انسان کے قلبی میلان اور نفسانی رُجحان !!

#العلمAlilmعلمُ الکتابسُورَةُالاَحزاب ، اٰیت 4 ، 5 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُرد زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات
ماجعل
اللہ لرجل من
قلبین فی جوفهٖ
وماجعل ازواجکم
الّٰئی تظٰھرون منھن
امھٰتکم وماجعل ادعیاء
کم ابناءکم ذٰلکم قولکم بافوا
ھکم واللہ یقول الحق وھو یھدی
السبیل 4 ادعوھم لاٰبائھم ھواقسط
عنداللہ فان لم تعلموااٰباھم فاخوانکم فی
الدین وموالیکم ولیس علیکم جناح فیما اخطا
تم بهٖ ولٰکن ماتعمدت قلوبکم وکان اللہ غفورارحیما 5
اللہ نے کسی راہ گیر کے پہلو میں دو دل نہیں رکھے ہیں کہ اُس کا ایک دل اُس کو ایک راستے پر چلاۓ اور اُس کا دُوسرا دل اُس کو ایک دُوسرے راستے کی طرف بڑھاۓ اور تُم لوگ اپنی بیویوں کی جس پُشتیانی کو اپنی ماؤں کی پُشتیبانی کی طرح محسوس کرتے اور کہتے ہو تو تُمہارے نفس کے اِس ہنگامی احساس سے وہ تُمہاری مائیں نہیں بن جاتیں اور اسی طرح تُم جن اَفراد کو اپنا بیٹا یا اپنا باپ کہہ دیتے ہو تو وہ بھی تُمہارے اِس طرح کہہ دینے سے تُمہارے باپ یا بیٹے نہیں بن جاتے کیونکہ یہ تو تُمہارے مُنہہ سے نکلی ہوئی ہوائی باتیں ہیں مگر حق کی راہ تو وہی راہ ھے جس راہ کی طرف اللہ نے تُمہاری راہ نمائی کی ھے اِس لیۓ تُم جن لوگوں کو باپ یا بیٹا کہہ کر پُکارتے ہو تو ھماری اِس ھدایت کے بعد تُم اُن لوگوں کو اُن کے حقیقی رشتوں کے مطابق پُکارا کرو ، اگر تُم کو اُن کی ابویت و ابنیت کا علم نہ ہو تو اِس صورت میں وہ تُمہارے دین کے رشتے سے تُمہارے دینی بھائی ہیں اور اگر ھماری اِس ھدایت سے پہلے تُم نے اُن کی اِن نسلی و نَسبی نسبتوں کو بولنے اور بتانے میں کوئی غلطی کی ھے تو تُم اللہ سے پردہ پوشی اور مہربانی کی اُمید رکھو !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
بچے جن دو اَفرادِ مرد و زن کے ذریعے جن دو اَفرادِ مرد وزن کے درمیان پیدا ہوتے ہیں اُن اَفراد میں ایک اُن بچوں کا شفیق باپ اور ایک اُن کی مہربان ماں ہوتی ھے ، اُن بچوں کے اُس گھر میں اُن کا جو باپ ہوتا ھے وہ جسمانی اعتبار سے ایک طاقت ور مرد ہوتا ھے اِس لیۓ اُس گھر کی بیٹی اُس کو اپنا اور اپنی کم زور ماں کا محافظ سمجھتی ھے اور اُس گھر کا بیٹا جو اپنے باپ کی طرح اُس گھر کا ایک طاقت ور فرد ہوتا ھے وہ بھی خود کو اپنی کم زور ماں اور کم زور بہن کا ایک محافظ سمجھتا ھے لیکن جب یہ بچے جوان ہو کر اپنے والدین کی طرح اپنے گھروں کے مالک بن جاتے ہیں تو اُن کو اپنے اُن گھروں میں بسنے رَسنے کے بعد بھی جن نفسیاتی حوالوں سے اپنے والدین یاد آتے ہیں اُن حوالوں میں بیٹی کے لیۓ اُس کا سب سے بڑا نفسیاتی حوالہ اپنے کے باپ کی وہی طاقت ور اور مُعتبر ہستی ہوتی ھے جو اُس نے بچپن سے اَب تک دیکھی ہوتی ھے اور وہ اپنے شوہر کو بھی اُسی طاقت ور اور مُعتبر مرد کے رُوپ میں دیکھتی ھے اور بچپن سے نکل کر جوانی میں آجانے والے اُس بیٹے کے نفسیاتی حوالوں میں بھی سب سے بڑا حوالہ اُس کی وہ مہربان ماں ہوتی ھے جو اُس کے بچپن سے لے کر اُس کی جوانی تک اُس کی بے لوث دیکھ بھال کرتی رہی ھے ، انسان کے اِس نفسیاتی پس منظر میں یہ بات قطعا بعید از امکان نہیں ہوتی کہ ایک شادی شدہ لڑکی اپنے خیالوں کے اُجالوں میں اپنے شوہر کو بھی اپنے باپ کے رُوپ میں نہ دیکھے اور ایک شادی شدہ لڑکے کے لیۓ بھی یہ بات ہرگز بعید از امکان نہیں ہوتی کہ وہ اپنے خیالوں کے اُجالوں میں اپنی بیوی کو بھی کبھی اپنی ماں کے رُوپ میں محسوس نہ کرے ، بالخصوص اُس وقت کہ جب وہ ایک دُوسرے سے الگ ہوتے ہوں تو اُن کی نئی یادوں میں اُن کی پرانی یادوں کے وہی جگنُو اُن کی یادوں کے آسمان پر نہ جگمگاتے ہوں جو اُن کے ماضی میں اُن کے خیالوں کے آسمان پر جگمگاتے رہتے تھے اور جب انسان کی نفسیاتی صورتِ حال یہ ہو تو پھر یہ بھی مُمکن ھے کہ اُس کے نفسیاتی حوالے سے اُس کے خیال میں غیر ارادی طور پر آنے والی کوئی بات غیر ارادی طور پر کبھی اُس کی زبان پر بھی آجاۓ اور یہ بھی مُمکن نہیں ھے کہ اُس کے خیال میں آنے والی کوئی غیر اَخلاقی بات غیر ارادی طور پر اُس کی زبان پر آجاۓ تو اللہ تعالٰی کی طرف سے اُس کی اصلاح کے لیۓ کوئی ھدایت ہی نہ آۓ ، یہی وجہ ھے کہ قُرآنِ کریم نے اٰیاتِ بالا میں انسان کے اُسی نفسیاتی خیال کی اصلاح کی ھے جس کے اَچانک خیال میں دَرآنے پر تو کوئی گرفت نہیں ہوتی لیکن دل سے اُبھد کر زبان پر آجانے کے بعد اُس کی اَخلاقی و معاشرتی گرفت ہوتی ھے ، اِس لحاظ سے اٰیات بالا کی پہلی اٰیت کا پہلا قابلِ غور لفظ { جعل } ھے جو { خلق } کے بعد کی ایک کیفیت ھے جس کا مطلب یہ ھے کہ انسان کی یہ کیفیت اُس کی تخلیقی کیفیت نہیں ھے جو اُس کی تخلیق میں ایک تخلیق بن کر اُس کے ساتھ آتی ھے بلکہ یہ اُس کی وہ تجعیلی کیفیت ھے جو اُس انسان نے انسانی معاشرے میں دیکھی ھے اور انسانی معاشرے میں دیکھنے کے بعد اپنے اُوپر مسلط کی ھے کیونکہ جعل سے مُراد وہ کام ہوتا ھے جو اُس سے پہلے بھی موجُود ہوتا ھے اور انسان نے اُس پہلے کام کو کسی دُوسرے انسان میں دیکھنے کے بعد اپنے آپ پر مسلط کیا ہوا ہوتا ھے ، اُردو زبان کے الفاظ جعل ساز اور جعل سازی بھی اسی مصدر سے صادر ہوۓ ہیں اور چونکہ انسان کی یہ کیفیت ایک جعلی کیفیت ھے اِس لیۓ اللہ تعالٰی نے انسان کو اُس جعلیت سے ہٹانے اور اُس کی اصلیت پر لانے کے لیۓ اِس ھدایت کا اہتمام کیا ھے جو اِس سُورت کی اِس اٰیت میں موجود ھے ، اٰیاتِ بالا کی اِس پہلی اٰیت میں جو لفظِ { رَجُل } آیا ھے وہ اُس صاحبِ { رِجل} یعنی ایک چلنے پھرنے والی ہستی کے لیۓ آیا ھے جو ایک گھر دار عورت کے مقابلے میں زیادہ چلنے پھرنے