برگر کلاس۔ حقیقت یا احساس محرومی؟

کچھ دوست بیٹھے تھے ان میں سے کسی نے کہا کہ میرا ایک دوست برگر ہے، پھر ان میں سے کسی نے کہا کہ یار ایک لڑکی میری فیسبوک میں دوست ہے وہ بھی برگر ہے۔ “برگر ” فیملی کے حوالے سے میں نے پہلے بھی کسی سے سنا تھا پر ہر بار کی طرح اس دفعہ بھی مجھے تجسس ہوا ۔ایک دن اپنے اس تجسس کو ختم کرنے کی ٹھان لی کہ میں پتا لگاوں کہ آخر یہ ہے کیا چیز۔ ہم نے کھانے والا برگر تو دیکھا ہے پر برگر کوئی تہذیب بھی ہے یہ نہیں سنا تھا۔ بحرحال! میں نے فیصلہ کر لیا کہ اس پے تحقیق کروں گا۔ ایک بات جو میں نے ٹوٹ کی ہے وہ یہ کہ جو لوگ اس کی بات کرتے ہیں ان کے لہجے میں احساس محرومی دکھائی دیتی ہے اور جو اس کی بات کرتے ہیں وہ بڑے فخریا انداز میں کہتے ہیں کہ میرا دوست ایک برگر کلاس فیملی سے تعلق رکھتا ہے وہ خود کو اسے کہیں نیچے تصور کر کہ برگر فیملی کا ذکر کرتے ہیں جیسے کوئی کسی حسرت سے ذکر کرے ایسی حسرت جو کبھی پوری نہیں ہوسکتی بحرحال! میں نے اس “برگر” لفظ اور اس کے پیچھے چھپے راز سے پڑدہ اٹھا ہی لیا۔”برگر” لفظ جرمنی کے دوسرے بڑے شہر “ہیمبرگ” سے لیا گیا ہے۔کیونکہ جرمنی میں آج بھی کھانے والے برگر کو ہیمبرگر کہا جاتا ہے۔بعد میں یہی ڈش جب آمریکا میں آئی تو اسے ہیمبرگر کے ساتھ ساتھ برگر بھی کہا گیا۔جہاں تک کہانے والے برگر کا تعلق ہے تو اس میں چیزیں جب مشہور ہوکہ پرانی ہوجایئں تو ان کے نام تبدیل ہو جاتے ہیں یا کٹ کے آدھے ہو جاتے ہیں جیسے لفظ ہیم برگر “برگر” بن گیا۔ اگر ہم جرمن زبان میں ہیم برگر سے “برگر” کی معنی دیکھیں تو جرمن زبان میں “برگر” شھری کو بھی کہتے ہیں۔ اور اس شخص کو بھی برگر کہا جاتا ہے جو مڈل کلاس کا رکن ہو۔ جرمن زبان میں رہائشی کو بھی برگر کہا جاتا ہے۔ برگر کا وہ مطلب جو پاکستان سمیت انڈیا اور بنگلادیش میں لیا جاتا ہے وہ ہمیں اس کی اصل معنی میں کہیں نہیں ملتا۔

دنیا مختلف تھذیبوں کا مجمع رہی ہے جس میں بہت ساری تھذیبیں وقت کے ساتھ ختم ہو گیئں ہیں اور کچھ تبدیل بھی ہوئی ہیں۔ موجودہ صدی نے تھذیبوں کو تیزی سے تبدیل کیا ہے اس کی سب سے بڑی وجہ سائنسی انقلاب ہے اور میڈیا جو کہ خود ایک سائنس ہے۔ میڈیا نے انسانوں کی سوچوں کو یکثر تبدیل کیا ہے۔ کچھ صدیاں پہلے لوگ “تبدیلی” کو برا سمجھتے تھے اور ان کے یہاں تبدیلیاں گناہ کا باعث ہوتیں تھی پر جب سائنس نے معاشرے میں جگہ لینا شروع کی تو لوگوں کے ذہنوں میں تبدیلیاں برپا ہوئیں۔پرنٹنگ مشین کی ایجاد سے لوگوں کو فلسفیوں کو پڑھنے کا موقع ملا۔ فلسفیوں کی تعلیم میں برادشت اور برابری کا سبق تھا اور انہوں نے لوگوں کو سوچنے پے مجبور کیا۔میڈیا کے پہلنے سے مختلف تھذیبیں ایک دوسرے کے قریب آئیں اور لوگوں نے دوسری تھذیبوں کو دیکھنا اور سمجھنا چاہا۔ پہلے لوگوں کو معلوم نہیں ہوتا تھا کہ دوسرے ملکوں میں کیا ہورہا ہے ۔ لوگ اس وقت اسی کو صحیح سمجھتے تھے جو ان کے نظر کے سامنے ہوتا تھا پر میڈیا اور سائنس کے ملاپ نے اس سوچ کو کافی حد تک تبدیل کر دیا تھا اب میڈیا کے ذریعے لوگوں کو باقی دنیا کا پتا چلنے لگا تھا۔ اب اس میں ہوا یہ کہ ایک مخصوص طبقا تو اس تعلیم سے فیضیاب ہوتا چلا گیا پر بہت ساروں نے اس نئے نظام کو تسلیم نہیں کیا۔ مغرب سمیت آمریکا ، برطانیا نے فلسفیوں کے فلسفے پے زیادہ توجہ دی اور اپنے اندر تبدیلیاں پیدا کیئں انہوں نے سقراط، افلاطون، کانٹ، نٹشئے، ھیگل،کے فلسفے پر مکمل نہ صحیح پر تھوڑا بہت عمل ضرور کیا اور دنیا میں انسانوں کے حقوق کے لیئے ادارے بنائے گئے اور مذہبی انتہاپسندی کو کم کرنے کی بات کہی گئی۔ انسانوں میں تاثر پہلایا گیا کہ انسان دوسرے انسان سے مذہب کی بنیاد پر نہیں بلکہ انسانیت کو دیکھتے ہوئے رویہ رکہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا مکمل بدل گئی نئے ممالک وجود میں آگئے، نئے قوانین بنائے گئے۔ انسانوں کے بنیادی حقوقوں پے مزید توجہ دی گئی۔ یہاں تک کہ کسی کی ذاتی زندگی میں مداخلت کرنا بھی جرم پایا گیا۔ اب اس پے کتنا عمل کیا جاتا ہے وہ ایک الگ بات ہے پر انسان نے جو تھذیب کا سفر طئے کیا ہے اور جس طرح اس نے ارتقا کر کہ یہاں تک پہنچا ہے اس کو دیکھتے ہوئے ضرور یہ اندازہ لاگیا جا سکتا ہے کہ انسانی حقوق کے قوانین پے ایک دن ضرور مکمل طور پر عمل کیا جائے گا۔اس وقت دنیا کے چند مملاک ہیں جو انسانی حقوقوں کو یقینی بناتے ہیں ۔تیسری دنیا کے ممالک میں رہنے والے کروڑوں انسان ان ممالک کو بڑی حسرت سے دیکھتے ہیں جنہوں نے انسانی حقوق کا خیال رکھا ہے۔ جہاں ہمیں بہت سارے کاپلیکسس ہیں وہاں یہ بھی کہ ہم انگریزی زبان کو معیار تعلیم سمجھتے ہیں اور اس شخص کو قابل سمجھتے ہیں جو انگریزی بول لیتا ہو اگر ایسا ہوتا تو برطانیا اور آمریکا میں ہرشہری کے پاس سرکاری نوکری ہوتی پر ایسا نہیں ہے کیونکہ قابلیت علم کے ساتھ پیدا ہوتی ہے اور علم کسی ایک زبان کا محتاج نہیں ہوتا زبان کا کام صرف لوگوں کو بات سمجھانا ہے۔برطانیا نے جب برصغیر چھوڑا تو اپنے پیچھے بہت ساری احساس محرمومی بھی چھوڑ گیا۔ آج بھی یہاں کے لوگ کالے شیشے اور سائرن لگا کے گاڑی گہما کے یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں کہ وہ اس زمانے کے طاقتور انسان ہیں یہ خود سے زبردستی عزت حاصل کرنے کے متاردف ہے اور ایسے رویہ اس معاشرے میں پائے جاتے ہیں جہاں احساس محرومی زیادہ ہو۔پھچلی کئی دہائیوں سے جنوبی ایشیا کے ممالک میں آمریکی کلچر پروان چڑھا ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ پر احساسی محرومی کا پیدا ہونا غلط بات ہے۔

اب جنوبی ایشیا کے مملاک میں کچھ لوگ ایسے خاندان سے ہیں جو کہ اچھی انگریزی بولتے ہیں، برگرز کھاتے ہیں، اولاد کو ان کے حقوق دیتے ہیں، اچھی تعلیم دیتے ہیں، اولاد کی زندگیوں میں مداخلت نہیں کرتے، اولاد کو جینے دیتے ہیں، اولاد سے جب بھی بات کریں ایسے لگتا ہے کسی دوست سے بات کر رہیں ہوں۔ایسے خاندانوں میں انسانوں کو مجبور نہیں کیا جاتا کہ وہ خاندان کے کسی ایک فرد کے مطابق زندگی گزاریں بلکہ ہر کسی کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ جیسی چاہیں ویسی زندگی گزاریں اور جس کے ساتھ چاہیں گزاریں، وہاں عورت اپنے فیصلے خود سے کرتی ہے، وہاں کی عورتوں کو اپنے حقوقوں کا پتا ہوتا ہے۔ دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو اولاد سے ایسے بات کرتے ہیں جیسے ایک ظالم بادشاہ قیدی کے ساتھ کرتا ہے۔ وہ حاکم ہوتا ہے اور اولاد سمیت بیوی بھی محکوم۔ یہ طبقہ اس طبقے کو “برگر” کہتا ہے۔اب یہ جو باتیں اس “برگر” خاندان میں پائی جاتی ہیں وہ کوئی آسمان سے نہیں ٹپکی ہوتیں بلکہ وہ فسلفے کی تعلیم ہوتی ہے جس نے یورپ کو بدلا تھا۔ پاکستان میں کسی خاندان کے لیئے لفظ “برگر ” کا استعمال اسٹیج ڈراموں سے ہوا تھا۔ اس کے علاوہ کچھ خبروں میں بھی اس کا ذکر آیا ہے۔ جیسے 2013 کے الیکشن میں کسی نے رپورٹ دی تھی کہ پاکستان کے “برگر” لوگوں نے پی،ٹی،آئی کو ووٹ دئیے ہیں۔ میرے نذیک “برگر” نامی کوئی خاندان یا تھذیب کا وجود ہی نہیں ہے یہ محض ایک تاثر ہے۔جو کہ آج بہت سارے لوگوں کے لیئے احساس محرومیت کا سبب بنا ہوا ہے دو طبقے ہیں ان میں سے ایک بنیاد پرست ہیں اور دوسرے زمانے اور بدلتی دنیا کے ساتھ چلنے والے۔ ایک انسانی حقوق اور تعلیم کی بات کرتا ہے اور دوسرا خاندانی عزت کی اور خاندان میں آمریت کی ۔اس دنیا میں کوئی بھی برگر نہیں ہے۔ اگر ایک طبقہ انسانیت کی باتیں کر رہا ہے، تعلیم کی بات کر رہا ہے، انسانی آزادی کی بات کر رہا ہے ، اور مذہبی انتہاپسندی کو ختم کرنے کی بات کر رہا ہے ، عزت کو برقے سے آگے لانے کی بات کر رہا ہے تو وہ برگر نہیں ہرگز نہیں بلکہ ایسی بات کرنے والا وہ شخص ہے جو معاشرے میں خوشیاں بکھرنے کا خواہش مند ہے۔اگر کوئی شخص ایسے خاندان یا فرد کو دیکھے جو اسے “برگر” لگے تو وہ اپنے آپ کو احساس محرومیت کا شکار نہ ہونے دے بلکہ تعلیم کو سمجھے وہ تعلیم جو فلسفیوں نے دنیا کو دی تھی۔ فرق محض رویوں کا ہوتا ہے۔ اور رویے شعور سے بنتے ہیں اور رویے ایسے ہونگے جیسا انسان کا شعور ہوگا ۔شعور سوچنے سے اور علم سے پیدا ہوتا ہے اور نکھرتا ہے علم وہ نہیں جس میں ڈگریوں کا کمال ہو بلکہ وہ علم جس نے انسانوں کو برابری کے رویے رکھنے کا سبق دیا تھا۔بات رویوں کی ہے اور اصل فرق بھی رویوں کا ہے ۔ کسی دوسرے خاندان یا انسانوں کے رویے دیکھ کر احساس محرومی کا شکار ہونے سے بہتر ہے کہ خود اپنے رویے تبدیل کیئے جائیں۔انسان اگر یہ سبق پڑھ لے کہ ہر انسان کا بنیادی حق ہے کہ وہ جیسی چاہے زندگی گزار سکتا ہے۔ اور کسی دوسرے انسان کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی کی زندگی میں زبردستی طور پر اثرانداز ہو ، چاہے وہ کسی کا باپ ہو، بیٹا ہو، بھائی ہو یا شوہر ہو یا بیوی اور بہن کیوں نہ ہو۔ ہمارے معاشرے میں ذہنی کاپلیکسز کا اصل سبب ہی یہ کہ ہمارے خاندانی نظام میں انسانی بنیادی حقوق کو روند دیا جاتا ہے جسے نسلیں برباد ہوتیں ہیں اور پھر اسی طرح جب کوئی کسی کو آزاد زندگی گزارتے دیکھتا ہے تو لفظ “برگر” اس پے فٹ کیا جاتا ہے اور احساس محرومیوں کا نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اور معاشرے میں اکثریت ان لوگوں کی ہوجاتی ہے جو سائرن کے آواز سے سرور حاصل کرتے ہیں اور ایسی صورتحال میں ذہنی کاپلیکس اپنے عروج پے ہوتا ہے اور یہی دیوانگی ہے جو ہم آج دیکھ سکتے ہیں
 

Shaharyar Rehman
About the Author: Shaharyar Rehman Read More Articles by Shaharyar Rehman: 8 Articles with 7341 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.