اٹھارویں صدی کے وسط تک اسلام ایک شاندار درخت کی مانند تھا جس کی شاخیں
مضبوط تھیں اور اس کی ڈالیاں ہری بھری اور شاداب تھیں اور یہ درخت اپنی
پوری آب و تاب کے ساتھ تروتازہ اور پھل دار تھا۔ اٹھارویں صدی کے وسط میں
یورپ میں رونما ہونے والے صنعتی انقلاب کے نتیجے میں عالمی منظرنامہ تبدیل
ہونا شروع ہو گیا جس کے بعد عالمی رہنما کی حیثیت رکھنے والی اسلامی ریاست
اپنا مقام کھو بیٹھی اور اس کا زوال نمایاں ہو گیا۔مغربی ایجادات نے
مسلمانوں کو اتنا مرعوب کیا کہ وہ اپنے اسلامی نظریات پر ہی نظرِ ثانی کرنے
لگے۔ کچھ لوگ تو اتنے آگے بڑھ گئے کہ انھیں اسلامی افکار اور قوانین میں
خامیاں نظر آنے لگیں جس کے نتیجے میں اسلام کے نفاذ میں کمزوری آنا شروع ہو
گئی۔ اسلام کے نفاذ میں کمزوری اور اسلام کے فہم کے دھندلے ہو جانے کی وجہ
سے اسلامی ریاست کی شان و شوکت پہلی جیسی نہ رہی اور اس نے اپنی اصل طاقت
کھو دی۔ اسلامی نظریات کے فہم کی اسی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جنگِ
عظیم اول میں مسلمانوں کی شکست کے پیشِ نظر برطانیہ نے مصطفیٰ کمال کے مدد
سے اسلامی ریاست کا خاتمہ کر دیا۔
مسلمانوں اور اسلام کے افکار کی حفاظت کرنے والی ریاست خلافت عثمانیہ کے
انہدام کے بعد مغرب نے مسلمانوں کے علاقوں کے حصے بخرے کیے اور آپس میں
بانٹ لیے۔ یوں بالآخر مغربی تہذیب مسلم علاقوں پر راج کرنے لگی اور یہ
علاقے یورپ ، روس اور امریکہ جیسی عالمی طاقتوں کی رسہ کشی کا اکھاڑا بن
گئے۔ مغربی تہذیب کی علمبردار ریاستوں نے اسلامی تہذیب کے باقی ماندہ افکار
کو مسلمانوں کے اذہان سے کھرچنے اور اس کی جگہ مغربی تہذیب کے افکار
ٹھونسنے کیلئے ان کی تعلیم، میڈیا، ثقافت اور ہر نظام کو مغربی طرز پر
استوار کردیا۔ اگر کسی علاقے میں مسلمانوں نے اس مغربی ایجنڈے کا انکار کیا
تو انیں مغرب کی فوجی اور اقتصادی طاقت کے بل بوتے پر مغربی سیکولر نظام کے
آگے جھکنے پر مجبور کیا گیا۔
آج اکیسویں صدی میں مسلم دنیا مغربی نظام کی تباہ کاریوں اور افسوسناک
نتائج سے تنگ آ چکی ہے لیکن اس کے پاس اسلام کی تہذیب کی طرف واپسی کیلئے
درکار افکار کا فقدان ہے جو مغربی نظام کو اسلام کے نظام سے تبدیل کر دینے
کی راہ میں حائل ایک رکاوٹ ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمانوں کے اذہان
میں اسلام کے ان سچے تصورات کو دوبارہ اجاگر کیا جائے جو مغربی تہذیب کے
مقابلے میں اسلامی تہذیب کی شروعات کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ان تصورات کے
ذریعے ہی مسلمان اس قابل ہو سکیں گے کہ وہ اس اسلامی ریاست کو پہچان سکیں
جس کا قیام اسلامی طرزِ زندگی کے ازسرِ نو آغاز کیلئے لازم ہے۔جہاں دنیا
بھر کی بیشتر اسلامی تحریکات مسلم ممالک میں اسلا م کے نظام کی واپسی کیلئے
کوشاں ہیں وہاں ان تصورات کو سمجھنے اور واضح کرنے کی اہمیت اور بھی بڑھ
