"زمستاں کی بارش " معروف مزاح نگار شاعر اور کالم نگار
جناب خالد مسعود صاحب کی کتاب کا نام ہے جس کی نتقریب پزیرائی جمعہ کو ہوئی
جس میں مجھے بھی پیارے دوست نور الہدی نے دعوت دی جسے میں بخوشی قبول کر
لیا کیونکہ ایسے زندہ دل انسان کی کتاب کی تقریب ہو تو کون انکار کرے گا
خیر تین بجے کا وقت مقرر تھا یہ تقریب جوہر ٹاؤن کی ایک کوٹھی میں رکھی گئی
تھی میں تین بجے وہاں پہنچ گیا لیکن حسب روایت ابھی تک وہاں کوئی مہمان
نہیں آیا تھا میری عادت ہے کہ میں وقت پر پہنچتا ہوں ہونا بھی ایسا ہی
چاہیئے لیکن پاکستان میں وقت کی قدر نہیں ہے اس لئے لوگ آدھا گھنٹہ یا ایک
گھنٹے بعد ہی پہنچتے ہیں کچھ مہمان خصوصی بھی لیٹ تھے مہمان خاص میں ہارون
رشید صاحب ،سہیل وڑائچ صاحب ،اور خالد مسعود صاحب موجود تھے اب صحن میں لگی
کرسیاں آہستہ آہستہ بھر رہی تھیں اس تقریب میں مخصوص لوگوں کو ہی مدعو کیا
گیا تھا تقریب کا باقاعدہ آغاز قران پاک کی تلاوت سے شروع کیا گیا عامر
جعفری صاحب نے نظامت کے فرائض انجام دیے انہوں نے ایک ایک کر کے تمام
مہمانوں کو بلایا تا کہ وہ خالد مسعود صاحب کی زندگی اور کتاب پر بات کر
سکیں مختصر تقریب کے بعد تمام مہمانوں کی چائے اور دوسرے لوازمات سے تواضح
کی گئی اور یوں سب نے اپنے اپنے گھر کی راہ لی میں نے بھی یہ کتاب خریدی
اور اس پر خالد مسعود صاحب سے دستخط کروائے اس بہانے ان سے بات کا موقع بھی
مل گیا اس کتاب کو جہلم بک کارنر نے شائع کیا ہے اس کے بانی گگن شاہدبھی
موجود تھے ان سے بھی ملاقات کی سہیل ورائچ صاحب سے بھی سلام دعا ہوئی مجھے
کہیں اور پہنچنا تھا اس لئے اجازت لی شکریہ ادا کیا اور وہاں سے چل دیا۔
زمستاں کی بارش کا مطلب ہے" سردیوں کی بارش " سب جانتے ہیں کہ خالد مسعود
صاحب مزاحیہ شاعری کرتے ہیں لیکن بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ وہ ایک اچھے کالم
نگار بھی ہیں آپ کے کالم معروف قومی اخبارات کی زینت بنتے رہتے ہیں ان
کالموں میں بھی ہمیں ان کی مزاح کی حس نظر آتی ہے چہرے سے وہ ایک خاموش اور
رعب دار شخصیت لگتے ہیں لیکن جب ان سے بات کی جائے تو آپ ہنسے بنا نہیں رہ
سکتے اس گہما گہمی اور مہنگائی کے دور میں ہر شخص افسردہ ہے اور ایسے میں
ایسا کلام پیش کرنا یا ایسی تحریر لکھنا یا ایسی کتاب کو منظر عام پر لانا
بہت بڑی بات ہے خالد مسعود صاحب کا تعلق ملتان کے ایک علمی و ادبی گھرانے
سے ہے آپ کے والد عبدالمجید خان ایمرسن کالن ملتان میں لائبریرین تھے انہوں
نے علامہ اقبال پر کئی کتابیں تصنیف کیں جس پر انہیں صدارتی تغمہ حسن
کارکردگی سے نوازا گیا ان کے دادا محمد ابراہیم بھی پنجابی زبان کے شاعر
تھے اور درجن بھر کتابوں کے مصنف بھی تھے اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ خالد
مسعود صاحب کو ادب ورثے میں ملا خالد مسعود صاحب نے پرائمری تعلیم میونسپل
