معجزہ کی تعریف:
معجزہ عربی زبان کا لفظ ہے۔ اس کی جمع معجزات ہے۔ اس لفظ کا معنی عجیب
وغریب شی کے ہیں۔قاموس میں اس لفظ کی وضاحت یوں کی گئی ہے: "وہ ما فوق
العادت چیز جسے اللہ تعالی کی جانب سے کسی نبی کی نبوت کے ثبوت کے لیے نبی
سے ظاہر کرائی جائے اور غیر نبی اس پر قادر نہ ہو۔" (القاموس الوحید)
حضرت مولانا محمد ادریس صاحب کاندھلویؒ(1899- 1974) رقم طراز ہیں: "معجزہ
اس امر خارق للعادۃ کو کہتے ہیں جو مدّعی نبوت کے ہاتھ پر ظاہر ہو اور کل
عالم اس کے معارضہ اور مقابلہ یعنی اس کے مثل لانے سے عاجزاور درماندہ ہو
تاکہ منکرین اور مخالفین پر یہ بات واضح ہوجائے کہ یہ شخص برگزیدۂ خدا ہے
کہ جس کے دشمن کے عاجز کرنے کےلیے خدا نے غیب سے یہ کرشمۂ قدرت ظاہر فرمایا
ہے اور لوگوں پر یہ امر منکشف ہوجائے کہ تائید غیبی اس کی پشت پر ہے۔ یہ
شخص کوئی ساحر اور کاہن نہیں کہ کوئی اس کا معارضہ اور مقابلہ کرسکے؛ لہذا
اگر کسی کو صلاح اور فلاح درکار ہے؛ تو وہ صرف اس برگزیدہ ہستی پر ایمان
لانے اور اس کی اتباع اور پیروی سے حاصل ہوسکتی ہے جس برگزیدہ ذات کو حق
تعالی نے اپنا خلیفہ، نائب اور سفیر اور معتمد بنا کر بھیجا ہواس کی تکذیب
اور مخالفت کا انجام سوائے شقاوت اور ہلاکت کے کیا ہوسکتا ہے۔ (سیرت مصطفی
صلی اللہ علیہ وسلم، 3/ 403-404)
معجزہ کے اقسام:
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیامت تک کے لیے پورے عالم کے لیے نبی
ورسول بناکر بھیجے گئے؛ لہذا حق تعالی نے آپؐ کو دنیا کے جملہ اقسام سے
معجزات ودلائل اور براہین عطا فرمائے؛ تاکہ دنیا کی ہر چیز آپؐ کی نبوت
ورسالت کی دلیل بن سکے۔ آپؐ کے وہ معجزات وبراہین "دو قسم کے ہیں: ایک عقلی
اور دوسرے حسی۔ عقلی وہ ہیں جن کے سمجھنے میں عقل درکار ہوتی ہے اور اس قسم
کے معجزات کو وہی لوگ سمجھتے ہیں جو دانشمند اور فہیم ہوتے ہیں۔ اور معجزات
حسیہ وہ خارج امور ہیں کہ جن کا ادراک حواس سے ہوتا ہے ایسے معجزات کے طلب
گار اکثر وہی لوگ ہوتے ہیں کہ جن کو عقلی اصول سمجھنے کا سلیقہ نہیں ہوتا
یا ضدی اور عنادی ہوتے ہیں۔" (سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم، 3/ 393)
ان تمہیدی باتوں کے بعد، رسول اکرمؐ کے کچھ معجزات ودلائل اور براہین پیش
کیے جارہے ہیں۔ آپؐ کا عظیم ترین معجزہ قرآن کریم ہے۔ عرب جن کو اپنی زبان
دانی اور فصاحت وبلاغت پر بڑا ناز تھا، ان کو قرآن کریم میں چیلنج کیا گیا۔
اگر وہ اللہ تعالی کی طرف سے قرآن کریم کے نزول کے حوالے سے شک وشبہ میں
ہیں اور وہ یہ کہتے ہیں کہ (نعوذ باللہ) یہ محمدؐ کا کلام ہے؛ تو اس کی کسی
ایک سورت کے مثل کوئی سورت پیش کردیں۔ ترجمہ: "اور اگر تم اس (قرآن) کے