جاتی ہے، تاکہ مغرب کہیں تبدیلی کی ان مخلصانہ کوششوں کے باوجود مسلمانوں
کی فکری کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انھیں دھوکہ دے کر ایک حقیقی اسلامی
ریاست کے قیام سے دور نہ کر دے۔
کسی بھی ریاست کو ایک اسلامی ریاست کہلانے کے لئے جن بنیادی صفات کا حامل
ہونا لازمی ہے ان میں سے سب سے پہلی صفت اس ریاست کی بنیاد کا دین اسلام پر
مبنی ہونا ہے۔رسو ل اللہ ﷺ نے جب مدینہ میں ریاست قائم کی اور حکومت سنبھا
لی تو پہلے دن سے ہی دین اسلام کو اس ریا ست اور اقتدار کی بنیاد بنا یا ۔
پھر رسول اللہ ﷺ نے حکمرانی میں اسلام کے احکامات کی خلاف ورزی پر عوام کو
حکمران کا کڑا احتساب کرنے کا حکم دیا اور اسے امر بالمعروف و نہی عن
المنکر کے فریضہ میں شامل کیا۔ اسی طرح دین اسلام کا اسلامی حکومت کی بنیاد
ہونے کا مطلب یہ بھی ہے کہ تمام قانون سازی صرف اور صرف اللہ سبحانہ وتعالی
کے احکامات تک محدود ہو گی اور اس معاملے میں اسلام کے علاوہ کسی اور
آئیڈیالوجی کی طرف رجوع نہیں کیا جائے گا۔لہٰذا ایک اسلامی حکومت میں تمام
ریاستی معاملات بشمول عدلیہ، اقتصادیات، معاشرت، حکومت، داخلہ و خارجہ
پالیسی، تعلیم، صنعت، صحت، فوج، بیت المال وغیرہ صرف اور صرف اسلامی
احکامات کے مطابق منظم ہوتے ہیں۔
پھر کوئی بھی ملک صرف اس وقت ایک مکمل اسلامی ریاست قرار پاتا ہے جب وہاں
کی امان ( یعنی علاقے کی اندرونی و بیرونی خطرات سے حفاظت)مسلمانوں کے ہاتھ
میں ہو اوروہاں اسلام ہی کے احکامات نا فذ ہو ں ۔ اگر اِن میں سے کوئی ایک
شرط بھی موجود نہ ہو تو وہ علاقہ اسلامی ریاست نہیں ہو گا ۔رسول اللہ ﷺ نے
پہلی اسلامی ریاست کے قیام کیلئے جو بیعت لی، اس میں یہ دونوں شرائط موجود
تھیں۔انصار نے مدینہ میں اسلام کی حکمرانی کو اور رسول اللہﷺ کو حاکم کے
طور پر قبول کیا تھا اور کسی بیرونی طاقت پر انحصار کیے بغیر اس ریاست کی
امان کا خود ذمہ لیا تھا۔
اسلامی ریاست کی تیسری بنیادی صفت اس میں حکمرانی کا اجتماعی نہیں بلکہ
انفرادی ہونا ہے۔ لہٰذا ایک اسلامی حکومت میں حکمرانی انسانوں کی اجتماعی
دانائی کی بنیاد پر نہیں بلکہ اللہ سبحانہ وتعالی کی لامحدود دانائی پر
مبنی وحی کی بنیاد پر منظم ہوتی ہے جسے نافذ کرنے کا اختیار صرف ریاست کے
سربراہ یعنی خلیفہ کو ہوتا ہے۔ ایک اسلامی حکومت میں قانونی آراء کو ان کی
فکر کی مضبوطی کی بنیاد پر ترجیح دی جاتی ہے جبکہ اجتماعی حکمرانی پر مبنی
حکومت میں قانونی آراء کو عوامی قبولیت اور خواہشات کی بنیاد پر ترجیح دی
جاتی ہے ۔اسلام اجتماعی حکمرانی کی نفی کرتا ہےاور اس بات کی اجازت نہیں
دیتا کہ ایک ریاست کے ایک سے زیادہ حکمران ہوں۔ خلیفہ ہی وہ شخص ہوتا ہے
جسے ریاست کے مسلمان شہری بیعت کے ذریعے اسلام کو نافذ کرنے اور پھیلانے کی
اتھارٹی سونپتے ہیں اور خلیفہ یہ فرائض اپنے معاونین، والیوں اور عاملین پر
