تین الف کی ایک کہانی : آرین ، آشیش اور اڈانی

تاش کے کھیل میں چھوٹے پتےّ کو بڑے پتےّ سے کاٹا جاتا ہے لیکن اگر کسی کھلاڑی یعنی جواری کے پاس جمع تین اکےّ ہوجائیں تو وہ ناقابلِ تسخیر ہوجاتا ہے اور مخالف کے چھکے چھوٹ جاتے ہیں ۔ ایسا ہی کچھ فی الحال بی جے پی کے ساتھ ہوا ہے ۔ وہ تین اکوںّ کے چکرویوہ میں پھنس کر چھٹپٹا رہی ہے مگر یہ اس کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے۔ بی جے پی نے اپنے تُرپ کے اکےّ اڈانی کو بچانے کی خاطر آرین کو پھنسایا اور اس کا استعمال آشیش کی جانب سے توجہ ہٹانے کے لیے بھی کیا لیکن اب تو خود پھنس گئی ہے۔ آرین خان کی گرفتاری پر اٹھنے والے سوالات کمل کے گلے کی ہڈی بن گئے ہیں ۔ اڈانی کے تحت چلنے والے موندرا بندر گاہ پر 15؍ ستمبر کو منشیات کا ایک بہت بڑا ذخیرہ پکڑا گیا ۔ اس کی خبر 21 ؍ ستمبر کو رائیٹر نامی غیر ملکی ایجنسی کے توسط سے آئی حالانکہ اپنے ملک میں ضبر رساں ایجنسیوں کی کمی نہیں ہے۔ اس معاملے کی جانب سے توجہ ہٹانے کی خاطر 2 ؍ اکتوبر کو آرین خان کو گرفتار کرلیا گیا۔ اسی دن وزیر مملکت برائے امور داخلہ اجئے مشرا کے بیٹے پر کسانوں کو گاڑی سے کچلنے کا الزام لگا۔ اس بدنامی سے بچنے خاطر آرین کی ضرورت اور بڑھ گئی ۔

ذرائع ابلاغ فی الحال ہر روز یہ تو بتایا جاتا ہے کہ شاہ رخ کے بیٹے آرین پر جیل میں کیا گزر رہی ہے لیکن کوئی نہیں بتاتا کہ آشیش مشرا جیل میں کیسے چکی پیس رہا ہے؟ ان دونوں کی آڑ میں گوتم اڈانی اور اس کے محسن مودی و شاہ چین کی بنسی بجا رہے ہیں ۔ اسے کہتے ہیں کسی خبر کو چھوٹا کرنے خاطر اس سے بڑی خبر اڑا دینا چاہے وہ جھوٹی ہی کیوں نہ ہو؟ پچھلے دو ہفتوں میں آرین خان کے ساتھ کیا کیا ہوا ؟ یہ سوال اگر کسی سے پوچھا جائے تو اس کے پاس اس کے گنت جواب ہوں گے لیکن لیکن اکیس ہزار کروڈ کی منشیات اڈانی کی بندرگاہ پر پکڑی گئی اس پر کیا ہوا ؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اڈانی پورٹس اینڈ اسپیشل اکنامک زون نے اپنے ٹرمینلز پر 15؍ نومبر سے ایران، پاکستان اور افغانستان سے آنے والے کنٹینر کارگو کو برآمد اور درآمد کی سہولت دینے سے انکار کردیا ۔ اس کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی اور ہے بھی نہیں کیونکہ چند ہفتوں قبل جب حکام نے افغانستان سے آنے والی تقریباً تین ٹن ہیروئن ضبط کی تھی تو اڈانی پورٹس نے کہا تھا کہ پورٹ آپریٹرز کو کنٹینرز کی جانچ کی اجازت نہیں ہے اور بندرگاہ پر ٹرمینلز سے گزرنے والے کنٹینرز کےلاکھوں ٹن مال کی نگرانی پر اس کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ اس طرح اڈانی نے تو اپنا پلہّ جھاڑ لیا پھر اس پابندی کی ضرورت آخر کیوں پیش آئی؟
گوتم اڈانی ملک میں کارگو کی نقل و حرکت کے صرف ایک چوتھائی کا مالک ہے۔ اس کے پاس گجرات، مہاراشٹرا، گوا، کیرالہ، آندھراپردیش، تامل ناڈو اور اڑیسہ کی 13 بندرگاہوں کا کنٹرول ہے اس لیے کہ بقیہ 75 فیصد بندگاہوں کا انتظام و انصرام اڈانی کے علاوہ دوسرے لوگ کرتے ہیں۔ اس لیے مذکورہ پابندی سے کیا فرق پڑےگا ؟ وہ مال ایسے ٹرمینلز سے آئے گا جہاں اڈانی کا عمل دخل نہیں ہے؟ اور اس طرح کی منشیات دیگر کئی ممالک سے بھی آتی ہے ان پر کوئی روک ٹوک نہیں ہوگی ؟ گویا یہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے والا ایسا احمقانہ اقدام ہے جس کی کوئی افادیت نہیں ہے۔ اس اتنے بڑے معاملے میں اب تک صرف دو افراد کو گرفتار کیا گیاہے اور ان پر ہونے والی کارروائی صیغۂ راز میں ہے کیونکہ عوام کو الجھانے کے لیے آرین خان نامی بکرا تو موجود ہی ہے۔

