رب کائنات نے خاتم النبین و رسل حضرت محمدﷺ کے توسط سے
نوع انسانی کو ایسا غیر مبتدل اور تا قیامت محفوظ قرآن کریم نازل فرمایا،جس
میں انسانی آزادی، حقوق اور نظام معیشت کا وہ انقلابی منشور ہے، جس کی نظیر
دنیا کاکوئی نظام نہیں دے سکتا۔ دور جدید میں انسانی فکر کو غلام اور محکوم
بنانے کی کوششیں جاری ہیں لیکن ان کے سامنے رسول اکرم ﷺ کاا سوہ حسنہ چیلنج
ہے جس نے محکمومی کے استبداد سے تنگ آنے والوں کے لئے، اپنی سیرت اور سنت ﷺ
سے انسانی محکومیت سے نجات کے خواہش مندوں کو روشن تدابیر سے روشناس کرایا۔
پیارے نبی خاتم النبین ﷺ نے شخصی حکومت کی لعنت سے چھٹکار ا حاصل کرنے والے
یک ایسے طبقے کو حقیقی نظام دیا،جو آمرانہ نظام سے تنگ ہاتھ پاؤں مار رہے
تھے۔ نبی اکرم حضرت مصطفی ﷺ نے تھیا کریسی (مذہبی پیشوائیت) کی پھیلائی
ہوئی گمرائیوں کے پر فریب جال کو سب سے پہلے توڑا۔
انسانوں کو انسان کی محکومی سے نجات دلانے کے لئے آقائے دو جہاں ﷺ نے ایسے
نظام کو بھی مسترد کیا جس میں ایک شخص (آمر) کی محکومی کے بجائے انسانوں کے
ایک گروہ (اکثریت) کی محکومی کی جاتی ہے، یہ وہ نظام ہے جس میں انسانوں کو
تولا نہیں بلکہ گنا کرتے ہیں۔ دنیا میں رائج تمام انسانی نظام میں ایسے
گروہ، دوسرے انسانوں سے اپنی اطاعت ”ذاتی حکم“ کی رو سے کرانے پر یقین
رکھتا ہے اور اپنے وضع کردہ قوانین کا فیصلہ ذاتی بنیادوں و مفادات کے لئے
اپنے اس گروہ سے کراتا ہے جو عوام پرپنی خواہشات کے لئے قانون کا نام دے کر
مسلط کردیتے ہیں۔ رحمت اللعالمین ﷺ نے اپنی سیرت و سنت سے ثابت کیا کہ کوئی
انسان، دوسرے انسانوں کو محکومی کی زنجیروں میں جکڑنے کے لئے رستگاری حاصل
نہیں کرسکتا، اس لعنت سے خلاصی حاصل کرنے کا واحد قرآن کریم میں رب کائنات
نے بیان فرما دیا۔ انسانوں پر قانون سازی اپنے مفادات کے لئے کرنے کا حق
کسی گروہ (جماعت یا تنظیم)کو حاصل نہیں، یہ حق صرف اللہ تعالی (قرآن کریم)
کو حاصل ہے، ایسی کو اللہ تعالی کا ’حق حکومت کہا گیا ہے۔ سورۃ یوسف کی آیت
نمبر 40 میں رب کائنات نے فرمایا کہ”حکومت، اللہ کے سوا کسی کی نہیں، اس نے
حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت اختیار نہ کرو، یہی سیدھا راستہہے،
لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے“۔ سیرت نبی ﷺ کو ا پنائے و سمجھے بغیر ہم حق
حکومت کو اللہ تعالی کے دیے گئے احکامات کے مطابق ادا نہیں کرسکتے۔ اللہ
تعالی کی اطاعت اور محکومیت اختیار کرنے کے لئے رب ذوالجلال نے کائنات کے
آخری نبی حضرت محمد ﷺ کو نبی نوع انسان کے لئے عطا کردہ ضابطہ قوانین (کتاب
اللہ) کی رو سے کرنے کے احکامات جاری فرمائے۔
قرآن کریم ایک ایسے اجتماعی نظام کا حکم دیتا ہے جس میں ہر انسان کا عمل
