وزیر اعظم نریندر مودی نے جی 20کے اجلاس سے خطاب کرتے
ہوئے ہندوستان اور افغانستان کے درمیان صدیوں سے قریبی عوامی تعلقات کا ذکر
کیا اور یہ انکشاف بھی کیا کہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ، ہندوستان نے
افغانستان کی سماجی و اقتصادی ترقی اور نوجوانوں اور خواتین کی صلاحیت سازی
میں اپنا تعاون دیتے ہوئے تقریباً 500 پروجیکٹوں پر عمل درآمد کیا ہے۔یہ
ایک حقیقت ہے کہ طالبان کی آمد کے بعد ابھی تین ماہ کا عرصہ بھی نہیں
گزرا۔ اس لیے موجودہ انسانی بحران کے لیے اس کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا
جاسکتا ۔ پچھلے 20سالوں سے افغانستان کے اندر ایک مغرب نواز حکومت تھی اور
دنیا بھر کے بے شمار ممالک بشمول ہندوستان اس کا تعاون کررہے تھے۔ ان لوگوں
نے اگر افغانستان کی معیشت کو مضبوط کردیا ہوتا تو محض اقتدار کی تبدیلی سے
تین ماہ کے اندر اس کانفرنس کی ضرورت نہیں پڑتی اور وزیر اعظم نریندر مودی
اس طرح تشویش کا اظہار نہیں کرتے۔ انہوں نے کہا کہ افغان عوام ہندوستان کے
ساتھ دوستی کا جذبہ رکھتے ہیں۔ ہر ہندوستانی بھوک کے مسئلے کا سامنا کرنے
والے افغان عوام کے درد کو محسوس کر رہا ہے۔ وقت کی ضرورت ہے کہ بین
الاقوامی برادری فوری طور پر افغانستان کو انسانی امداد کی بلا تعطل فراہمی
کو یقینی بنائے۔
وزیر اعظم جس بھوک کے مسئلے کا ذکر فرما رہے ہیں وہ اچانک پیدا نہیں
ہوابلکہ ان 20 سالوں میں مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا گیا جب عالمی برادری
وہاں فلاح و بہبود کا ناٹک کررہی تھی۔ فی الحال جو سنگین حالات پیدا ہوئے
ہیں اس کی بنیادی وجہ افغانستان کے غیر ملکی اثاثوں کا غیر قانونی انجماد
ہے ۔ اس لیے افغانستان کی مدد کرنے کے ساتھ اگرامریکہ اور دیگر ممالک اس کے
مالی وسائل کے اوپر سے اپنا غاصبانہ قبضہ ختم کردیں تو یہ مسئلہ بہ آسانی
حل ہوسکتا ہے لیکن مگر مچھ کے آنسو بہانے والے عالمی رہنما اس کی بات نہیں
کرتے۔ جس دن جی 20 کا یہ اجلاس ہورہا تھا افغانی وزیر خارجہ امیر اللہ متقی
نے عالمی برادری سے اس کا پرزور مطالبہ کیا کہ ہم ساری دنیا سے بہتر تعلقات
استوار کرنا چاہتے ہیں اس لیے نہ تو ہم بیجا دباو ڈالا جائے اور نہ ایسی
توقعات وابستہ کی جائیں جن کو راتوں رات پورا کرنا ممکن ہو۔ انہوں نے کہا
افغانستان کی نئی حکومت کو مہلت دی جائے اور اس کے وسائل لوٹائے جائیں ۔
دوسروں کو بھوک کو محسوس کر کے فکرمندہوجانا اچھی بات ہے اور اس کو دور
کرنے کے لیے سعی کرنا اور بھی اچھا ہے مگر ایسا کرتے ہوئے خود اپنے حال سے
غافل رہنا ناقابلِ معافی جرم ہے۔ فی زمانہ بھوک کو زور بیان سے نہیں ناپا
جاتا بلکہ اس کی خاطر سائنٹفک انداز میں اعدادو شمار جمع کیے جاتے ہیں اور
اس کی بنیاد پر مختلف ممالک کی درجہ بندی کی جاتی ہے اس کو گلوبل ہنگر
انڈکس یعنی عالمی بھوک کی شرح کا نام دیا جاتا ہے۔ اس طرح کا عالمی جائزہ