مبنی ریاستی ڈھانچے کے ذریعے سرانجام دیتا ہے ۔
اسلامی حکومت کی چوتھی صفت یہ ہے کہ اس میں حکمران کے انتخاب یا تقرری کا
حق امت کے پاس ہوتا ہے جو اسلام کے نظام کے نفاذ اور اسلامی دعوت کو پوری
دنیا تک لے کر جانے پر حکمران کا انتخاب کر کے اسے خلیفہ کے منصب پر فائز
کرتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ اس وقت مدینہ کے حکمران بنے جب محرم کے مہینے میں
عقبہ کی گھاٹی میں بیعت ِ عقبہ ثانیہ کا واقعہ پیش آیا،جس میں اوس اور خزرج
کے قبائل سے آئے ہوئے مسلمانوں نے اپنی رضامندی سے رسول اللہ ﷺ کو اطاعت
اور حفاظت پر حکمرانی کی بیعت دی۔ لہٰذا وہ حکومت اسلامی نہیں ہو سکتی جہاں
حکمران کے انتخاب کا حق امت سے چھین کر کسی مخصوص طبقے یا گروہ کو دے دیا
جائے ۔
جمہوریت کی طرح اسلام نے بھی اختلافِ رائے کو رفع کرنے اور قانون بنانے
کیلئے مختلف آراء میں ایک رائے کو اختیار کرنے کا طریقہ کار رضع کیا ہے جو
جمہوری طریقہ کار سے یکسر مختلف ہے۔ایک اسلامی حکومت میں ریاست کے سربراہ
یعنی خلیفہ کو یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ متعدد اسلامی آراء میں سے
مضبوط ترین رائے کو قانون کی حیثیت سے اختیار کر سکتا ہے۔شرعی احکامات کے
معاملے میں مضبوط ترین رائے کا انتخاب شرعی دلیل کی مضبوطی کی بنیاد پر کیا
جاتا ہے ۔ مثال کے طور پر، ابوبکر ؓ نے اپنے اجتہاد کے مطابق ایک نشست میں
تین طلاقوں کو ایک طلا ق قرار دیا اور مال غنیمت کو مسلمانوں کے درمیان برا
بر تقسیم کرنے کو اختیار کیا اور اس معاملے میں نئے اور پرانے مسلمانوں کے
درمیان فرق نہیں کیا۔ لیکن جب عمرؓ خلیفہ بنے تو انہوں نے اپنے اجتہاد کے
مطابق ان مسا ئل میں ابو بکرؓ کی رائے سے مختلف رائے کو اختیار کیا اور تین
طلاقوں کو تین ہی قرار دیا اور مال کی تقسیم میں اسلام میں سبقت اور ضرورت
مندی کو مقدم رکھا اوربرا بری کی بنیا دپر تقسیم نہیں کی۔
کسی ریاست کو اسلامی ریاست بننے کیلئےچھٹی بنیادی صفت یہ ہے کہ اس ریاست کا
مکمل آئین ،تمام قوانین اوردیگر پالیسیاں صرف اور صرف وحی پر مبنی نصوص سے
اخذ شدہ ہوں۔اللہ سبحانہ وتعالی کی طرف سے نازل کردہ وحی ہی وہ راہنمائی
اور ہدایت ہے جس پر عمل کرنا تمام دنیا کے انسانوں کیلئے روزِ قیامت نجات
کا ذریعہ ہے۔ وحی سے مراد قرآن اور سنتِ رسول اللہ ﷺ ہے۔ لہٰذا حکمرانی اور
نظام کیلئے قوانین کی بنیاد صرف قرآن و سنت ہیں، اور وہ ماخذ جو قرآن و سنت
ہی پر مبنی ہوں ۔اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا: ﴿وَمَن لَّمۡ يَحۡڪُم
بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ فَأُوْلَـٰٓٮِٕكَ هُمُ ٱلظَّـٰلِمُونَ﴾"اورجو اللہ
کے نازل کردہ (احکامات) کے مطابق حکومت نہیں کرتے، وہی لوگ ظالم
ہیں"(المائدۃ:45)۔ اور فرمایا: ﴿وَأَنِ ٱحۡكُم بَيۡنَہُم بِمَآ أَنزَلَ