والی ہستی ہوتی ھے اور اُس ہستی کے اسی چلنے پھر کی بنا پر اُس کو رجل کہا گیا ھے اور اسی بنا پر ھم نے اِس لفظ کا مفہوم اَدا کرنے کے لیۓ راہ گیر کا لفظ مُنتخب کیا ھے اور اِس کا مقصدی مفہوم یہ ھے کہ جس طرح ایک جگہ سے دُوسری جگہ پر جانے والے ایک مسافر کا ایک ہی متعین راستہ ہوتا ھے اسی طرح قانونِ دین پر چلنے والے اور دُنیا سے آخرت کی طرف جانے والے انسان کا بھی ایک ہی مُنتخب راستہ ہونا چاہیۓ تاکہ وہ دین کے طے شدہ راستے پر چلتا ہوا دُنیا سے عُقبٰی تک سہولت کے ساتھ چلتا چلا جاۓ ، اٰیاتِ بالا کی پہلی اٰیت کا تیسرا قابل توجہ طلب لفظ { تظٰھرون } ھے جو جمع مذکر حاضر فعل مضارع معروف کا صیغہ ھے جس کا معنٰی وہ عملِ ظِہار کرنا ھے جس عملِ ظہار کا عملی قانون سُورُةُالمجادلة کی اٰیت ایک سے چار میں آۓ گا اور اِس اٰیت میں جو کُچھ آیا ھے وہ اُس قانون کی تمہید کے طور پر آیا ھے اور اِس تمہید کی توضیح کے لیۓ اُس اصطلا کا استعال کیا کیا گیا ھے جو الفاظ کے اُس ظاہر معنی کو ظاہر کرتی ھے جو ہر زمانے میں اُس اصطلاح میں اُس اصطلاح کی رُوح کے طور پر موجُود رہا ھے اور اُس نزول قُرآن کے زمانے میں اِس اصطلاح کا عربوں میں رائج استعمال کیا رہا ھے اور اُن کے اُس خصوصی استعمال کی بنا پر اِس کی اِس لفظ اور اِس لفظ کے مفہوم کی قانونی حیثیت کیا رہی ھے اِس مقام پر اِس کے بارے میں اتنی بات یاد رکھنا ہی کافی ہو گا کہ { تظٰرون } جمع مذکر حاضر فعل مضارع معروف کا وہ صیغہ ھے جس کا ماضی معروف ظَھَرَ ، جس کس اسمِ واحد ظَھرِ ، جس کا مصدری مفعول ظھریا ، جس کی جمع کثرت ظھُور ، جس کی صفتِ مشبہ ظھیر ، جس کا ظرفِ زمان ظھیرة ھے اور اِس جس کا مقصدی معنٰی پُشت ھے اور اسی حوالے سے ھم نے اِس لفظ کا مقصدی معنٰی پُشتیبانی کیا ھے ، پُشت انسانی جسم کے پچھلے حصے کو کہتے ہیں جو انسانی جسم کے سامنے والے حضوری حصے کے مقابلے میں ایک { غیاب } ہوتا ھے اور اٰیات کا مقصدی مفہوم ایک جذباتی شوہر کا اپنی بیوی سے یہ کہنا ھے کہ جس طرح میں اپنی ماں کے غیاب میں اپنے آپ کو محبت و توجہ کی نعمت سے محروم رہتا ہوں اسی طرح تُمہاری عدم موجُودگی میں بھی اُس مطلوبہ توجہ اور محبت کی نعمت سے بھی محروم ہوجاتا ہوں ، ظاہر ھے کہ یہ اُس کا ایک ایسا احساسِ نفسی ھے جس سے اُس کے نفسِ نکاح پر تو کوئی مَنفی اثر نہیں پڑتا لیکن اِس عام لفظ کا ایک خاص وقت میں ایک خاص استعمال اِس رشتے کے لیۓ نقصان کا باعث بھی بن سکتا ھے اِس لیۓ اِس مقام پر اِس کی اِس قابلِ معافی تمہید کے بعد اِس کی قابلِ تہدید سزا کو اِس معاملے کے اُس مرحلہِ تکمیل تک مؤخر کردیا گیا ھے جو اِس کے بعد سُورَةُالمجادلة میں آۓ گا ، جہاں تک اِس اٰیات کی تفسیر کا تعلق ھے تو عُلماۓ روایت اِس اٰیت کی تفسیر میں پہلے تو یہ دُور کی کوڑی لاۓ ہیں کہ عھدِ نبوی کا ایک