یا نبی سلام علیک

یا نبی سلام علیک
یا رسؤل سلام علیک

السلام جان عالم
السلام ایمان عالم
شاہ دیں سلطان عالم
تم سے ہے سامان عالم

اے روحِ محمد ، اے عشق مجسم ، اے شاہ عرب و عجم
اے شہنشاہِ بطحا
اے شانِ وضحی

گر پوری کائنات کے درختوں کو اقلام بنا لوں اور سارے سمندروں کا پانی تیری شان لکھنے لگا دوں اور پوری بنی نوع انسانیت مل کر بھی تجھے درودوں کے ازہار بھیجے تب بھی آپ کی منقبت و فضیلت کو بیان نہیں کیا جا سکتا۔

احسن منک لم تر قط عینی
واجمل منک لم تلد النساء
خلقت مبرا من کل عیب
کانک قد خلقت کما تشاء

گویا روحِ محمد کو ربّ محمد نے اس کی چاہت کے مطابق بنایا۔ اور ایسا بنایا کہ دنیا ورطہ حیرت میں ان کی سیرت و صورت کا کوئی دوسرا ثانی نا پیدہ کر سکی نا گمان کرسکی۔
سو سبھی الفاظ ہاتھ باندھ کر ان کی جوامع الکلم احادیث کے سآمنے غلاموں کی طرح کھڑے ہیں۔ اور جوق در جوق ان کی بارگاہِ رسالت پر قربان ہونے کو تیار ہیں۔
تشنگئ دل کڑوڑوں بار درود شریف پڑھ کر بھی ختم نہیں ہوتی

تیرے عشق کی انتہاء چاہتا ہوں
میری سادگی دیکھ میں کیا چاہتا ہوں

ابن سعد رض کی روایت ہے کہ رسول عللہ صلی االلہ علیہ وآلہ وسلم کی والدہ نے فرمایا حب آپ کی وضاعت ہوئی آپ بالکل صاف ستھرے تھے کوئی گندگی خون یا بدبو قریب سے بھی نا گزری تھی۔
اور میرے جسم سے ایک نور نکلا جس سے شام کے محل و قصر مجھ پر روشن ہو گئے۔
دائی نے جب انہیں بستر پر لٹایا تو دائیں طرف کروٹ لے کر رب ذولجلال والاکرام کو سجدہ کیا۔

قرآن میں رب تعالی نے فرمایا

ھو الذی ارسل رسولہ بالھدی و دین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ ولو کرہ الکافرین۔

اللہ وہ ذات ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ وہ تمام ادیان پر غالب آئے خوا مشرکوں کو ناگوار گذرے

گویا نورِ الہی سے ایک ایسا چشمہ پھوٹا جس کے سرمدی انوار نے دنیا و آخرت کے سب اسرار روشن کر دیئے اور بلغ ما انزلنا کا مشن پورا کیا۔
مجوسیوں کے آتش کدے ٹھنڈے ہو گئے ، ایوان کسریٰ کے چودہ کنگورے گر گئے ، بحیرہ سادہ خشک ہو گیا اور اس کے گرجے آمدِ مصطفی سے منہدم ہو گئے۔
فضائیں درود کے زمزموں سے معمور ہوگئی، ہوائیں احترام سے خعموش گزرنے لگیں، لوگوں کی سانسیں خوشبوئے اسم محمد سے معطر ہوگئیں ، آنکھيں روشنی سے بھر گئیں ، سینوں میں ٹھنڈک اتر گئی ،آخر کار مضطرب روحوں کو سکون و طمانیت محسوس ہوئی۔
فرشتے قلب و نظر سے کف پائے محمد سے روشنیاں کشید کرنے لگے۔ زمین نے نقوش پاک کے بوسے لیے ، محبت نے سلامی دی، عشق نے رقصِ بسمل کیا ، آسمان نے جھک جھک کر مرحبا یا محمد مرحبا یا احمد کا ترانہ پڑھا ۔
گویا زمین پر چاند اتر آیا وہ چاند جس کی انتہا سدرة المنتہی سے بھی اونچی اور مقام مقام محمود ہے۔

غریبوں کا والی، درویشوں کا سردار، عورتوں کا ستار ، بیٹیوں کو جینے کا حق دینے والا آ گیا ، وہ جس نے حبشی غلام کو یا سیدی کا اعزاز بخشا ، جس نے انسانیت کو جلا بخشی ، جس نے کفو الحاد کے سب بت پاش پاش کردیئے، جس نے توہم پرستی کے سب کالے بادل جھاڑ دیئے اور جہالت کو مات دی۔

اور آج ہم ان کی ولادت پر جھنڈے لآئٹیں لگا کر عشق تماشہ بنا کر سآل بھر کے لیے خاموش ہو جائیں؟؟اور دل میں وہی بغض و عناد کے اندھیرے چھائے رکھیں؟؟

حالانکہ ان کے اسوہ حسنہ سے دلوں کے بند تآلے کھولنا عشقِ مصطفیٰ ہے، ان کے نور سے کاسہ دل کو بہرنا عشق مصطفی ہے۔ ان کے اعجاز سے سینے میں ایمان کے دیئے روسن کرنآ عشق مصطفیٰ ہے، اپنے ہر قول وفعل اور معاملے کو ان کے تابع کرنا اصل جشنِ آمدِ مصطفیٰ فی ہے۔

اور عشق تو اسے کہتے ہیں جس کی کوئی انتہاء نا ہو ،یہ وہ جذبہ ہے جو بحرِ بے کراں ہے ۔ آسمانوں سے اونچا ، سمندروں سے گہرا، پہآڑوں سے مضبوط، جنتوں سے زیادہ حسین،اور دنیق و مافیھآ سے بلند اور ہر رشتے سے زیادہ افضل ہے۔۔
کیونکہ عشقِ نبی خود رب العالمین کی سنت ہے۔ جبھی مولا نے رسالت کے پروانوں کے کیے فرمایا
النبی اولی بالمومنین من انفسھم
نبی مومنین کو اپنی جانوں سے زیادہ عزیز ہیں ۔۔۔۔


دیدہ و دل فرش راہ یا نبی
آپ ﷺﷺ

آ جائیں دل کی سرزمین پر بس آپ کا راج ہے

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیالوح و قلم تیرے ہیں

موضوع دیدہ و دل فرش راہ یا نبی
 

Hafsa Saqi
About the Author: Hafsa Saqi Read More Articles by Hafsa Saqi: 49 Articles with 43487 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.