اسلامی ریاست میں پہلا اور آخری اِجماعِ اُمت !!

#العلمAlilmعلمُ الکتابسُورَةُالاَحزاب ، اٰیت 6اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیت و مفہومِ اٰیت !!
النبی اولٰی
بالمؤمنین من انفسھم
وازواجهٗ امھٰتھم واولواالارحام
بعضھم اولا ببعض فی کتٰب اللہ من المؤمنین
والمھٰجرین الّا ان تفعلواالٰی اولیٰئکم معروفا کان ذٰلک فی
الکتٰب مسطورا 6
ہر تحقیق سے اِس اَمر کی تصدیق ہو چکی ھے کہ محمد علیہ السلام پر ایمان لانے والے تمام انسانوں کے لیۓ محمد علیہ السلام کی ذاتِ عالی اُن کی اپنی ذات پر مقدم ہو چکی ھے اور محمد علیہ السلام کی بیویاں اُن کے لیۓ اُن کی ماؤں کے مرتبے پر فائز ہوچکی ہیں لیکن کتاب اللہ کی رُو سے عام اہلِ ایمان اور مھاجرین و انصار کی بہ نسبت اُن کے نسبی رشتے دار جو اُن کی وراثت کے حق دار ہیں وہ اُن کی قولی و عملی معاونت کے ہر حق دار سے زیادہ حق دار ہیں تاہَم اگر ان بیان کیۓ گۓ امور کے بعد بھی تُم اپنے دیگر اَصحاب اور اَحباب کے ساتھ کوئی مالی معاونت کرنا چاہتے ہو تو اُس کا حُکم بھی اس کتاب میں لکھا ہوا ھے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
سیدنا محمد علیہ السلام نے مکے سے اپنی ہجرت اور مدینے میں اپنے قیام کے بعد ایک مُختصر عرصے کے دوران عالَم و اہلِ عالَم میں جو علمی و فکری انقلاب برپا کیا تھا وہ علمی و فکری انقلاب اُس گزرے ہوۓ زمانے میں بھی عالَم و اہلِ عالَم کے لیۓ یہ جواب طلب سوال تھا کہ آخر اُس ہستی کی ہستی میں ایسی کیا بات ھے کہ جو انسان اُس پر ایمان لاتا ھے تو اُس پر ایمان لانے کے بعد جب بھی اُس مُسلم انسان کی سماعت میں اُس ہستی کا نامِ گرامی آتا ھے تو اُس مُسلم کا سر اُس ہستی کی عقیدت سے خَم ہو جاتا ھے اور اُس مُسلم کی آنکھ اُس ہستی کی محبت سے نَم ہو جاتی ھے اور اُس ہستی کا لایا ہوا وہ علمی و فکری انقلاب اِس گزرتے ہوۓ زمانے میں بھی جُملہ عالَم و اہلِ عالَم کے لیۓ ایسا ہی ایک جواب طلب سوال ھے کہ آخر اُس ہستی کی ہستی میں ایسی کیا بات ھے کہ آج بھی جب ایک مُسلم کی سماعت میں اُس ہستی کا نامِ گرامی آتا ھے تو اُس ہستی کی عقیدت سے اُس مُسلم کا سر خَم ہوجاتا ھے اور اُس ہستی کی محبت سے اُس مُسلم کی آنکھ نَم ہو جاتی ھے اور اگر اِس گزرتے ہوۓ زمانے میں اُس ہستی کے ساتھ ہر مُسلم کی عقیدت و محبت کا یہ عالَم ھے تو آنے والے تمام زمانوں میں بھی جب کبھی ایک مُسلم جماعت کی سماعت میں اُس ہستی کا نامِ گرامی آۓ گا تو اُس ہستی کی عقیدت سے اُس مُسلم جماعت کا سر خم ہو جاۓ گا اور اُس ہستی کی محبت سے اُس مُسلم جماعت کی آنکھ نَم ہو جاۓ گی مگر قُرآنِ کریم کے پڑھنے اور قُرآن پڑھانے والے انسانوں کے لیۓ سیدنا محمد علیہ السلام کا برپا کیا ہوا وہ علمی و فکری انقلاب حیرت انگیز