بارے میں ذرا بھی شک میں ہو جو ہم نے اپنے بندے (محمدصلی اللہ علیہ وسلم)
پر اتارا ہے؛ تو اس جیسی کوئی ایک سورت ہی بنا لاؤ اور اگر سچے ہو تو اللہ
کے سوا اپنے تمام مدد گاروں کو بلالو۔" (البقرہ: 23) مگر وہ عرب کے فصیح
وبلیغ کفار ومشرکین اس کے مقابل کوئی کلام پیش کرنے سے عاجز رہے اور تا
قیامت قاصر رہیں گے۔ ان میں سے بہت سے لوگوں کو کو یہ تسلیم کرنا پڑا کہ
محمدعربیؐ اللہ کے سچے رسول ہیں اور وہ جو کچھ بھی وحی کی صورت میں پیش
کرتے ہیں، وہ "کلامِ الہی" ہے جو ان کے پاس اللہ کی طرف سے آتا ہے۔
قرآن کریم کے علاوہ بھی بہت سے حسی معجزے اور دلائل وبراہین ہیں جن کا صدور
اللہ پاک نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کرایا، مثلا: پانی کا آپ کی
انگلیوں سے پھوٹ پڑنا۔ مختصر سے کھانا کا لشکر کی ایک بڑی جماعت کے لیے
کافی ہوجانا۔ چاند کا دو ٹکڑے ہوجانا۔ کنکریوں کا آپؐ کے دست مبارک میں
تسبیح پڑھنا۔ پتھر کا اور درختوں کا آپؐ کو سلام کرنا۔ بھونے ہوئے گوشت کا
آپؐ کو اطلاع دینا کہ وہ زہر آلود ہے۔ اب ذیل میں چند حسی معجزات پیش کیے
جارہے ہیں۔
ایک چاندنی رات میں مکہ کے کافروں نے رسول اکرمؐ سے کوئی معجزہ دکھانے کا
مطالبہ کیا۔ اس پر اللہ تعالی نے یہ کھلا معجزہ دکھایا کہ چاند دو
ٹکڑےہوگئے۔ ایک ٹکڑا پہاڑ کی مشرقی جانب چلا گیا اور دوسرا ٹکڑا مغربی جانب
چلا گیا۔ پھر آپؐ نے فرمایا یہ لو دیکھ لو۔ مگر انھوں نے تسلیم نہیں کیا
اور کہا کہ یہ کوئی جادو ہے۔(سورہ القمر: 1)
سفر معراج کے بعد، کفارِ مکہ نے رسول اکرمؐ کے اس سفر کی سچائی کو جانچنے
کے لیے بیت المقدس کی تعمیرات اور اس کے ارد گرد کے بارے میں سوالات شروع
کردیے۔ اللہ تعالی نے اس کے سارے مناظر آپؐ کی نظروں کے سامنے رکھ دیے۔ پھر
آپؐ نےان شک وشبہ کرنے والے کفار کو جواب دیا۔ (بخاری: 3886)
اسلام کے ابتدائی زمانہ میں، رسول اکرمؐ نے یہ دعا کی کہ اے اللہ ابو جہل
بن ہشام یا پھر عمر بن خطاب میں سے کسی کو توفیق دیں کہ وہ اسلام قبول کرلے
اور اس کے ذریعے اسلام کو تقویت پہنچیں!اللہ تعالی نے یہ دعا قبول فرمائی
اور آئندہ کل حضرت عمرؓ نے اسلام قبول فرمایا۔ (ترمذی: 3683)
ابو جہل ہمیشہ موقع کی تلاش میں رہتا تھا کہ وہ رسول اکرمؐ کو تکلیف دے۔
ایک بار اس نے آپؐ کو سجدہ کی حالت میں دیکھا۔ موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئےاس
نے آپؐ پر حملہ کے ارادے سے ایک بہت بڑا پتھر اٹھایا۔ اللہ پاک نے اس پتھر
کو اس کے ہاتھ میں اس طرح چپکا دیا کہ وہ اسے پھیک نہیں سکا اور اپنے ارادے
میں ناکام رہا۔ (سیرت ابن ہشام 1/ 298-299)
ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عتیبہ بن ابو لہب کے خلاف بد دعا
کی کہ اے اللہ آپ کسی وحشی جانور کے ذریعے اس کا کام تمام کردیں۔ اللہ نے
یہ دعا قبول فرمائی اور ملک شام کے مقام "زرقا" میں، ایک شیر نے اس پر حملہ
کرکے اسے ختم کردیا۔ (دلائل النبوۃ : 2/339)
دار الندوہ میں قریش کے لیڈروں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا
منصوبہ بنایا۔ قریش کے لونڈوں نے آپؐ کے گھر کا محاصرہ کیا اور آپؐ کے قتل
کا جو وقت متعین کیا گیا تھا، اس کا انتظار کر رہے تھے۔ آپؐ ایک مٹھی مٹی
لے کر، ان کے سامنے سے اپنے گھر سے نکلے۔ آپؐ اس مٹی کو ان کے سروں پر
پھینکتے ہوئے، سورہ یس کی آیت: (ترجمہ) "اور ہم نے ایک آڑ اُن کے آگے کھڑی
کردی ہے اور ایک آڑ اُن کے پیچھے کھڑی کردی ہے، اور اس طرح انھیں ہر طرف سے
ڈھانک لیا ہے جس کے نتیجے میں انھیں کچھ سجھائی نہیں دیتا۔" کی تلاوت کرتے
ہوئےنکل گئے۔ مٹی ہر ایک کے سر پر پڑی۔ اللہ تعالی نے ان کی قوت بینائی
لےلی۔ وہ آپؐ کو دیکھنے سے قاصر رہے۔آپؐ وہاں سے منزل مقصود کے لیے روانہ
ہوگئےاور ان بدترین لوگوں کا منصوبہ ناکام ہوگیا۔ (سیرت ابن ہشام1/483)
جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکرؓ سفر ہجرت پر روانہ ہوئے؛ تو
قریش نے اعلان عام کیا کہ جو شخص بھی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) یا ابو
بکرؓ کو گرفتار کرےگا، اسے سو اونٹ انعام دیے جائیں گے۔ سراقہ گھوڑے پر
سوار ہوکر، ان حضرات کی تلاش میں نکلا۔ کچھ دیر کے بعد، ان کی نظر آقا صلی
اللہ علیہ وسلم پر پڑی۔ یہ آگے بڑھتے رہے کہ اچانک ان کا گھوڑاپھسلا اور وہ
زمین پر گرگیا۔ اس نے گھوڑے کو اٹھایا اور سفر جاری رکھا۔وہ آپؐ کے بہت
قریب ہوگیا۔ آپؐ اس کی طرف توجہ نہیں دے رہے تھے۔ ابو بکرؓ اس کی طرف مڑ کر
دیکھ رہے تھے۔ پھر اس کے گھوڑے کے پاؤں گھٹنوں تک زمین میں دھنس گئےاور ایک
بار پھر وہ گھوڑے سے گرگیا۔ جب گھوڑا اٹھا؛ تو اس کے پاؤں کے نشان سے آسمان
کی طرف دھویں جیسا غبار اڑ رہا تھا۔ سراقہ کو یقین ہوگیا کہ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کا معاملہ غالب آکر رہے گا۔ پھر اس نے امان طلبی کے ساتھ ان
حضرات کو پکارا؛ تو وہ رک گئے۔ اس نے آپ ؐ سے درخواست کی کہ ان کو پروانۂ
امن لکھ دیں۔آپؐ کے حکم سے عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ نے ان کو چمڑے کے
ایک ٹکڑے پر امان لکھ کر دیا اور وہ واپس آگئے۔(بخاری: 3906)
ایک بار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن ممبر سے خطبہ دے رہے تھے۔
ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے قحط کی صورت حال کا ذکر کرکے دعا کی درخواست