افغانستان غیر قانونی افیون سپلائی کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے لیکن یہ اعزاز اسے مغرب کے پٹھو حکمرانوں نے دلایا۔ طالبان نے اپنے پچھلے دورِ اقتدار میں افیون کی پیداوار پر پابندی لگا دی تھی لیکن ان کی حکومت گرانے کے بعد مغرب کے سفید پوش حکمرانوں نے دوبارہ اس کی اجازت دی اور کاروبار خوب پھلا پھولا ۔ دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے بعد طالبان نے پھر سے منشیات کی تجارت روکنے کا منصوبہ تیار کرلیا ہے اس سے گھبرا کر ان کی آمد سے قبل یہ مال نکال دیا گیا اور اس کاروبار میں ملوث بدمعاش بھی طالبان سے خوف کا بہانہ بناکر ملک سے فرار ہونے لگے ۔ طالبان نے بھی ’خس کم جہاں پاک ‘پر عمل کرتے ہوئے انہیں بھاگنے کی کھلی چھوٹ دے دی اس لیے کہ وہ جانتے ہیں یہی غدار وطن ملک کی عوام کے اصلی دشمن ہیں ۔ ان منشیات فروش اور بدعنوان لوگوں کے فرار کی خاطر امریکہ اپنے جہاز فراہم کیے اور ساری دنیا کا میڈیا ان کے غم میں آنسو بہا تارہا ۔

حکومت ہند کی مرکزی ایجنسی ڈی آر آئی کے حکام نے اس معاملے میں آشی ٹریڈنگ کے دو افرادسدھاکر مچاورم اور گووندراج ویشالی کووجے واڑہ سے گرفتار کیا کیونکہ ان کے درآمد برآمد کا لائسنس استعمال کیا گیا تھا لیکن انہوں نے صرف چار لاکھ روپئے خرچ کیے ۔ ن لوگوں کے پیچھے اصل مجرم کوئی اور ہی ہے لیکن حکام اس پر لب کشائی کی جرأت نہیں کرتے اس لیے نوکری کسے پیاری نہیں ہوتی؟ وزیراعظم کی اتنے بڑے معاملے میں پراسرار خاموشی کچھ وقت کے موضوع بحث تو بنی مگر پھر معاملہ رفع دفع ہوگیا۔ سیاستدانوں، سول سوسائٹی اور صحافیوں نے اڈانی گروپ کی آڑ مودی حکومت کو نشانہ بنایا مگر گودی میڈیا نے اس کی جانب توجہ نہیں دی۔

