بنگلہ دیش : کیا سے کیا ہوگیا ؟

بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ کا فرقہ وارانہ حملوں میں ملوث لوگوں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کا عزم تو توقع کے عین مطابق ہے مگران کا حکومتِ ہند سے یہ کہنا کہ وہ بھی شرپسندوں کے ساتھ سختی سے پیش آئے خلافِ توقع ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ ہندوستان کے اندر ایسا کچھ نہیں ہوکہ جو بنگلہ دیش کو متاثر کرے جس سے ان ملک میں ہندوؤں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔ ہندوستان میں اگر ایسا کچھ ہوتا ہے تو ہمارے ہاں ( بنگلہ دیش میں ) ہندو متاثر ہوتے ہیں۔ہندوستان کو اس حوالے سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ اس طرح گویاشیخ حسینہ نے ہندوؤں کے تحفظ کو ہندوستان کی قیادت سے جوڑدیا۔ یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ بنگلہ دیش کی اعلیٰ قیادت نےہندوستان کے اندرونی معاملات پر کھل کر بات کی ہے۔عام طور پر ایسا واضح پیغام نہیں دیا جاتا بلکہ اندرونِ خانہ بات ہوتی ہے۔ 2019 میں انتخابات سے قبل جب امت شاہ نے بنگلہ دیش کے غیر قانونی پناہ گزینوں کی بابت سخت زبان استعمال کی تھی تو اس کے خلاف بنگلہ دیش میں کافی مظاہرے ہوئے تھے لیکن حکومت نے کھل کر کوئی بات نہیں کی تھی اس لیے موجودہ پیش رفت کو ہوا کے رخ میں تبدیلی کا اشارہ سمجھا جارہا ہے۔

شیخ حسینہ نے اپنے حالیہ بیان میں مذہب کو انفرادی معاملہ بتاکر کہا کہ تہوار سب کے لیے ہیں۔ہم سب مل کر تہوار مناتے ہیں۔ لیکن کچھ جنونی لوگ ہمیشہ فرقہ وارانہ تنازعات پیدا کرتے ہیں۔ ایسے لوگ نہ صرف مسلم معاشرے میں بلکہ دوسرے مذاہب میں بھی ہیں۔ اس بیان میں بھی انہوں نے سارا الزام اپنے سر لے کرمعذرت خواہانہ انداز اختیار کرنے کے بجائے یہ کہا کہ یہ صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ تمام طبقات میں پایا جاتا ہے۔ شیخ حسینہ فی الحال ہندوستان میں مسلمان مخالف سیاست اور بنگلہ دیش پر اس کے اثرات سے پریشان ہیں کیونکہ عوامی لیگ خود کو ایک سیکولر جماعت بتاتی ہے اور ہندو اقلیت اس کا ووٹ بینک ہے۔ مودی سرکا ر کے متنازع قانون سی اے اے کے سبب پچھلے سال کم از کم دو بنگلہ دیشی وزرا کے دورے منسوخ ہوچکے ہیں ۔ اس میں شک نہیں کہ بنگلہ دیش میں بھی فرقہ پرستی موجود ہے مگر اس سرکاری سرپرستی حاصل نہیں ہے جبکہ کے ہندوستان میں برعکس صورتحال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے پروفیسر سنجے بھردواج شیخ حسینہ کے بیان سے اتفاق کرتے ہیں۔ ان کے مطابق ہندوستان کی سیاست کا بنگلہ دیش پر براہ راست اثر پڑتا ہے اور فرقہ پرستی پر مبنی ہندوستانی سیاست سے بنگلہ دیش میں اقلیتوں پر اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