کی۔ آپؐ نے دعاکی اور آئندہ جمعہ تک خوب بارش ہوئی۔ اگلے جمعہ کو کسی شخص
نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! (بارش کی زیادتی کی وجہ
سے) سارے راستے بند ہوگئے ہیں۔ پھر آپؐ نے دعا کی اور بارش رک گئی۔ (بخاری:
1029)
شروع میں مسجد نبوی میں، کھجور کے تنوں کےستون تھے۔ نبی اکرمؐ کھجور کے ایک
خشک تنے والے ستون سے ٹیک لگا کر خطبہ دیتےتھے۔ ایک انصاری صحابیہ (یا
صحابی) نے آپؐ کی اجازت سے منبر بنا کر، مسجد میں رکھا۔ آپؐ خطبہ دینے کے
لیےمنبر پر چڑھے؛ تو وہ تنا جس سے ٹیک لگاتے تھے، بچہ کی طرح بلکنے لگا۔
آپؐ منبر سے اترے اور اس کو سینے سے لگا لیا؛ تو اس نے رونا بند کیا۔
(بخاری: 3584)
جنگ بدر کے دن نبی اکرمؐ نے متعدد مشرکین مکہ کے بارے میں نشاندہی فرمادی
تھی کہ وہ قتل ہوکر فلاں فلاں جگہوں پر گریں گے۔ وہ سب کے سب انھیں جگہوں
پر مقتول پائے گئے، جن کی آپؐ نے نشاندہی کی تھی۔ (صحیح مسلم: 1779)
مکہ مکرمہ کے کافروں نے ایک بڑے لشکر کے ساتھ مدینہ منورہ پر حملہ کا
منصوبہ بنایا۔ مشورہ سے یہ طے پایا کہ ان سے حفاظت کے لیے مدینہ کے ارد گرد
خندق کھودی جائے۔ صحابہ کرامؓ خندق کھود رہے تھے۔ خندق میں ایک بڑا پتھر
ملا، جسے وہ توڑنے میں ناکام رہے۔ انھوں نے اس کی اطلاع نبی اکرمؐ کو دی۔
آپؐ نے اس پر کدال ماری اور وہ چٹان ریت بن گیا۔ (بخاری: 4101)
خندق کی کھودائی کے وقت، جابرؓ نے رسول اکرمؐ کی بھوک کی شدت کو محسوس کیا۔
جب انھوں نے آپؐ کو کھانے کےلیے بلایا؛ تو آپؐ نے خندق کھودنے والے ایک
ہزار صحابہؓ کو بلا لیا۔ کھانے میں مختصر جَو کے آٹا کی روٹیاں اور بکری کا
ایک بچہ ذبح کیا گیا تھا۔ایک ہزار صحابہؓ نے اس میں شکم سیر ہوکر کھایااور
کھانا بچ بھی گیا۔ پھر آپؐ نے فرمایا: تم کھاؤ اور ہدیہ دو؛ کیوں کہ لوگ
بھوک سے دوچار ہیں۔ (بخاری: 4101)
یہ صلح حدیبیہ کے وقت کا واقعہ۔ اس وقت وہاں 1400 صحابہ کرامؓ تھے۔ وہاں
ایک کنواں تھا۔ انھوں نے اس کا پانی کھینچ لیا اور اس میں ایک قطرہ پانی
بھی باقی نہ رہا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کنواں کے من پر آئے،پانی
منگوایا، کلی کی اور اسے کنواں میں ڈال دیا۔وہ تھوڑی دیر ٹھہرے۔ (اس کے بعد
وہ کنواں پانی سے بھر گیا۔) پھر صحابہؓ نے سیراب ہوکر پانی پیا اور اپنی
سواریوں کو بھی پانی پلا کر سیراب کیا۔ (بخاری: 3577)
ایک بار نماز کا وقت ہوگیا۔ جن حضرات کے گھر قریب تھے، انھوں نے اپنے گھر
پر وضو کیا؛ جب کہ دوسرے حضرات بغیر وضو کے تھے۔ پھر ایک برتن میں تھوڑا سا
پانی نبی اکرمؐ کے پاس لايا گیا۔ آپؐ نے اس میں اپنا دست مبارک رکھا۔ پھر