منافق کہا کرتا تھا کہ میرے پہلو میں دو دل ہیں جن میں سے ایک دل مسلمانوں کے ساتھ ہوتا ھے اور دُوسرا دل کافروں کے ساتھ رہتا ھے اور اُن کے نزدیک یہ اٰیت اُس منافق انسان کے اُس منافقانہ بیان کی تردید میں نازل ہوئی ھے اور علماۓ روایت جو دُوسری دُور کی کوڑی لاۓ ہیں وہ دُور کی کوڑی یہ ھے کہ مشرکینِ مکہ میں ایک شخص جمیل بن معمر فہری تھا جو کہتا تھا کہ میرے پہلو میں دو دل ہیں اور محمد علیہ السلام کے پہلو میں صرف ایک دل ھے اِس لیۓ یہ اٰیت اُس مشرک انسان کے اُس مشرکانہ دعوے کی تردید میں نازل ہوئی ھے اور ظاہر ھے کہ یہ علماۓ روایت یہ نہیں جانتے کہ یہ اٰیت اللہ تعالٰی کے ایک ایسے حُکم کے طور پر نازل ہوئی ھے جس کا کسی منافق یا مُشرک کے بیان سے کوئی تعلق نہیں ھے بلکہ اللہ تعالٰی کے اُس قانُونِ نازلہ کے ساتھ تعلق ھے جس قانونِ نازلہ کے تحت اللہ تعالٰی نے سیدنا محمد علیہ السلام پر قُرآن نازل کیا ھے ، بہرکیف اِس اٰیت میں اللہ تعالٰی کی اِس پہلی ھدایت کے بعد اللہ تعالٰی کی جو دُوسری ھدایت موجُود ھے وہ یہ ھے کہ تُم اپنی نفسیات میں اُبھرنے والے جس نفسیاتی جذبے کے تحت جن لوگوں کو اپنے بیٹے یاباپ کہہ دیتے ہو وہ بھی تُمہارے اِس طرح کہہ دینے سے تُمہارے حقیقی باپ یا حقیقی بیٹے نہیں بن جاتے بلکہ اِس کی قانونی صورتِ حال یہ ھے کہ جس طرح کوئی عورت کسی مرد کی ایک مُنہہ بولی بیوی نہیں ہو سکتی اور کوئی مرد کسی عورت کا ایک مُنہہ بولا شوہر نہیں ہو سکتا اسی طرح کسی بھی مرد و زن کا کوئی بھی مُنہہ بولا رشتہ اُس کا حقیقی رشتہ نہیں ہوسکتا اور نتیجہِ کلام یہ ہوا کہ انسان کا نسلی و نسبی رشتہ وہی طے شدہ رشتہ ھے جو اللہ تعالٰی نے خود بنایا ھے ، اِس کے بعد دُوسری اٰیت میں یہ فیصلہ کُن ھدایت دی گئ ھے کہ اگر تُم کسی انسان کو اُس کے باپ یا بیٹے کے رشتے سے مخاطب کرنا چاہو تو اُس کے حقیقی باپ اور حقیقی بیٹے کی نسبت سے مخطب کیا کرو اور اگر تمہارے پاس اُس انسان کے نسبی باپ اور نسلی بیٹے کے بارے میں مصدقہ معلومات نہ ہوں تو اِس صورت میں تُم اُس کو اپنا دینی بھائی سمجھو اور اپنے دینی بھائی کے طور پر ہی اُس کو اپنے تعارف والے لوگوں کے ساتھ متعارف کراؤ ، اگر اِس سے پہلے تُم نے اپنے غلط خیال کے باعث کسی کے باپ یا کسی کے بیٹے کا غلط تعارف کرایا ھے تو اَب اِس طرح کی بے پرکی اُڑانے سے باز آجاؤ اور اپنی سابقہ غلطی پر اللہ تعالٰی سے درگزر چاہو اور درگزر کی اُمید رکھو اور آخری بات ھم نے یہ کہنی ھے کہ یہ ایک عام قانونِ ھدایت ھے جس کا سیدنا محمد علیہ السلام کے کسی مُنہہ بولے بیٹے کے ساتھ کوئی بھی تعلق نہیں ھے جیساکہ عُلماۓ روایت نے اپنی روایاتِ باطلہ میں بیان کیا ھے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 558067 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More