تو ضرور ھے لیکن وہ علمی و فکری انقلاب ایک جواب طلب سوال ہر گز نہیں ھے کیونکہ قُرآنِ کریم نے اپنی اِس سُورت کی اِس اٰیت میں انسان کے اِس مُجمل سوال کا جو مُفصل جواب دیا ھے اُس کو پڑھنے کے بعد انسان کی حیرت تو یقیناً پہلے سے زیادہ بڑھ جاتی ھے لیکن انسانی ذہن میں آنے والے اِس سوال کا اُس کے فہم کے مطابق ایک جواب بھی ضرور مل جاتا ھے ، قُرآنِ کریم نے اِس سوال کے جواب میں یہ مُنفرد بات بتائی ھے کہ جو لوگ محمد علیہ السلام پر نازل ہونے والے قُرآن پر ایمان لاۓ تھے اُس کا پہلا اثر اُن پر یہ ہوتا تھا کہ وہ ایمان لاتے ہی اپنی جان و خواہشِ جان پر محمد علیہ السلام کی جان و خواہشِ جان کو اِس طرح ترجیح دینے لگ جاتے تھے کہ گویا اُن کی اپنی جان و خواہشِ جان اِس جہان میں کہیں موجُود ہی نہیں ھے بلکہ اِس سارے جہان میں اُسی ایک ہستی کی جان و خواہشِ جان موجُود ھے جس کی جان و خواہشِ جان اُس تنزیل کی علمی و عملی تکمیل ھے جو اُس کے قلبِ سلیم پر اللہ تعالٰی نے نازل کی ھے لیکن اِس سوال کا کسی انسان کے پاس تاحال بھی کوئی جواب نہیں ھے کہ سیدنا محمد علیہ السلام نے اہلِ ایمان کے دل میں ایمان کے ساتھ ساتھ یہ بے مثال عقیدت اور یہ لازوال محبت کس طرح بھر دی ھے ، سواۓ اِس جواب کے کہ یہ قُرآن اور صاحبِ قُرآن کا ایک معجزہِ حیات ھے جو مُسلم کی حیات میں حیات بن کر اِس طرح داخل ہو گیا ھے کہ جس وقت تک ایک مُسلم زندہ رہتا ھے اُس وقت تک اُس کی حیات میں یہ معجزہِ حیات بھی ہمیشہ زندہ و موجُود رہتا ھے اور جب وہ مُسلم مرجاتا ھے تو یہ معجزہِ حیات اُس کی نسلوں کی حیات میں اسی طرح مُنتقل ہو جاتا ھے جس طرح اَصحابِ محمد علیہ السلام کے زمانے سے مُنقل ہو کر ھمارے زمانے تک آیا ھے ، قُرآنِ کریم کی اٰیتِ بالا کے مطابق ایمان و عقیدت اور محبت ومہربانی کا یہ معجزہِ حیات پہلے سیدنا محمد علیہ السلام کے قلبِ سلیم سے نکل کر مکی مُسلمانوں کے قلوب میں داخل ہوا تھا اور اِس کے بعد یہ معجزہِ حیات قلبِ محمد و قلبِ مُسلم سے نکل کر اُن نو مُسلم اہلِ مدینہ کے دلوں میں داخل ہوا تھا جو مدینے میں ایمان لاۓ تھے اور ایمان لانے کے بعد اُن اہلِ مدینہ نے مہاجرینِ مکہ کے ساتھ ایک ایسی قلبی اخوت قائم کرلی تھی کہ اُس اخوت کے تحت انہوں اپنی ہر چیز مہاجرین کے ساتھ برابر برابر تقسیم کر لی تھی اور اَب اِس تقسیم کو وہ بیتِ نبوت و اہلِ بیتِ نبوت تک توسیع دینا چاہتا تھے کیونکہ اُنہوں نے اُس نبی کو اپنی لازوال عقیدتوں اور محبتوں کا محور بنانے کے بعد اُس نبی کی بیویوں کو بھی اپنی ماؤں کی طرح اپنی مائیں تسلیم کر لیا تھا ، عُلماۓ روایت اِس اٰیت کی اِس تفصیل کو اللہ تعالٰی کا حُکمِ تنزیل سمجھتے ہیں لیکن اٰیت کے نفسِ مضمون میں حُکم کا کوئی اشارہ موجُود نہیں ھے بلکہ اِس کے