خدا تعالیٰ کی ذات سے پیشتر کیا موجود تھا, ہمیشہ سے ہی
انسان کی جشتھاس فطرت کا مسئلہ رہا ہے- یہ سوال مقام و وقت کے بارے سوچ کا
تقاضا کرتا ہے جو درحقیقت دو غیر واضح خواص قدرت ہیں جن کے ساتھ بالخصوص
ہماری دنیا کا غیر معمولی خاکہ تشکیل دیا گیا ہے- مقام و وقت, ایک پوشیدہ
ذیلی ایٹمی کیفیت سے ابھرا, ایک عارضی سا تآثر ہے جس کا حقیقت سے کوئی خاص
تعلق نہیں - مقام و وقت کا یہ گمان جن و انسان کیلئے قابل فہم دنیا تعمیر
کیے ہوئے ہےجسمیں خدا کی قدرت کا مطالعہ آسان اور خدا کی ذات کو سمجھنے اور
قبول کرنے میں کوئی دشواری حائل نہیں-
خدا کی ابدی نوعیت کو سمجھنا ہمارے بس کی بات نہیں کیونکہ ہمارا ذہن صرف
ماضی, حال اور مستقبل کے وقت کی سیدھی لکیر پر مقام مخصوص سے منسلک احوال و
کیفیات کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے - 'کب و کہاں' کے تعلق بنا ہم کوئی
بات سمجھ نہیں سکتے- انسانی خیالات وقت اور مقام کی گرہ میں ایسے جکڑے ہوئے
ہیں کہ ان سے بالا ہماری ذہنی استعداد ماؤف ہے- تاہم ہر فن کامل ہونے کے
کوتاہ اندیش تاثر کے باعث ہمارا ذہن قیاس آرائیوں سے باز نہیں آتا- ہماری
زندگی کی سیماؤں میں شروع اور آخر تو ہے مگر حالت ابدی کی وضاحت ممکن نہیں-
قرآن میں ذکر ہے: "وہ سب سے پہلا اور سب سے پچھلا اور اپنی قدرت سے سب پر
ظاہر اور اپنی ذات سے پوشیدہ ہے اور وہ تمام چیزوں کو جانتا ہے" 57:8 - اسی
طرح بائبل میں متعدد بار لکھا گیا ہے: 'میں الفا اور اومیگا ہوں'... 'میں
اول اور آخر اور زندہ ہوں اور دیکھ ابدالآباد زندہ رہوں گا اور موت اور
عالم ارواح کی کُنجِیاں میرے پاس ہیں'- مکاشفہ 1:8,18- اگر آسمانی صحیفوں
نے ہمیں کیفیت ابدی سےآشنا نہ کیا ہوتا تو ہم تخلیقِ کائنات کی بڑی حقیقت
سے لاعلم ہی رہ جاتے-
ادوار زمانہ میں پہلے انسان غیرمادی صورت میں تھا, جبکہ اب روح اور بدن کا
اختلاط ہے اور پائندہ زندگی کے لئے بھی:"روحیں بدنوں سے ملا دی جائیں گی"
81:7 -"وہ کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار تو نے ہمکو دو دفع بےجان کیا اور
دو دفعہ جان بخشی…" 40:11- روح کے ساتھ میثاق وفا کے بعد اسکو سلا دیا گیا
تھا جسے یاد دلایا ہے:"اپنے پروردگار پر ایمان لاؤ اور اگر تم ماننے والے
ہو تو وہ تم سے اس کا عہد بھی لے چکا ہے" 57:8- وہ عہد یوں ہے: "اور جب
تمہارے پروردگار نے بنی آدم کی پیٹھوں سے انکی اولاد نکالی تو خود انسے
انکے مقابلے میں اقرار کرایا تھا کہ کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟ وہ
کہنے لگے کیوں نہیں, ہم گواہ ہیں کہ تو ہمارا پروردگار ہے…" 7:172-
انسان کے لئے پائندہ زندگی کا مطلب 'دیر تک' ہے اور آئندہ موت کی دشواری کا
