بصیرت از ڈاکٹر صفدر محمود

پچھلی رات کے وقت علامہ اقبال ؒ کس روحانی شخصیت سے محو گفتگو تھے؟
خضر علیہ السلام کو بلانے کے لیے علامہ ؒ نے علی بخش کو کیوں دوڑایا؟
مولانا روم ؒ اگر شمس تریز ؒ سے نہ ملتے تو ان کا شمار کیسے لوگوں میں ہوتا؟
اذان تہجد ہوتے ہی کون جنت بقیع کی طرف گیااورکون مسجد نبوی کی طرف؟

بصیرت ،ڈاکٹر صفدر محمود کی کتاب ہے جن کا 14 ستمبر2021ء کو وصال ہوگیا اور وہ اپنے آبائی قصبے " ڈنگہ "میں مٹی کی چادر اوڑھ کر ابدی نیند سو گئے۔وہ لکھتے ہیں "بصیرت "کے لفظی معنی دانائی ،عقلمندی اور ہوشیاری کے ہیں لیکن بعض اردو لغات میں بصیرت کے معنی "دل کی بینائی" بھی لکھے ہیں ۔دل کی بینائی ،دل کی روشنی کی مرہون منت ہوتی ہے اور دل میں روشنی یا تو عبادات و مجاہدات سے جنم لیتی ہے یا پھر مرشد کی عطا سے۔فرق صرف اتنا ہے کہ مجاہدات و عبادات طویل عرصے استقامت کے بعد دل میں نور کی قندیل روشن کرتے ہیں لیکن مرشد کی نگاہ سے یہ منزلیں آسان اور فاصلے مختصر ہو جاتے ہیں ۔اگر مرشد کامل ہواورمہربان بھی ہو جائے تو قلب کی روشنی یا بصیرت۔ مجاہدات و عبادات کے بغیر بھی مل جاتی ہے ۔غور طلب بات یہ ہے کہ مرشد بلاوجہ مہربان نہیں ہوتا بلکہ وہ مرید کے باطن کی صفائی اور پاکیزگی کودیکھ کر مہربان ہوتا ہے ۔بیج ڈالنے سے پہلے زمین تیار کی جاتی ہے ۔جب تک زمین تیار نہ ہو، مرشد بیج نہیں بوتا۔قلب اور باطن پاکیزہ ہونگے تو مرشد کی نگا ہ سے شمع روشن ہوسکتی ہے اور بصیرت حاصل ہوسکتی ہے، ورنہ مرشد پہلے ذکر و اذکار اور عبادات کے ذریعے باطن کی صفائی کا بندوبست کرے گا پھر کچھ عطا کرنے کا سوچے گا۔

یقین کیجیئے مرشد کسی مرید پر اس وقت زیادہ مہربان ہوتا ہے جب مرید کو کوئی روحانی نسبت حاصل ہو یا اسے نیک اعمال کی بنا پر ایسی دعائیں ملی ہوں جو اﷲ سبحانہ و تعالی کے ہاں قبولیت کا درجہ پاچکی ہوں ۔یا اس نے کچھ ایسے اعمال کیے ہوں جن سے قلب میں پاکیزگی اور بالیدگی پیدا ہوچکی ہو ۔ان عوامل کا علم صرف مرشد کامل کو ہو تا ہے اور یہ راز کسی اور سے شیئر نہیں کرتا۔مرشد کی عطا بھی ضابطوں اور اصولوں کی پابند ہوتی ہے ۔عام طور پر مرشد بھی عطا کرنے میں مکمل آزاد نہیں ہوتا کیونکہ وہ بھی روحانی دنیا کے سلسلے میں جوابدہ ہوتا ہے اور روحانی نظام کے اصول و ضوابط کا پابند ہوتا ہے ۔"بصیرت " کے متلاشی کو منزل تب ملتی ہے جب اس کا قلب و باطن دنیاوی ہوس، شیطانی جذبات و خواہشات ،غصے ،کدورت اور بغض اور ہر قسم کے سفلی جذبات سے پاک و صاف ہوتا ہے ۔گویا قلب کی پاکیزگی کاحصول بھی ایک مجاہدہ ہے جس کے لیے طویل محنت کرنی پڑتی ہے اور اپنے آپ کو مخصوص سانچے میں ڈھالنا پڑتا ہے۔بصیرت مل جائے اور قلب میں نورالہی کی شمع روشن ہو جائے تو انسان بصارت کی بجائے "بصیرت" کا محتاج ہوتا ہے ۔وہ ظاہری آنکھوں سے کم ،دل کی نگا ہ سے زیادہ دیکھتا ہے ۔دل کی نگاہ سے ہی دیکھنا "بصیرت "کہلاتی ہے ۔