برعکس اٰیت ھٰذا کے اِس واضح مضمون میں یہ بات واضح طور پر موجُود ھے کہ اہلِ مدینہ کا یہ عملِ اخوت ایک رضاکارانہ عمل تھا اور جب یہ عمل حَد سے بے حَد ہو گیا تو اللہ تعالٰی نے اُن کو یہ حُکم دیا کہ تُمہارا جذبہِ اخوت قابلِ قدر ھے اور تُمہاری یہ بے مثال اخوت قائم بھی ضرور رہنی چاہیۓ لیکن جہاں تک تُمہارے وسائلِ معاش کا تعلق ھے تو اَب عام اہلِ ایمان اور مہاجرین و اَنصار میں سے ہر مسلمان اپنے نسلی و نسبی رشتوں پر زیادہ توجہ دے تاکہ اسلام کا قانونِ وراثت تُمہارے اِس ایثار سے ایسا لاچار ہی نہ ہو جاۓ کہ تُم اپنا سب کُچھ تقسیم کر کے ختم کر دو اور تُمہارے بعد تُمہارے نسبی وارث تُمہاری نسبی میراث سے محروم ہو جائیں ، مدینے میں قُرآنی ریاست قائم ہونے کے بعد یہ پہلا خاموش اور پُرجوش اجماع اُمت تھا جو مسلمانوں کے درمیان خود بخود قائم ہوا تھا اور اللہ تعالٰی نے اپنے حُکم سے اِس اجماعِ اُمت کو اِس حد تک محدُود کیا تھا کہ کسی مورث کا کوئی وارث اپنے حقِ وراثت سے محروم نہ رہ جاۓ اور اگر کوئی مسلم اللہ تعالٰی کے اِس پُر حکمت حُکم کے بعد بھی اپنا یہ مالی ایثار اسی طرح جاری رکھنا چاہتا ھے تو وہ ضرور جاری رکھے لیکن اِس طرح پر جاری رکھے کہ اُس کا وہ عملِ خیر و ایثار کتاب اللہ کے کسی حُکم سے نہ ٹکراۓ اور اُس کے اُس عملِ خیر سے اُس کا کوئی قانونی وارث بھی اپنی قانونی وراثت سے محروم نہ رہ جاۓ ، اسلامی حکومت میں اِس پہلے اجماعِ اُمت کے بعد دُوسرے اجماعِ اُمت کی مثال سُورَةُالبقرة کی اٰیت 285 ھے جس میں رسول اور اَصحابِ رسُول نے اُن چیزوں پر اپنا ایمان لانے اور اُن چیزوں پر اپنا ایمان قائم رکھنے پر اجماعِ اُمت کیا تھا جن کا اللہ تعالٰی نے اُس اٰیت میں ذکر کیا ھے اور اُن چیزوں پر ایمان لانے کا براہِ راست کوئی حُکم نہیں دیا ھے لیکن جب اُمت نے اُن چیزوں پر اجماعِ اُمت قائم کر لیا تو اللہ تعالٰی نے اُس اجماع کو اپنے یومِ قیام سے یومِ قیامت تک علٰی حالہٖ قائم رکھا ھے ، قُرآنِ کریم میں اجماعِ اُمت کی یہ دو بڑی مثالیں موجُود ہیں جن میں سے پہلا اجماعِ اُمت وہ ھے جو ایک دینی ضرورت کے تحت اُمت نے قائم کیا تھا اور اُس ضروت کی تکمیل کے بعد اللہ تعالٰی نے اُس اجماع کو موقوف کر دیا تھا اور دُوسرا وہ اجماعِ اُمت ھے جس میں نبی اور اُمتِ نبی دونوں شریک ہیں اور اللہ تعالٰی نے اُس اجماع کو قائم رکھا ھے جو اِس اَمر کی دلیل ھے کہ اللہ تعالٰی کے دین میں وہی اجماعِ اُمت مُعتبر ھے جو نبی اور اَصحابِ نبی نے کیا ھے اور قُرآن میں اُس کی شہادت بھی موجُود ھے ، اِس ایک اجماعِ اُمت کے سوا کوئی بھی اجماع ، اجماعِ اُمت نہیں ھے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 470034 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More