انفرادی طور پر از خود آجاتا ہے۔ دین اسلام کی عملی شکل کو حضرت فاروق رضی
اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں دیکھا جاسکتا ہے کہ شاہکار رسالت ﷺ نے کس
طرح ایک ایسا سیاسی نظام متعارف کرایا، جو آج بھی دنیا کے لئے مثال ہے اور
دنیا کے دانشور، مذہبی اسکالر اور فلاحی حکومت بنانے والے خلافت راشدہ کا
مطالعہ کرتے ہیں، اسلام ایک زندہ نظام (یعنی دین) کی حیثیت صرف اپنی ایک
ایسی آزاد مملکت ہے، جس میں غیر مسلموں اور مسلمانوں کو تمام حقوق مل جاتے
ہیں۔ اس وقت پوری دنیا میں کہیں بھی اسلامی حکومت قائم نہیں، رحمت انسانیت
ﷺ نے ایک ایسی حکومت کی بنیاد رکھی تھی جس میں حاکمیت صرف اللہ تعالی (قرآن
کریم) کی ہو، لیکن بد قسمتی سے اسلام کے نام لیواؤں نے آج رسمی طور پر ایسا
نظام مسلم اکثریتی ممالک میں قائم کررکھا ہے، جو حقیقی اسلامی روح سے کوسوں
دور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم امہ قرآن و سنت ﷺ کو چھوڑنے پر غیر وں کی غلامی
اختیار کرچکی اور اپنی مملکت کی عوام کو جبر اور شخصی طاقت کے بل پر دباتے
رہتے ہیں۔
پاکستان کا قیام جب عمل میں لایا جارہا تھا تو تحریک پاکستان کی مخالفت
کرنے والی جماعت خوب زور و شور سے کہہ رہی تھی کہ آزاد ہندوستان میں بے شک
حکومت اکثریت (یعنی ہندوؤں) کی ہوگی، لیکن وہ ہمیں ’مذہبی آزادی کی ضمانت
دیتے ہیں تو پھر مسلمانوں کے لئے الگ مملکت کا مطالبہ کیا معنی رکھتا ہے،
اس کے جواب میں علامہ اقبال ؓ نے کیا خوب جواب دیا جو آج بھی تمام مسلم
اکثریتی ممالک پر صادق آتا ہے کہ
ہے زندہ فقط وحدتِ افکار سے ملّت
وحدت ہو فنا جس سے وہ الہام بھی الحاد
وحدت کی حفاظت نہیں بے قُوّتِ بازو
آتی نہیں کچھ کام یہاں عقلِ خدا داد
اے مردِ خدا! تجھ کو وہ قُوّت نہیں حاصل
جا بیٹھ کسی غار میں اللہ کو کر یاد
مسکینی و محکومی و نومیدیِ جاوید
جس کا یہ تصّوف ہو وہ اسلام کر ایجاد
مُلّا کو جو ہے ہِند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد!
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں واضح فرمایا کہ جس نے رسول ﷺ کی اطاعت کی اس
نے درحقیقت اللہ کی اطاعت کی اور چونکہ اطاعت خداوندی، یعنی اللہ تعالیٰ کی
کتاب ہے اس لئے آخری رسول ﷺ سے کہاگیا کہ تم ان میں کتاب اللہ کے مطابق
فیصلے کرو۔ حضرت محمد ﷺ کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد ہمارے سامنے قرآن،
اسوہ حسنہ ﷺ اور عملی شکل میں خلافت راشدہ موجود ہے، اس لئے مسلم اکثریتی
ممالک کے حکمرانوں اور مسلم امہ کو عشق محمد ﷺ کے حقیقی عاشق ہونے کے لئے
اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات پر چلنا ہوگا۔ کیونکہ ہی غیر متبدل ضابطہ
حیات اور عشق محمدﷺ کا حقیقی تقاضا ہے۔
|