پروفیسر سنجےبھردواج اعتراف کرتے ہیں کہ بنگلہ دیش میں آئین کے مطابق ریاست کا مذہب اسلام ہے اس کے باوجود شیخ حسینہ نے اقلیتوں کے حقوق کے لیے کام کیا ہےجبکہ ہندوستان میں اکثریت پسندی کی سیاست نے یہاں کی اقلیتوں خاص طورپر مسلمانوں کی زندگیاں متاثر کی ہیں۔سنجے بھردواج حکومت ہند کو شیخ حسینہ کے پیغام میں مثبت پہلو تلاش کرنے کی صلاح دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر وہ بنگلہ دیش میں اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ چاہتی ہے تو اسے اپنے ملک میں اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنانا ہو گا۔ شیخ حسینہ نے اپنے حالیہ بیان میں ہندوستان کو جنگ آزادی میں مدد کرنے کے لیے شکر یہ بھی ادا کیا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ 1971 میں ہم نے جنگ آزادی کندھے سے کندھا ملا کر لڑی اور شیخ مجیب الرحمن نے بنگلہ دیش کو ایک سیکولر ملک بنایا تا کہ بنگلہ دیش میں تمام مذاہب کے لوگ اپنے مذہب کی آزادی سے پیروی کریں۔ان کا مقصد بنگلہ دیش کو دہشت گردی سے پاک امن پسند ملک بنانا تھا۔ ہم اسی راستے پر چلیں گے اور چاہتے ہیں کہ ہمارا ملک بھوک اور غربت سے پاک ہو ۔یہی شیخ مجیب الرحمان کا خواب تھا۔

نظریات ی سطح پر دیکھا جائے تو آزادی سے قبل متحدہ ہندوستان میں دو متضاد نظریات تھے ۔ گاندھی اور آزاد ایک قومی نظریہ کے حامی تھے نیزجناح و ساورکر دوقومی نظریہ کی حمایت کرتے تھے ۔ ملک کی تقسیم دو قومی نظریہ کی کامیابی تھی لیکن پاکستان کی تقسیم کو اس کی ناکامی قراردیا گیا۔ یہ کہا گیا مذہب کی بنیاد پر مشرقی و مغربی پاکستان یکجا نہیں رہ سکےمگر سیکولرہندوستان اور سیکولر بنگلہ دیش ایک دوسرے کے ہمنوا بن گئے۔ اتفاق سے اندرا گاندھی نے آئین ہند میں سیکولرزم کا لفظ ڈالا اور بنگلہ دیش کے قیام میں اہم ترین کردار کیا نیز شیخ مجیب الرحمٰن نے بھی اپنے ملک کو سیکولر بنادیا ۔ آگے چل کر جنرل ضیاء الرحمٰن نے بنگلہ دیش کے دستور سے اسے نکالا اور جنرل ارشاد نے اسےاسلامی مملکت بنادیا۔ آگے چل کر جب شیخ حسینہ اقتدار میں آئیں تو پھر سے ہندوستان کے ساتھ گاڑھی چھننے لگی لیکن پھر آیا سی اے اے کا قانون جس میں کہا گیا بنگلہ دیشی ہندو کا تو ہندوستان میں خیر مقدم ہے مگر مسلمان کا نہیں۔ اس طرح حکومت ہند نے اپنے سیاسی فائدے کی خاطر سیکولرزم کا وہ پل ہی منہدم کردیا جو ہندوستان اور بنگلہ دیش کو جوڑتا تھا۔

اس قانون نے بنگلہ دیش کے حکمرانوں اور عوام کو احساس دلایا کہ وہ مسلمان ہونے کے سبب ہندوستانیوں سے مختلف ہیں اور یہی دین ان کے اور پاکستان کے درمیان مشترک بنیاد بھی ہے۔ ہندوستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تلخی کی بنیادی وجہ شہریت کے قانون میں ترمیم ہے۔ اس کےذریعہ اندراجی کی سفارتی کامیابی پر مودی جی نے پانی پھیر دیا۔ جنوری19 20میں بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے حیرت سے کہا تھاکہ انھیں سمجھ نہیں آرہا ہے کہ ہندوستانی حکومت نے شہریت ترمیمی قانون کیوں منظور کیا؟ گلف نیوز کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں انھوں نے سوال کیا کہ ’’ ہندوستانی حکومت نے ایسا کیوں کیا؟ یہ ضروری نہیں تھا۔‘‘ شیخ حسینہ شاید اس کے انتخابی فائدے کا ادراک نہیں کرسکیں ۔ ویسے شیخ حسینہ نے یہ بھی مانا کہ "یہ ان (ہندوستان) کا داخلی معاملہ ہے لیکن اس کے باوجود رشتوں میں جو دراڑ پڑنی تھی سو پڑ ہی گئی۔