صحابۂ کرامؓ کو وضو کرنے کا حکم دیا گیا۔ آپؐ کی انگلیوں کے درمیان سے چشمہ
کی طرح پانی پھوٹ رہا تھا۔ جتنے لوگ باقی تھے، سب نے وضو کیا۔ ایک روایت کے
مطابق ان کی تعداد اسّی تھی۔ (بخاری: 3575 / 169)
فتحِ مکہ کے بعد، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خانہ کعبہ میں موجود
بتوں کی طرف صرف اشارہ کیا اور وہ سب منہ کے بل گرنے لگے۔ آپؐ اس وقت آیت
کریمہ: (ترجمہ) "حق آگیا اور باطل مٹ گیا کہ باطل تو مٹنے ہی والا تھا۔"کی
تلاوت فرمارہے تھے۔ (بخاری: 4287)
غزہ حنین میں، رسول اکرمؐ نے ایک مٹھی ریت لے کر، دشمن لشکر پر پھینکا۔ پھر
اللہ پاک نے دشمنوں کو شکست سے دوچار فرمایا۔ کچھ کفار یہ کہہ رہے تھے کہ
وہ ریت ان سب کی آنکھوں میں گئی۔ اللہ پاک نے اس واقعہ سے متعلق یہ آیت
نازل فرمائی: (ترجمہ) "پس (در حقیقت) ان کو تم لوگوں نے قتل نہیں کیا؛ بلکہ
انھیں اللہ ہی نے قتل کیا ہے اور جب آپ ان پر مشت خاک پھینک رہے تھے، تو آپ
نہیں پھینک رہے تھے؛ بلکہ اللہ پھینک رہے تھے۔" (الانفال: 17)
خیبر میں، ایک یہودی خاتون نے نبی اکرمؐ کی خدمت میں، بھیڑ کا بُھنا ہُوا
گوشت پیش کیا۔ آپؐ اور صحابۂ کرامؓ نے انھیں کھایا۔ پھر (فورا) آپؐ نے
فرمایا: (کھانا) سے اپنا ہاتھ اٹھالیں(رک جائیں)؛ کیوں کہ اس گوشت نے مجھے
بتایا ہے کہ یہ زہر آلود ہے۔ (سنن ابو داؤد: 4512)
ایک بار رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو بکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت
عثمانؓ کے ساتھ "اُحد پہاڑ" پر چڑھے۔ پہاڑ زور سے ہلنے لگا۔ آپؐ نے فرمایا:
"تھم جاؤ! تم پر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہیں۔ (بخاری: 3675)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسنؓ کے بارے میں فرمایا: "میرا یہ
بیٹا سردار ہے۔ ممکن ہے کہ اللہ تعالی اس کے ذریعے مسلمانوں کی دو جماعتوں
کے درمیان صلح کرادیں۔" یہ پیشن گوئی اس وقت ثابت ہوئی جب حسنؓ نے معاویہؓ
کے ساتھ صلح کرلی۔ (بخاری: 3629)
جنگ خیبر میں علی رضی اللہ عنہ آشوب چشم میں مبتلا تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم نے ان کی آنکھوں میں لعابِ دہن لگایا اور ان کےلیے دعا کی۔ پھر
وہ اچھے ہوگئے ایسا لگتا تھا کہ ان کی آنکھوں میں کوئی تکلیف تھی ہی نہیں۔
(بخاری: 4210)
حضرت قتادہ بن نعمانؓ کی آنکھ خانۂ چشم سے باہر نکل آئی۔ پھر نبی اکرمؐ نے
ان کی اس آنکھ کو واپس خانہ چشم میں ڈال دیا۔ وہ آنکھ دوسری آنکھ سے زیادہ
بہتر ہوگئی۔ (سیرۃ ابن اسحاق: 1/ 328)
حضرت جابرؓ کے والد عبد اللہ رضی اللہ عنہ جنگ اُحد میں شہید ہوگئے۔ ان کے