پرائمری سکول چوک شہیداں سے حاصل کی ایمرسن کالج ملتان سے گریجوایشن کی اس
کے بعد بہاول الدین زکریا یونیوسٹی ملتان سے گولڈ میڈل کے ساتھ ایم بی اے
کیا تیرہ سال ایک پرائیویٹ فرم میں کام کیا 1997 ء سے آپ نے کالم نویسی کا
آغاز کیا لیکن مزاحیہ شاعری کا آغاز وہ اس سے کئی برس پہلے کر چکے تھے اور
ادبی حلقوں کے علاوہ دنیا بھر میں اپنی پہچان بنا چکے تھے ۔
اس کتاب پر معروف تجزیہ نگار ہارون الرشید صاحب ،شاہد صدیقی صاحب ،سہیل
وڑائچ صاحب اور رؤف کلاسرا صاحب کے تبصرے موجود ہیں ہارون الرشید صاحب کے
مطابق خالد مسعود کے موضوعات متنوع ہیں اور منفرد بھی ،خود اپنی شخصیت کی
طرح۔مزاح نگاری میں اس کے کردار ملتان کے مقامی ہیں اور ایک سے بڑھ کر ایک
طرح دار ،کھلکھلاتا ہوا مزاح۔شاہد صدیقی صاحب اپنے تبصرے میں لکھتے ہیں کہ
خالد مسعود کی شاعری میں نثر کی سلاست اور نثر میں شاعری کی نغمگی ہے اس کی
خوش رنگ اور من موہنی شخصیت اس کی تحریروں میں یہاں وہاں جھلملاتی نظر آتی
ہے مزید لکھتے ہیں کہ زمستاں کی بارش میں پڑھنے والوں کی دنیا اندر تک بھیگ
جاتی ہے یہی خالد مسعود کے قلم کا اعجاز ہے۔رؤف کلاسرا صاحب ااس کتاب کے
تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ خالد مسعود کو پسند کریں یا نا پسند لیکن آپ
اسے نظر انداز نہیں کر سکتے ملکی سیاست سے ہٹ کر ہزاروں سال قدیم ملتان اور
اس سے جڑی دم توڑتی روایات پر جتنے شاندار کالمز خالد مسعود نے لکھے ہیں وہ
اور کوئی نہیں لکھ پائے گا۔سہیل وڑائچ صاحب اس کتاب کے تبصرے میں لکھتے ہیں
کہ خالد مسعود ایک فرد نہیں انجمن کا نام ہے ان کی انجمن میں شامل ہو جائیں
آپ کو زندگی کا لطف آنا شروع ہو جاتا ہے عام سی باتوں کو وہ اس طرح سے
سناتے اور دھراتے ہیں کہ ہنسی اور مسکراہٹ نامہ دو بہنیں آپ کے چہرے پر
مستقل قیام کر لیتی ہیں ان کا کہنا ہے کہ خالد مسعود پنجابی کے بڑھیا
شاعر،اعلی ترین داستان گو ،سماج کے لطیف ترین نقاد ،خود چھوٹا بن کر بڑی
باتیں لکھنے والا کالم نگار اور سب سے بڑھ کر ہر محفل کے چراغ ہیں۔
اس کتاب میں رشتوں کا بیان ملتا ہے اس کتاب میں یاد ماضی کی باتیں کی گئی
ہیں اس کتاب میں دل میں بسنے والوں کی داستان بیان کی گئی ہے اس کتاب میں
سب کا اپنا اپنا ملتان کے موضوع سے ملتان شہر کی تصویر کشی خوبصورت الفاظ
کے ذریعے کی گئی ہے اس کتاب میں کتاب اور کہانی کے عنوان سے کتاب کلچر،کتاب
کہانی ،ادبی میلوں اور کتاب بینیکے فروغ کی بات کی گئی ہے گو میں نے اس
کتاب کا مطالعہ شروع کر دیا ہے انتہائی دلچسپ اور اچھوتے موضوعات پر مبنی
کتاب ہے جو قاری کو بور نہیں ہونے دیتی یہی کتاب کی کامیابی کا راز ہے اس
کتاب کا سرورق انتہائی خوبصورت ہے اور آرٹ پیپر پر اس کی چھپائی اسے اور
خوبصورت بنا دیتی ہے اسے ضرور اپنی لائبریری کا حصہ بنائیں۔
|