ڈاکٹرصفدر محمود "بصیرت "کتاب میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ چند روز قبل مجھے اوریامقبول جان کے ایک ٹی وی پروگرام کا کلپ ملا ۔ اوریامقبول جان نے یہ پروگرام یوم اقبال ؒ کے حوالے سے 21نومبر کو کیا تھا ۔اس پروگرام میں علامہ اقبال کی بیٹی منیرہ اور ان کے دو صاحبزادے موجود تھے ۔شرکاء نے تصدیق کی کہ انہوں نے یہ واقعات علی بخش سے سنے تھے جو علامہ اقبال ؒ کی خدمت پر مامور تھا۔ پہلا واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک روز علامہ اقبال ؒ نے رات تین بجے علی بخش کو نیند سے بیدار کیا ۔علی بخش ان کے کمرے میں گیا تو وہاں ایک نہایت نورانی خوبصورت ، مقناطیسی باریش شخصیت تشریف فرما تھی ،جو علامہ سے گفتگو کررہی تھی ۔اس لمحے علامہ ؒ نے علی بخش سے دو گلاس لسی لانے کو کہا تو علی بخش نے جواب دیا ۔اس وقت تو بازار اور دکانیں بند ہونگی۔ علامہ اقبال نے کہا تم بازار جاؤ کوئی نہ کوئی دوکان کھلی مل جائے گی۔علی بخش تعمیل حکم کے لیے بازار گیاتو دور ایک دکان میں روشنی نظر آئی ۔وہ دودھ دہی کی دکان تھی اور دوکاندار کا پرنور اور باریش چہرہ بھی متاثر کن تھا ۔علی بخش نے دو گلاس لسی لے کر ادائیگی کرنی چاہی تو جواب ملا ، پھر لے لیں گے ہمارا ڈاکٹر صاحب سے حساب چلتا رہتا ہے ۔علی بخش نے لسی کے دونوں گلاس علامہ اقبالؒ کے کمرے میں رکھے اور خود جا کر سو گیا ۔علی بخش کے بقول اس واقعے نے اس کے ذہن میں جستجو کی آگ لگا دی اور وہ کئی برس تک علامہ سے پوچھتا رہا کہ وہ نورانی شکل والے صاحب کون تھے جو نصف آپ سے ملنے آئے تھے ؟علامہ کئی برس تک اسے ٹالتے رہے ۔ بالاخر ایک دن انہوں نے علی بخش کی ضد کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے اورکہا وعدہ کرو یہ راز میری زندگی میں کسی کو نہیں بتاؤ گے ۔پھر فرمایا جو ہستی رات کے پچھلے پہر میرے کمرے میں تشریف فرما تھی وہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ تھے اور جس ہستی سے تم لسی لائے تھے وہ حضرت علی بن عثمان ہجویری المعروف داتا گنج بخش تھے ۔ علی بخش نے وعدہ نبھایا اور اس راز سے علامہ اقبال ؒؒکی وفات کے بعد پردہ اٹھایا ۔اوریامقبول جان کے پروگرام میں شریک علامہ اقبال ؒ کی بیٹی منیرہ اور نواسوں نے یہ واقعہ خود علی بخش کی زبانی سنا تھا ۔

اسی باب میں ڈاکٹر صفدر محمود نے ایک اور واقعے کا تذکرہ کیا ہے ۔وہ لکھتے ہیں اسی پروگرام کے شرکا ء نے ایک کشمیری نوجوان کا ذکر بھی کیاتھا جس نے خواب کی حالت میں دیکھا کہ نماز کے لیے صف بندی ہو چکی ہے اور نبی کریم ﷺامامت کروانے والے ہیں ۔آپﷺ پوچھتے ہیں "میرا اقبال نہیں آیا "۔اتنے میں ایک شخص آتا ہے اورنماز کی صف میں شامل ہوجاتا ہے ۔کشمیر کا رہنے والا وہ زاہد و عابد نوجوان، اقبالؒ کی تلاش میں لاہور پہنچا اور انہیں دیکھتے ہی زارو قطار رونے لگا اور کہا یہی وہ شخص ہے جسے میں نے خواب کی حالت میں حضور نبی کریم ﷺ کے ساتھ دیکھاتھا ۔