ذمے یہودیوں کا قرضہ تھا۔ ان کے پاس کھجور کے باغ کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔
اس باغ میں اتنے کھجور نہیں تھے کہ ان سب کا قرض ادا کیا جاتا۔ پھر جابرؓ
کی درخواست پر، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے باغیچہ میں تشریف لے
گئے۔ آپؐ کھجور کی ڈھیروں کے ارد گرد چکر لگایا اور فرمایا: قرض خواہوں کو
بلاکر قرضہ چکاؤ! قرضہ چکانے کے بعد، اتنا کھجور بچ گیا، جتنا ان قرض
خواہوں کو ادا کیا تھا۔ (بخاری: 3580)
ایک شخص نے اسلام قبول کیا۔ پھر وہ مرتد ہوگیا اور لوگوں سے کہتا پھرتا
تھا: "محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کچھ نہیں جانتے سوائے اس کے جو میں نے ان
کے لیے لکھا ہے۔" جب اس کی وفات ہوئی؛ تو اس کے ساتھیوں نے اس کو بار بار
دفن کیا، مگر زمین نے بار بار اس کے جسم کو باہر پھینک دیا۔ (بخاری: 3617)
ایک شخص نبی اکرمؐ کی موجودگی میں بائیں ہاتھ سے کھا رہا تھا۔ آپؐ نے
فرمایا: "اپنے داہنے ہاتھ سے کھاؤ!" اس نے جواب دیا کہ وہ ایسا نہیں
کرسکتا۔ آپؐ نے فرمایا: "تم کبھی بھی اس قابل نہ ہوسکوگے۔" اس شخص کی ضد نے
اس کو آپؐ کی ہدایت پر عمل کرنے سے روکا۔ پھر وہ شخص کبھی بھی داہنے ہاتھ
کو اپنے منہ تک نہیں اٹھا سکا۔ (مسلم: 2021)
ایک دیہاتی نبی اکرمؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: "میں کیسے جانوں
کہ آپ نبی ہیں؟" آپؐ نے عرض کیا: "اگر میں اس کھجور کے اس گچھے کو بلاؤں؛
تو تم گواہی دوگے کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟" پھر آپؐ نے اسے بلایا اور وہ
درخت سے نیچے اترا؛ تا آں کہ آپؐ کے پاس آگیا۔ پھر آپؐ نے فرمایا: "واپس
جاؤ!" چنانچہ وہ واپس ہوگیا۔ پھر اس دیہاتی نے اسلام قبول کرلیا۔ (سنن
ترمذی: 3628)
معجزات کی تعداد:
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان معجزات کے پیش کرنے کے بعد، بطور خاتمہ
یہ واضح کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کچھ علما کرام نے آپؐ کے معجزات
ودلائل کو شمار کرنے کی کوشش کی ہے۔ علامہ ابن حجر عسقلانیؒ (1372ء-1448ء)
فرماتے ہیں: "امام نوویؒ نے مقدمۂ شرح مسلم میں ذکر کیا ہے کہ نبیؐ کے
معجزات بارہ سو سے زیادہ ہیں۔ امام بیہقی المدخل میں فرماتے ہیں یہ ایک
ہزار ہیں۔ امام زاہدی فرماتے ہیں کہ آپؐ کے دست مبارک پر ایک ہزار معجزے
ظاہر ہوے۔ کچھ علما کا کہنا ہے کہ معجزات تقریبا تین ہزار ہیں۔" (فتح
الباری 6/582-583) حقیقت یہ ہے کہ نبی اکرمؐ معجزات بے شمار ہیں؛ کیوں کہ
آپؐ کا ایک ایک لفظ اور ایک ایک عمل معجزہ اور مافوق العادت ہے۔ ان پر غیر
نبی کبھی قادر نہیں ہوسکتا۔⦁⦁⦁⦁
|