ہر سال کیا جاتا ہے اور وہ شائع بھی ہوتاہے۔ اس کی تازہ رپورٹ میں دنیا کے
۱۰۷ ممالک کا حالت بیان کی گئی ہے اور ان کو بھوک کے حوالے سے کم ، معتدل،
سنگین اور تشویشناک کے درجات میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اتفاق سے اس بابت
ہندوستان ، پاکستان اور افغانستان تینوں کی حالت سنگین ہے۔
اس کی تفصیل میں جائیں تو پتہ چلتا ہے افغانستان کی حالت باقی دونوں سے دگر
گوں ہے یعنی وہ 99 نمبر پر ہے ۔ پاکستان کی حالت تینوں بہترین ہے جو 88
نمبر ہے۔ ہندوستان ان دونوں کے درمیان 94 نمبر پر ہے۔ یعنی جہاں ہندوستان
اور پاکستان کے درمیان 5 ممالک ہیں اور وہیں ہندوستان و افغانستان کے
درمیان بھی 4ممالک ہیں ۔ اس لیے مودی جی کو اپنے ملک کی بھوک کو فراموش
نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ہندوستان کی آبادی افغانستان سے کئی گنا زیادہ ہے
اس لیے بھوک سے پریشان حال لوگوں کی جملہ تعداد بھی اپنے آپ کئی گنا بڑھ
جاتی۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ہندوستان کے فاقہ کشوں کی تعداد سب سے
آخری 107 نمبر پر موجود چاڈ سے بھی بہت زیادہ ہوجائے گی ۔ جنوب ایشیا کے
ممالک کا موازنہ کیا جائے تو سری لنکا 64 اور نیپال جیسا چھوٹا ملک 73 پر
ہے۔ اس کے بعد بنگلا دیش 75 اور میانمار 78 پر آتا ہے ۔ بھوک کے معاملے
میں وشو گرو کا خواب دیکھنے والا ہندوستان چونکہ اپنے سارے پڑوسی ممالک سے
پیچھے ہے، اس لیے وزیر اعظم کو اپنے دامن میں بھی جھانک دیکھنا چاہیے ۔
بھوک کے علاوہ پی ایم مودی نے اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت پر زور دیا
کہ افغانستان کی سرزمین خطے یا دنیا کے لیے انتہا پسندی اور دہشت گردی کا
ذریعہ نہ بن جائے۔ وزیر اعظم کو خطرہ ہے کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی
افغانستان سے دوسرے ممالک میں برآمد کی جائے گی لیکن ہندوستان اس معاملے
میں خود کفیل ہے ۔ وطن عزیز میں انتہا پسندی بامِ عروج پر پہنچی ہوئی ہے ۔
ہندو احیاء پرستوں نے ہجومی تشدد کے نام پر بے شمار لوگوں کو ظلم و تشدد کا
نشانہ بنایا ہے۔ ہندوستان کے اندر کبھی لو جہاد کا شور اٹھتا ہے تو کبھی
کورونا جہاد کی گونج سنائی دیتی ہے۔ حدتو یہ ہے کہ پہلے آئی اے ایس جہاد
اور ابھی حال میں مارک شیٹ جہاد کی خبر ذرائع ابلاغ کی زینت بنی ۔ وطن عزیز
میں سرکاری دہشت گردی کا شکار نہ صرف مسلمان بلکہ ہر وہ ہندو ہوجاتا ہے جو
حکومت کی مخالفت کرنے کی جرأت دکھاتا ہے۔ جس کا اپنا دامن تار تار ہو وہ
اگر دوسروں کو نصیحت فرمانے لگے تو اس کا نتیجہ اپنی فضیحت کے سوا اور کیا
ہوسکتا ہے؟ بدقسمتی سے وزیر اعظم کے نہایت زبردست خطاب کے ساتھ بھی یہی
ہوا۔ ویسے انہوں نے اس امید میں یہ خطاب فرمایا ہوگا کہ ؎
اتنی بھوک لگی ہے مجھ کو ،میں دھوکہ بھی کھا سکتاہوں
مجھ سے باتیں کر کے دیکھو ،میں باتوں میں آ سکتا ہوں
|