروں ، مشیروں سمیت چوہدری پرویزالٰہی سے
زیرک اور دوراندیش سیاسی اتحاد ی کے ساتھ صلاح مشورہ نہیں کرتا وہ چیئرمین"
نیب" کی تقرری یاتوسیع کیلئے " نیب زدگان" سے ایڈوائزکیوں لے گا۔انسانوں
کی" فلاح" اور "اصلاح" کیلئے داناؤں کے ساتھ" صلاح" مفید ہواکرتی ہے ،چوروں
یاان کے آقاؤں سے ہرگز نہیں ۔اِتفاق سے "اِتفاق "والے شہبازشریف اورحمزہ
شہبازدونوں اپوزیشن لیڈر اِن دنوں ایک ساتھ نیب عدالت کاطواف کررہے ہیں
،مخصوص مٹھی بھرکارکنان ان کی ہر"پیشی" پران کے استقبال کیلئے" پیش پیش
"ہوتے ہیں۔ اخلاقی طورپر چیئرمین نیب کیلئے وزیراعظم عمران خان اور نیب
زدگان کے درمیان مشاورت بدترین منافقت کے زمرے میں آئے گی،تاہم سیاسی
طورپرضدی کپتان کے" فنا" ہونے میں موصوف کی "انا" کابہت ہاتھ ہے۔جاویداقبال
نے بحیثیت چیئرمین نیب تقرری سے اب تک اس محکمے کو تضادات،تنازعات
اورنقصانات کے سوا کچھ نہیں دیا ۔جاویداقبال کے آفس میں بننے والی مبینہ
ویڈیو والی خاتون کو بھی منطقی انجام تک پہنچایاجانا از بس ضروری ہے،وہ
خاتون ابھی تک قانون کی گرفت میں کیوں نہیں آئی، اس جعلی ویڈیو سے چیئرمین
نیب سے زیادہ نیب کونقصان پہنچا تھا۔ جاویداقبال کی ایکسٹینشن کادفاع
کرناسیاسی وانتظامی طورپرناداں اور ناتواں حکومت کے بس کی بات نہیں،انہیں
کس بنیادپر ایکسٹینشن دی گئی کیونکہ موصوف بھرپور اختیارات اورہوشربا
مراعات کے باوجود ڈیلیورکرنے میں بری طرح ناکام رہے،آزاد عدلیہ نے بھی بار
بار جسٹس (ر)جاویداقبال کے اقدامات پرعدم اعتماد اوراپنے شدید تحفظات
کااظہارکیا۔قومی چوروں سے برآمدگی کے معاملے میں نیب کی کارکردگی تسلی بخش
نہیں، نیب کی گرفت میں آنیوالے تمام مبینہ قومی چوراور"گنجے "آج آزادجبکہ
عوام بے رحم مافیاز کے" شکنجے" میں ہیں۔"ایڈن گارڈن ایکسٹینشن کاہنہ "سمیت
مختلف نجی سوسائٹیزکے مالکان بھی پوری طرح "امان"میں جبکہ متاثرین اپنی
رقوم کی بازیابی کیلئے بری طرح " ہلکان" ہیں۔میں سمجھتا ہوں وزیراعظم نے
چیئرمین نیب بارے "معقول " نہیں "نامعقول" اور"غیرمقبول" فیصلہ کیا۔معلوم
نہیں انہیں ہراہم منصب پرایک" بزدار" کی ضرورت کیوں ہے ،پنجاب میں چوہدری
سرور اوربلنداقبال میاں اسلم اقبال کے سوا کوئی" بردبار" ان کی ٹیم میں
نہیں۔
میں پوچھتا ہوں کیا ملک میں لیاقت اور قیادت کا قحط پڑگیا ہے ، وزیراعظم
عمران خان کااہل اورقابل شخصیات کی طرف دھیان کیوں نہیں جاتا ۔نواز شریف کی
طرح کپتان کو بھی" بونوں" کے حصار میں رہنا کیوں پسند ہے۔اس ملک میں میجر
(ر)اعظم سلیمان خان سے اُجلے اور سلجھے بیوروکریٹ موجود ہیں،ان کے پاس وسیع
تجربہ اورقابل قدرجذبہ بھی ہے۔وہ ہمیشہ انتظامی تنازعات سے دور جبکہ سیا ست
کی کوکھ سے پیداہونیوالے فسادات سے اپنادامن بچاتے آئے ہیں ۔ میجر (ر)اعظم
سلیمان خان "بردباری" کے ساتھ اپنی بیوروکریٹ" برادر ی" کوہینڈل کرتے ہوئے
ان کااعتماد بحال اورمورال بلند کرسکتے ہیں۔ انتظامی عہدیداروں کوخوامخواہ
خوفزدہ کرکے کوئی حکومت آئینی مدت توپوری کرسکتی ہے لیکن عوام کوڈیلیور
ہرگزنہیں کرسکتی۔میجر(ر)اعظم سلیمان خان اپنے آپ میں ایک عہد ،ایک ادارہ
جبکہ محنت اورپیشہ ورانہ مہارت کااستعارہ ہیں ،وہ مختلف حکمرانوں کے ادوار
میں مختلف عہدوں پررہے اورانہوں نے ہرمنصب کے ساتھ ایک منصف کی طرح انصاف
کیا۔آج تک انہیں کسی قصوروار کے ساتھ نرمی اورکسی معصوم کے ساتھ تلخی یا
زیادتی کرتے ہوئے نہیں دیکھاگیا، راقم کے نزدیک صوبائی محتسب پنجاب
میجر(ر)اعظم سلیمان خان چیئرمین نیب کیلئے "معقول" اور سب کیلئے "قابل
قبول" ہیں ۔پنجاب میں ہوم سیکرٹری اورچیف سیکرٹری کی حیثیت سے میجر(ر)اعظم
سلیمان خان کی انتظامی صلاحیتوں کے اثرات اور ثمرات سے کوئی انکار نہیں
کرسکتا ۔میجر (ر)اعظم سلیمان خان آمریت اورجمہوریت یعنی ہر طرز حکومت میں
خاموشی لیکن گرمجوشی کے ساتھ اپنے فرض منصبی کی بجاآوری کرتے رہے جبکہ ان
کا ہر ایک تعمیری کام اورمثبت اقدام ان کی کامیابی وکامرانی اور نیک نامی
کا ڈھول پیٹتا رہا۔ ان کے اندرانتظامی معاملات کو بہترسے بہترین کرنے کی
نیت اور صلاحیت دونوں ہیں ، میں سمجھتاہوں نیب کی مدد سے پاکستان کی بنجر
معیشت کوسیراب کرنے کیلئے اس کی باگ ڈور انتھک،غیرجانبداراورایماندار میجر
(ر)اعظم سلیمان خان کے ہاتھوں میں تھمادی جائے۔میں وثوق سے کہتاہوں پنجاب
کا دبنگ محتسب چاروں صوبوں کے قومی چوروں کابے رحم احتساب کرگزرے گا۔
|