موسمیاتی تبدیلی اور عالمی اتفاق رائے

اقوام متحدہ کے موسمیاتی تبدیلی فریم ورک کنونشن سے متعلق فریقوں کی 26ویں کانفرنس میں عالمی رہنماوں نے فطرت کے تحفظ کو انسانی بقا کے لیے لازم قرار دیا ہے۔شرکاء نے موسمیاتی تبدیلی،شفاف توانائی، پائیدار ترقی اور دیگر مسائل پر جامع خیالات کا اظہار کیا اور کئی اہم امور پر اتفاق رائے پایا گیا۔
اس وقت موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات تیزی سے رونما ہو رہے ہیں اور عالمی سطح پر فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ موسمیاتی تبدیلی سے کیسے نمٹا جائے اور عالمی معیشت کی بحالی کو کس طرح فروغ دیا جائے یہ آج درپیش اہم ترین موضوع ہے ۔

یہاں یہ بات قابل زکر ہے کہ فریقوں کی جانب سے گرین ترقی کی حمایت میں اہم بیانات سامنے آئے ہیں اور کہا گیا ہے کہ سائنسی اور تکنیکی اختراعات کو بروئے کار لاتے ہوئے توانائی کے وسائل، صنعتی ڈھانچے اور کھپت کے ڈھانچے کی تبدیلی اور اپ گریڈنگ کو فروغ دینا چاہیے، گرین معاشی اور سماجی ترقی کو فروغ دینا چاہیے۔ مادی ترقی اور فطرت کے تحفظ میں ہم آہنگی کے لیے نئے طریقوں کی جستجو کرنی چاہیے۔

اس ضمن میں چین جیسے بڑے ملک اور موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے اہم فریق کی جانب سے کہا گیا ہے کہ کثیر الجہتی اتفاق رائے کو برقرار رکھا جائے۔تمام ممالک کی جانب سے عملی اقدامات پر توجہ مرکوز کی جائے کیونکہ عمل کی بدولت ہی وژن حقیقت بن سکتا ہے۔ تمام فریقوں کو اپنے وعدوں پر عمل درآمد کرنا چاہیے، حقیقت پسندانہ اہداف اور وژن وضع کرنا چاہیے، اور قومی حالات کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کے اقدامات کے نفاز کو فروغ دینے کے لیے اپنی بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔چینی صدر شی جن پھنگ نے اس بات پر زور دیا کہ چین ماحولیاتی ترجیحات، سبز اور کم کاربن ترقی کے راستے پر گامزن ہے۔ چین توقع کرتا ہے کہ تمام فریق اپنے اقدامات میں تیزی لائیں گے ، موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کریں گے اور بنی نوع انسان کی مشترکہ کرہ ارض کے تحفظ کے لیے مل کر کام کریں گے۔

موجودہ صورتحال کا تقاضا ہے کہ عالمی برادری کو موسمیاتی تبدیلی اور توانائی کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے عملی اقدامات کے تحت جامع اور متوازن پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے، موسمیاتی تبدیلی سے متعلق اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن اور پیرس معاہدے کے مکمل اور مؤثر نفاز کی ضرورت آج کہیں زیادہ محسوس ہو رہی ہے ۔چین کی بات کریں تو اُس کے نقطہ نظر میں "عمل" کلیدی لفظ ہے کیونکہ عمل سے وژن حقیقیت بن سکتا ہے۔ صدر شی کی تجاویز کی روشنی میں "کثیرالطرفہ پسندی ایک بہترین حل ہے جو موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے عالمی ردعمل کے لیے رہنما اصول فراہم کرتا ہے۔اس ضمن میں ترقی یافتہ ممالک کو نہ صرف خود عملی اقدامات کرنے چاہیے بلکہ ترقی پذیر ممالک میں بھی صورتحال کی بہتری کے لیے مدد فراہم کرنا چاہیے۔ یہ اس بات کی کلید ہے کہ دنیا موسمیاتی تبدیلیوں کا موثر جواب دے سکتی ہے۔چین میں پہلے ہی "شفاف پانی اور سبز پہاڑ سونے کے پہاڑ اور چاندی کے پہاڑ ہیں" کے تصور کی روشنی میں کامیاب اقدامات متعارف کروائے گئے ہیں۔

موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنا بلاشبہ ایک سنگین بین الاقوامی چیلنج ہے جس کے لیے عالمی اقدامات کی ضرورت ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کی کلید صرف "ٹھوس عمل" میں پوشیدہ ہے۔ہم آہنگ بقائے باہمی، سبز اور پائیدار ترقی کا فروغ آنے والی نسلوں کی بقا کے لیے لازم ہے ۔یہ بات اچھی ہے کہ چین جو دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے اُس جیسے ممالک کی جانب سے موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے باقاعدہ اہداف کا تعین کیا گیا ہے۔ چین 2030 تک کاربن پیک اور 2060 تک کاربن نیوٹرل کا ہدف پورا کرنے کے لیے کوشاں ہے۔آج موسمیاتی تبدیلی کے سنگین چیلنج سے نمٹنے کے لیے لازم ہے کہ ہر ایک ملک اپنے وعدوں کی پاسداری اور سبز، کم کاربن اور پائیدار ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کے لیے تمام ممالک ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر آگے بڑھیں گے ،وگرنہ تاخیر کی صورت میں بنی نوع انسان کو بھیانک نتائج بھگتنے پڑ سکتے ہیں۔

 

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1328 Articles with 617866 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More