سامنا نہ ہوگا- ہر مادی چیز کو فنا ہے اور جسد تو ہے ہی خاکی - نہ صرف جنت
و دوزخ میں'داخل' کیا جانا ایک مادی عمل ہے بلکہ وہاں کی زندگی کی چھوٹی
چھوٹی تفصیلات بھی مادی زندگی کی طرف ہی اشارہ کرتی ہیں -انسان کی پہلی
تخلیق روح کی صورت میں تھی, پھر دنیاوی زندگی کے لیے روح کو جسم کے ساتھ
ملایا گیا اور موت, روح اور جسم کی علیحدگی کا نام ہے- بروز قیامت جسم اور
روح کا ملاپ پھر سے ہوگا اور یہی جسم و روح جو اعمال کے ذمہ دار ہیں سزا یا
جزا کو بھگتنے کے لئے جنت یا دوزخ میں داخل کر دیے جائیں گے-
"تو جو بدبخت ہوں گے... دوزخ میں ان کا چلانا اور دھاڑنا ہو گا اور جبتک
آسمان اور زمین ہیں اسی میں رہیں گے مگر جتنا تمہارا پروردگار چاہے- بیشک
تمہارا پروردگار جو چاہتا ہے کر دیتا ہے- اور جو نیک ہوں گے وہ بہشت میں
داخل کئے جائیں گے اور جب تک آسمان اور زمین ہیں ہمیشہ اسی میں رہیں گے مگر
جتنا تمہارا پروردگار چاہے..." 10:108- چنانچہ آخرت میں ہمیشگی کا مطلب
دائم نہیں بلکہ مدت نا معلوم ہے: "اور آخرت کا عذاب بہت سخت اور بہت دیر
رہنے والا ہے" 20:127- حالت ابدیت صرف خالق حقیقی , قادر مطلق کی شان ہے جو
کبھی مٹنے والا نہیں, مگر انسان کے لیے 'وہ موت کو ہمیشہ کے لئے نابود کرے
گا' بائیبل- مکاشفہ 25:8 -
"اس کی ذات پاک کے سوا ہر چیز فنا ہونے والی ہے" 28:88- :"اے پیغمبر ہم نے
تم سے پہلے کسی آدمی کو بقاۓ دوام نہیں بخشا- اگر تم مر جاؤ تو کیا یہ لوگ
ہمیشہ رہیں گے"21:34- "اس خدائے زندہ پر بھروسہ رکھو جو کبھی نہیں مرے گا"
25:58 - انسان کی بقاء ابدی نہیں, ابد صرف خدا کی ذات ہے- انسان کے لیے
ہمیشہ کا مطلب موت کا موقوف ہونا ہے: "پہلی دفعہ کے مرنے کے سوا کے مر چکے
تھے موت کا مزا نہیں چکھیں گے"44:56 - جزا کے بعد جنتی کہیں گے: "کیا یہ
نہیں کہ ہم آئندہ کبھی مرنے کے نہیں- ہاں جو پہلی بار مرنا تھا تو مر چکے
ہیں..." 37:58
جزا و سزا کے بعد مزید حساب کتاب مطلوب ہے اور نہ موت - جنت و دوزخ میں بھی
ایک مختلف انداز میں مادی زندگی ہی جاری رہے گی مگر دائمی, کیونکہ موت
موقوف ہوگی - مثلا جب دوزخ میں"ہر طرف سے اسے موت آ رہی ہو گی تو وہ مرنے
میں نہیں آئے گا" 14:17- جہنم میں لوگ پکاریں گے: "اے مالک تمہارا پروردگار
ہمیں موت دے, وہ کہے گا تم ہمیشہ اسی حالت میں رہو گے" 43:77 - خدا کے مجرم
"کے لئے جہنم ہے جس میں نہ مرے گا نہ جیے گا" 20:74- اسیطرح جنت کے لوگوں
کے لئے پیغام ہے: "اے اہل جنت تم اسمیں ہمیشہ رہو گے" 43:71- ہمیشہ کی مکمل
تشریح خدائے واحد کے خفیہ ارادوں پر منحصر ہے جن کو کوئی نہیں جانتا-
(رفرنس قرآن سے ہیں)
|