ڈاکٹر صفدر محمود حضرت خضر علیہ السلام کے حوالے سے بھی ایک واقعے کا ذکر کرتے ہیں جو ڈاکٹرجاوید اقبال کی مستند کتاب "زندہ رود"میں بھی صفحہ نمبر 317پر موجود ہے۔نظم "خضرراہ"کے ضمن میں ڈاکٹر جاوید اقبال لکھتے ہیں کہ جن دنوں علامہ نے یہ نظم لکھنا شروع کی ،وہ نقرس کے مرض میں مبتلا تھے ۔کئی راتیں انہوں نے بیداری کے عالم میں گزاریں ۔رات کو علی بخش ان کی دیکھ بھال کرتا تھا ۔درد کی شدت کے سبب نیم بے ہوشی کی کیفیت میں علامہ اپنے پاس بیٹھے ہوئے ایک بزرگ سے سوال پوچھتے جاتے تھے اور وہ بزرگ جواب دیتا جاتا تھا ۔اس بزرگ کے رخصت ہونے کے بعد علامہ نے علی بخش کو آواز دے کر بلایا جو بیٹھک کے فرش پر لیٹا ہوا علامہ اقبال ؒ کو تنہائی میں کسی کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے سن رہا تھا۔ علامہ اقبال ؒ نے علی بخش کو اس بزرگ مرد کے پیچھے دوڑایا کہ وہ انہیں واپس لے آئے ابھی انہوں نے اس سے مزید کچھ پوچھنا ہے ۔رات کے تین بجے تھے ۔ علی بخش پھرتی سے نیچے اترا تو دروازے کو اندر سے مقفل پایا ،دروازہ کھول کر باہر نکلا تو ہو کا عالم طاری تھا۔دور دور تک کسی انسان کا نام و نشان نہیں تھا۔
...................
ڈاکٹر صفدر محمود ایک جگہ لکھتے ہیں کہ روحانیت کیا ہے ؟ روحانی نظام ہے بھی یا نہیں ،اگر ہے تو وہ کیسے کام کرتا ہے ؟ کیا پاکستان میں فیصلے روحانی حکمران کرتے ہیں ؟ یا پاکستان روحانیت کے دور میں داخل ہوچکا ہے؟دنیا کی دلدل میں پھنسا ہوا میں ایک عام انسان ہوں ,اس لیے یہ سارے سوالات و معاملات میری سمجھ سے بالاتر ہیں ۔ظاہر ہے ان سوالوں کا جواب وہی دے سکتا ہے جو خود صاحب باطن ہو ۔روحانی خبر کی اطلاع بھی صرف روحانی شخصیت کو مل سکتی ہے جس کا قلب نور معرفت سے منور ہو۔آپ نے مولانا جلال الدین رومی ؒ مرشد اقبال ؒ کی روداد کے حوالے سے وہ مشہور واقعہ تو پڑھا ہوگاکہ مولانا روم نہایت عالم و فاضل شخصیت کے مالک تھے اور لاتعداد کتابوں کے مطالعے سے مستفید ہوکر فلاسفر کے مقام پر متمکن تھے ۔ایک دن وہ اپنے بھاری بھرکم کتابوں کے ساتھ اپنے شاگردوں کو کچھ سمجھا رہے تھے کہ ان کے پاس سے ایک میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوسایک فقیر کا گزر ہوا۔ لوگ اس وقت انہیں پہچانتے نہ تھے کیونکہ وہ کچھ تارک دنیا اور کچھ گمنامی کی زندگی گزار رہے تھے۔ وہ تھے روحانی دنیا کے تاجدار حضرت شمس تبریز ؒ۔ وہ مولانا کی جانب بڑھے ،چند باتیں ہوئیں اور حضرت شمس تبریزؒ نے مولانا روم کی کتابیں اٹھا کر تالاب میں پھینک دیں ۔ مولانا رومی ؒ کو اپنی قیمتی کتابوں کو پانی برد ہوتے ہوئے دیکھ کر غصہ بھی آیا اور صدمہ بھی ہوا ۔