مودی سرکار نے پہلی غلطی قومی انتخاب میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے مگر دوسری چوک مغربی بنگال کا الیکشن جیتنے کی خاطر کی گئی۔ اسی مہم کے دوران ایک معروف بنگالی اخبار کے ساتھ انٹرویو میں امیت شاہ نے کہہ دیا کہ بنگلہ دیش کے غریب لوگ بھارت اس لیے آتے ہیں کیونکہ،’’انہیں اپنے ملک میں اب بھی پیٹ بھر کھانا نہیں ملتا ہے۔ اگر بی جے پی مغربی بنگال میں اقتدار میں آتی ہے تو بنگلہ دیش سے ہونے والی دراندازی رک جائے گی۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ ،’’جب ترقی پذیر ملک میں ترقیاتی کام ہوتے ہیں تو سب سے پہلے غریبوں کو نہیں امیروں کو فائدہ ہوتا ہے۔ بنگلہ دیش ابھی اسی دور سے گزر رہا ہےاس لیے غربیوں کو تو کھانا تک نہیں مل پاتا ہے اسی لیے بھارت میں در اندازی کرتے ہیں۔‘‘ وزیر داخلہ کی اس بدزبانی نے بنگلہ دیشی وزير خارجہ کو چراغ پا کردیا۔ انہوں نے کھری کھری سناتے ہوئے کہا کہ بہت سارے سماجی سیکٹر میں بنگلہ دیش امیت شاہ کے ملک سے بہتر ہے۔

بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ اے کے عبد المومن نے ہندوستان کو آئینہ دکھاتے ہوئے انکشاف کیا کہ بنگلہ دیش میں تقریبا نوئے فیصد لوگ اچھی قسم کے بیت الخلاء کا استعمال کرتے ہیں جبکہ بھارت کی پچاس فیصد سے بھی زیادہ آبادی آج بھی ٹوائلٹ کی سہولیات سے محروم ہے۔ یہ تو مودی جی کےسوچھّ بھارت ابھیان کا حال ہے جس کی اشتہار بازی کے لیے زیادہ اور سہولیات فراہم کرنے پر کم خرچ ہوتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ گزشتہ برس بھوک سے متعلق 107 ممالک کی ’ہنگر انڈیکس‘ میں بھارت کا 94 واں مقام پاکستان اور بنگلہ دیش بھی نیچےتھا۔ اس فہرست میں بنگلہ دیش کا 75نمبر پر تھا۔ اس سال ہندوستان ورلڈ ہنگر انڈیکس میں پچھڑ کر 101ویں مقام پر آ گیا ہے۔ بنگلہ دیش کے وزير خارجہ اے کے عبد المومن کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش سے متعلق امیت شاہ کا علم بہت محدود ہے شاید اسی لیے انہوں نے ایسی بات کہی ہوں گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بنگلہ دیش میں بھوک سے کوئی نہیں مرتا ہے۔ یہاں قحط سالی جیسی کوئی غربت نہیں ہے۔

بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ نے یہ چونکانے والا انکشاف کیا کہ بنگلہ دیش میں اعلی تعلیم یافتہ افراد کے لیے روزگار کی کمی ضرور ہے تاہم متوسط درجے کے تعلیم یافتہ افراد کے ساتھ ایسا نہیں ہے۔ امیت شاہ کے منہ پر طمانچہ مارتے ہوئے بنگلہ دیشی وزیر خارجہ نے بتایا کہ ایک لاکھ سے بھی زیادہ ہندوستانی شہری بنگلہ دیش میں کام کرتے ہیں۔ ہمیں بھارت جانے کی کیا ضرورت نہیں ہے۔ یہ ایک علامتی جملہ ہے۔ اس دوران خود عبدالمومن نے پاکستان کے ساتھ مراسم بڑھانے شروع کردیئے اور عمران خان نے شیخ حسینہ واجد کو پاکستان کے دورے کی دعوت بھی دے دی ۔ بنگلہ دیش نے بھی ہندوستان سے بیزار ہوکر چین کو اپنا دوست بنالیا اور اس نےبڑے پیمانے سرمایہ کاری شروع کردی ۔ اس طرح مودی اور شاہ نے اپنے ہلکے سیاسی مفاد کی خاطر ایک دیرینہ پڑوسی کو گنوادیا لیکن اس کے باوجود کوئی سبق نہیں سیکھاکیونکہ حالیہ تشدد کے بعد امیت مالویہ نے اپنی ٹویٹ میں لکھا بنگلہ دیش میں ہندوؤں کی مذہبی آزادی خطرے میں ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سی اے اے ایک انسان دوست قانون ہے۔ ایسے عقل اندھوں سے آخر کیا امید کی جائے؟
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1223021 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.