حزب اختلاف کی بڑی جماعت کانگریس نے مرکزی حکومت سے سوال کیا ہے کہ ملک میں اتنے بڑے پیمانے پر منشیات کے دھندے میں ملوث عناصر حکومت اور نارکوٹکس کنٹرول بیورو کی ناک کے نیچے کیسے کام کر رہے ہیں؟ پارٹی کے ترجمان پوون کھیرا نے پریس کانفرنس سوال کیا کہ وزیراعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ جن کا تعلق گجرات سے ہے، وہ منشیات کے اس نیٹ ورک کو توڑنے میں کیوں ناکام ہوئے؟ انہوں نے منشیات کی اسمگلنگ میں بے پناہ اضافہ کے سبب نوجوانوں کو تباہی سے اور عالمی سطح پر دہشت گردی کیلئے فنڈنگ کی جانب توجہ دلائی مگر نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے ۔ بنگلورو میں کانگریس کی ترجمان سپریا سریناتھ کے مطابق کو 9جون 2021کوبھی اسی کمپنی نے 25ٹن ہیروئن کی در آمد کرکے ہندوستان میں تقسیم کیا ۔ موجودہ حکومت 14؍کروڈ نوجوانوں کو روزگار دینے کے لیے آئی تھی مگر اب منشیات دے رہی ہے۔

تلگو دیشم پارٹی کے رہنما دلائی پالا نریندرا کمار نے اسے باعث شرم قرار دیا کیونکہ مودی جی قیادت میں یہ ملک منشیات کا مرکز بن رہا ہے۔ نریندرا کمار کے مطابق بین الاقوامی ڈرگ اور یورینیم مافیا حکومت اور اعلی پولیس افسران کی مدد کے بغیر کام نہیں کر سکتا ۔کانگریس اور تلگو دیشم تو دور ہیروئن کی اتنے بڑے پیمانے پر برآمدگی پر بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن پارلیمان سبرا منیم سوامی نے بھی عوامی مفاد میں رٹ دائر کرنے کی پیشکش کر ڈالی کیونکہ گاندھی نگر سینٹرل فورینزک سائنس لیبارٹری کے ماہرین کے مطابق یہ منشیات انتہائی اعلی قسم کی ہے اور اسی سے اس کی قیمت طے ہوتی۔ اس سنگین مسئلہ کی پردہ پوشی کے لیے کوئی اس قدر بڑا ہنگامہ کھڑا کرنا ضروری تھا تو لوگ اسے بھول جائیں ۔ اس لیے نارکوٹکس کنٹرول بیورو نے شاہ رخ خان کے بیٹے آرین خان سمیت تین لوگوں کو گرفتار کر کے ذرائع ابلاغ کو مصروف کردیا گیا۔

یہ حسن اتفاق ہے کہ آشیش اور آرین کی اگلی سماعت ایک ہی دن یعنی 20؍ ستمبر کو ہوگی ۔ ایسے میں اگر آرین کو ضمانت مل جائے تو لوگ بھول جائیں گے کہ اس کی آڑ میں کس قدر سفاک مجرم کو چھوڑ دیا گیا۔ ویسے یہ ایک حقیقت ہے کہ آرین کی گرفتاری نے اڈانی کو پوری طرح بھلا دیا ہے۔ اس کہانی میں تین بنیادی کردار توآرین، آشیش اور اڈانی ہیں مگر اتفاق چوتھے اور پانچویں کردار یعنی اجئے مشرا اور امیت شاہ کا نام بھی الف سے ہی شروع ہوتا ہے۔ تاش کی گڈی میں تو پانچ اکےّ نہیں ہوتے لیکن موجودہ سیاسی بحران میں ان اکوّں کے ساتھ ساتھ جوکر بھی پریشان ہے۔ ان سب کا کیا حشر ہوتا ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ ایسے میں ان سب پر منور رانا کا یہ شعر معمولی ترمیم کے ساتھ صادق آتا ہے ؎
زندگی تاش کے پتوں کی طرح ہے ان کی
اور پتوں کو بہرحال بکھر جانا ہے
(۰۰۰۰۰۰۰۰۰جاری)
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1453421 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.