انہوں نے غصے سے کہا یہ آپ نے کیا کیا علم و حکمت کی نایاب کتابوں کو تالاب کی نذر کردیا ۔حضرت شمس تبریز ؒ نے ایک نگا ہ مولانا روم پر ڈالی کہ تم کن کتابوں کے علم میں مگن ہو ؟ اصلی علم یہ نہیں ،اصلی علم فقیروں اور اﷲ کے برگزیدوں بندوں سے ملتا ہے جن پر اﷲ سبحانہ و تعالی کی عطا ہوتی ہے ۔یہ کہہ کر حضرت شمس تبریز ؒ نے تالاب میں ہاتھ ڈالا اور مولانا روم کی کتابوں کو باہر نکال دیا ۔ اس وقت کتابیں بالکل خشک تھیں، تالاب کے پانی کا ان پر کوئی اثر نہیں تھا ۔اس کے بعد حضرت شمس تبریز ؒ وہاں سے چل پڑے تو مولانا روم بھی سب کچھ چھوڑ کران کے پیچھے ہو لیے ۔کچھ عرصہ غائب رہنے کے بعدجب لوٹے تو وہ روحانی علم سے مالا مال ہوچکے تھے اور ان کی دنیا بدل چکی تھی ۔ کہا یہ جاتا ہے کہ اگر مولانا روم حضرت شمس تبریز کی نگاہ کے سمندر سے سیراب نہ ہوتے تو اپنی وفات کے ساتھ ہی گمنام ہو چکے ہوتے ۔ صدیاں گزرنے کے بعد مولانا روم اگرزندہ ہیں ،ہر روز ہزاروں لوگ ان کے مزار پر حاضری دیتے اور فیض پاتے ہیں ۔یہ تبریزی نگاہ کا ہی فیض ہے کہ دنیا میں مولانا روم کی کتابیں پڑھی جاتی ہیں اور ان پر تحقیق و تالیف کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔سچ تو یہ ہے کہ دنیاوی علم کتابوں سے حاصل ہوتا ہے لیکن ابدی علم کسی مرد درویش کی نگاہ کا مرہون منت ہوتا ہے ۔اسی لیے اقبال ؒ جیسا آفاقی شاعر بار بار نگاہ یا نگہہ کا ذکر کرتا ہے۔
................
ڈاکٹر صفدر محمود مزید لکھتے ہیں کہ یہ ہر کوئی جانتا ہے کہ روحانیت کی ابتداء اور انتہاء ادب ہے جسے علامہ اقبال ؒ محبت کے قرینوں میں پہلا قرینہ قرار دیتے ہیں ۔میں نے مدینہ منورہ میں کئی عاشقان رسول ﷺ اور صوفیا کرام دیکھے جو مدینہ کی حدود میں جوتی نہیں پہنتے کہ یہ ادب کا تقاضا ہے ۔مجھ جیسا گناہگار اور کمزور انسان بھی مدینہ منورہ میں چلتے ہوئے اس خیال سے خوفزدہ رہتا تھا کہ کہیں میرا پاؤں ایسی جگہ اور ایسے مقام پر نہ پڑجائے جہاں حضوراکرم ﷺ کا مبارک پاؤں پڑا ہو۔نظر کچھ نہیں آتا لیکن یہ احساس کی بات ہے ۔ادب ہی وہ کنجی ہے جس سے عشق حقیقی کے دروازے کھلتے ہیں اور عشق ہی وہ روشنی ہے جو قرب الہی کا سبب بنتی اور عشق رسول ﷺ کی راہ ہموار کرتی ہے ۔میرا ذاتی تجربہ اور مشاہدہ یہ ہے کہ جب عاشق ان منازل کو طے کرکے قرب یا حضوری کی منزل پر پہنچ جاتا ہے تو اس کے لیے موت اور زندگی کا فرق مٹ جاتا ہے ۔یہ میرا مشاہدہ ہے ہرگز سنی سنائی بات نہیں کہ قرب الہی اور قرب رسول ﷺسے فیض یاب ہستیوں کے لیے موت فقط دنیا کی نظروں سے اوجھل ہونے کا نام ہے ،ورنہ موت انہیں نہیں چھوتی ۔وہ ایک دنیا سے دوسری خوبصورت ،غموں سے آزاد اور نعمتوں سے آراستہ دنیا میں منتقل ہو جاتے ہیں۔