ٱللَّهُ وَلَا تَتَّبِعۡ أَهۡوَآءَهُمۡ﴾"اورانکےدرمیان اللہ کے نازل کردہ
(احکامات) کے مطابق حکومت کریں اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ
کریں"(المائدہ:49)۔
اسی طرح کسی ریاست کو اسلامی ریاست بننے کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ دیگر
ممالک کے ساتھ صرف اسلام کی بنیاد پر تعلقات استوار کرے اور دینِ اسلام کو
پوری دنیا پر غالب کرنے کیلئے دعوت کی علمبردار بنے۔ مدینہ میں مسلمانوں کی
فوجی طاقت کا قریش سے کمزور ہونا مسلمانوں کو معلوم تھا لیکن اس کے باوجود
رسول اللہ ﷺ نے قریشِ مکہ سے تعلقات اسلام ہی کی بنیاد پر رکھے ، ان پر
غلبہ حاصل کرنے کی پالیسی کو جاری رکھا اور بالآخر مکہ میں فتح حاصل
کی۔رسول اللہ ﷺ نے اپنے دور کی جتنی بھی عالمی طاقتوں کے بادشاہوں کو خطوط
بھیجے، وہ سب باہمی مفادات کی بنیاد پر تعلقات استوار کرنے کیلئے نہیں بلکہ
صرف اسلام کو قبول کرنے اور اسلام کی حاکمیت تسلیم کرنے کی طرف دعوت دینے
پر مبنی تھے۔ اسامہ ؓ کے لشکر کی تیاری جسے آپ ﷺ نے اپنے وصال سے پہلے سخت
بیماری کی حالت میں بھی روانہ کرنے پر اصرار کیا، وہ سلطنتِ روم کو اسلام
کی اتھارٹی کے نیچے لانے کیلئے تھا۔اس کے علاوہ تمام خلفاء راشدین کے دورِ
خلافت میں اسلامی ریاست مسلسل پھیلتی رہی اورمسلمان دیگر دنیا میں موجود
نظاموں کو چیلنج کرتے ہوئے اسلامی دعوت کو ان علاقوں تک وسعت دیتے رہے۔
لہٰذا اسلام کسی ایسی ریاست کا تصور پیش نہیں کرتا جو اندرونی طور پر تو
اسلام کے احکامات کے نفاذ کا دعویٰ کرے لیکن دنیا کی عالمی طاقتوں کے سامنے
اپنے مقام اور حیثیت کو تسلیم کروانے کیلئے عالمی ورلڈ آرڈر کو تسلیم کر
لے۔اسلام میں ایسی کسی ریاست کا تصور موجود نہیں جو مغربی عالمی قوانین کی
پاسداری کرے، اقوامِ متحدہ یا سلامتی کونسل یا آئی ایم ایف یا عالمی عدالتِ
انصاف جیسے استعماری اداروں کو تسلیم کرے یا ان میں شمولیت اختیار کرے،
قومی ریاستوں کے تصور کی بنیاد پر ریاست کی مستقل سرحدوں کو تسلیم کرے اور
اپنی سرحدوں کے پار مقبوضہ مسلم علاقوں کو کفار کے تسلط سے آزاد کروانے کو
اپنا اولین مسئلہ نہ سمجھے، ایسی کسی ریاست کے وجود کیلئے اسلام میں کوئی
شرعی دلیل موجود نہیں۔
یقیناً موجود دور میں ،جب مغرب مسلم دنیا پر اپنی زبردست ثقافتی اورفکری
یلغار کے ذریعے مسلم اذہان سے اسلامی تصورات کو کھرچنا چاہتا ہے، وہاں
مسلمانوں کیلئے یہ لازم ہے کہ وہ اسلامی تہذیب کی بنیاد رکھنے والے ان
افکار کا مکمل فہم حاصل کریں تاکہ اسلام دشمن عالمی طاقتیں اور مسلم دنیا
میں موجود ان کے ایجنٹ حکمران امت کو اسلامی حکومت کے نام پر کوئی دھوکہ نہ
دے سکیں۔یقیناً یہ ان اسلامی تصورات کا درست فہم ہی ہو گا جو تمام دنیا کے
مسلمانوں کومغرب کے تسلط سے آزاد ہونے کا اور اور اسلام کے عادلانہ نظام
کو پوری دنیا تک لے کر جانے کا نکتۂ آغاز بنے گا۔
|