ڈاکٹر صفدر محمود ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ مدینہ منورہ میں دو ایسے عاشقوں سے ملاقات کا مجھے شرف حاصل ہو ا جن کا تعلق پاکستان سے تھا لیکن وہ کئی دہائیوں سے مدینہ منورہ میں مقیم تھے اور اپنے اپنے دائرے میں رہتے ہوئے حضورﷺ کی خدمت میں مصروف عمل رہتے۔ وہ اس خوف سے مدینہ منورہ سے باہر نہیں جاتے تھے کہ کہیں انہیں موت نہ آ دبوچے۔ان کی آخری خواہش مدینہ منورہ میں ہی مرنا اور دفن ہونا تھا ۔اسی مقصد کے لیے انہوں نے اپنا گھر بار اور وطن چھوڑا۔ان عاشقوں میں سے ایک ہستی کا نام صوفی محمد اسلم تھاجو مدینہ منورہ میں رباط مکی نامی عمارت میں مقیم تھے ۔ان کے ایک ہاتھ میں تسبیح اور دوسرے ہاتھ میں کڑچھی ہوتی جو چولھے میں رکھے ہوئے دیگچے میں حرکت کرتی رہتی۔میری ان تک رسائی بابا مست اقبال کے ذریعے ہوئی جو لاہور کی ایک عظیم روحانی شخصیت تھے ۔وہ ہمہ وقت نیم جذب کی حالت میں رہتے اور ان کا باطن ہمہ وقت روشن رہتا ۔جو بات زبان سے نکلتی من و عن درست نکلتی ۔ان کا وصال ہوئے کئی برس گزرچکے ہیں۔ بابا مست اقبال سے صوفی محمد اسلم صاحب کی گہری دوستی تھی کہ عاشق ، عاشق کا بہترین دوست ہوتا ہے۔صوفی محمد اسلم صاحب کا وصال بھی کافی سال پہلے ہوچکا ہے وہ جنت البقیع میں مدفون ہیں ۔میری بابا مست اقبال سے راز و نیاز کی باتیں ہوتی رہتی تھیں وہ مجھ پر مہربان تھے۔ بابا مست اقبال ، صوفی محمد اسلم صاحب کے وصال کے بعد پہلی بار عمرے پہ گئے ۔واپس تشریف لائے تو میں ان سے ملنے گیا ۔میں نے ان سے پوچھا بابا جی کیا صوفی اسلم صاحب سے آپ کی ملاقات ہوئی ؟انہوں نے فورا فرمایا ہاں ۔ میں جس ہوٹل میں ٹھہرا تھا وہاں صوفی اسلم صاحب میرے کمرے میں آئے تھے اور تہجد تک میرے پاس رہے ۔مسجد نبوی میں نماز تہجد کی اذان ہوئی تو وہ جنت البقیع کی جانب چلے گئے اور میں حرم نبوی ﷺ کی طرف چلا آیا۔بابا مست اقبال ،ولی اﷲ تھے اور سر تا پا ؤں سچ تھے ۔اب آپ ہی بتائیں میں کیسے مان لوں کہ عاشق رسول ﷺ ظاہر ی موت کے بعد مرجاتا ہے وہ تو محض عارضی دنیا سے ابدی دنیا میں منتقل ہو جاتا ہے ۔

ٗیہ کتاب قلم فاؤنڈیشن ،بنک سٹاپ والٹن روڈ لاہور کینٹ کے زیراہتمام شائع ہوئی ہے اس کی قیمت 2500/- روپے ہے۔جو کتاب میں شامل روحانی واقعات کو دیکھ کر زیادہ نہیں لگتی ۔یہ کتاب بطور خاص روحانیت اور تصوف پر تحقیق کرنے والوں کے لیے ایک اثاثہ ہے۔

 

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 784212 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.