محسن پاکستان

خدائے لازوال نے کرہ ارض کو پھلوں پھولوں معدنی خزانوں اناج اور دلکش سحر انگیز نظاروں سے سجا کر آخر میں حضرت آدم ؑ کے ذریعے دھرتی پر انسان کی آباد کاری کر دی ۔ جب بھی کسی باشعور اہل دانش و حکمت نے خدا کی کائنات دھرتی اِس کے خزانوں نظاروں اور پیکر مشت پر غور کیا تو یہ حقیقت سامنے آئی کہ خالقِ کائنات نے روز اول سے آج تک ہر دور میں اپنی لازوال عظیم دلکش حیران کن تخلیق سے اہل دنیا کو حیران اور ششدر کر کے رکھ دیا طاقت ور بادشاہ کو معمولی انسان سے شکست دینا فرعون کے گھر میں حضرت موسی ؑ کی پرورش پھر اُسے حضرت موسی ؑ کے ہاتھوں فرعون کو دریائے نیل کی موجوں میں تنکے کی طرح ڈبو دینا طاقت ور وسائل مالی استحکام اور بڑے فوجی لشکروں کے مالک ملکوں کو غریب کمزور ملکوں کے ہاتھوں شکست سے دوچار کر دینا اِس کی حالیہ مثال روس اور امریکہ بہادر کا افغانستان میں عبرت ناک شکست ہے حق تعالیٰ کی تخلیقات کا اگر مطالعہ کریں تو خوبصورتی کے ساتھ تنوع اور حیران خصوصیات کے حامل انسانوں کی پیدائش ہے اگر ظاہری حالات پر جائیں تو ایسے غیر معمولی انسان کبھی بھی کامیابی کے آسمان پر فاتح بن کر نہ چمکے لیکن خدائے لازوال کی مدد سے معمولی انسان کامیابی و کامرانی کے کے ٹو پر اِس طرح فتح کے جھنڈے گاڑتے ہیں کہ اہل دنیا کی عقل دنگ رہ جاتی ہے زندگی اور انسانوں کے یہ نشیب و فراز اِس حقیقت پر مہر لگاتے ہیں کہ یہ کائنات دھرتی کسی حادثے کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک غیر مرئی قوت ہے جو اِس سارے نظام کو انتہائی مہارت چابک دستی سے چلا رہی ہے کیونکہ دنیا میں جب بھی کوئی انسان طاقت اقتدار فوجی طاقت مالی استحکام حاصل کرتا ہے تو اور پھر بڑھاپے کی طرف بڑھتا ہے تو اُس کی شدید خواہش ہوتی ہے کہ وہ مالی خزانوں کے بل بوتے پر بلند و بالا پر شکوہ عمارتیں باغات حیران کن تعمیرات کر کے آنے والے انسانوں کو اپنی عظمت کا ثبوت دے سکے اور پھر خود کو ہمیشہ کی شہرت کے لیے خزانوں کے منہ کھول کر بہت سارے اوٹ پٹانگ کام بھی کرتا ہے لیکن یہ قدرت کا عجیب اور پکا اصول اور راز ہے کہ وقت کی آندھی اِسی تمام حماقتوں کو گمنامی کے غار میں دفن کر دیتی ہے آپ تاریخ انسانی کے بڑے حکمرانوں سلطانوں کا ریکارڈ اکٹھا کر لیں جنہوں نے اپنے مالی استحکام سے دنیا بھر کے اہل علم و دانش کو اپنے دربار میں جمع کر کے عقل و دانش کے لوگوں کی فوج اکٹھی کر لی پھر دولت اور بہت بڑے فوجی لشکروں کے بل بوتے پر ایسی حماقتیں کیں کہ آنے والے دور کے انسان اُس کو یاد رکھیں لیکن یہ ان کاخواب ہی ثابت ہواکہ صدیوں کی کروٹیں ایسے شیخ چلی حکمرانوں کونگل گئی جبکہ اِس کے برعکس جب کائنات کا مالک کسی انسان کو شہرت اور محبوبیت دینا چاہتا ہے تو عام کچے سے گھر اور آبادی سے معمولی خاندان سے ایسا انسان پیدا کر تا ہے کہ سینکڑوں بادشاہوں کی شہرت کا رنامے اُس معمولی انسان کے سامنے ماند پڑ جاتے ہیں ایسے انسان محبوبیت شہرت کے اُس مقام پر پہنچ جاتے ہیں کہ صدیوں کا غبار بھی اُن کی شہرت اور محبوبیت کو دھندلا نہیں پاتا ایسے ہر دلعزیز انسان دانستہ کو ششوں سے شہر ت کے آسمان پر آفتاب بن کر نہیں چمکتے بلکہ رب تعالی نے اُن کے نصیب میں شہرت دوام لکھ دی ہوتی ہے انسانوں کے اِس عروج و زوال ترقی و کامیابی ناکامی میں ہمیں ایک ہی بات نظر آتی ہے کہ یہ کامیابی ناکامی صرف اور صرف حق تعالیٰ کے پاس ہے وہ جس کو چاہے بادشاہ بنا دے جس کو چاہے گدا گری میں غرق کر دے خدا جب کسی انسان سے کام اور شہرت دینا چاہتا ہے تو وہ کسی خاص علاقے ملک اور خاندان کو چن کر غیرمعمولی صلاحیتوں سے مالا مال انسان پیدا کر تا ہے جس کی شہرت صدیوں پر قیامت تک قائم و دائم ہو جاتی ہے ایسا ہی ایک انسان یکم اپریل 1936ء کو برصغیر پاک و ہند کے شہر موجود بھارت کے شہر بھوپال پیدا ہوا کہ قدرت مادیت پرستوں کو پھر اپنی کرشمہ سازی دکھانے پر آگئی تھی کہ اِس بچے نے آگے جا کر اُس ملک کے لیے ایٹم بم تیار کرنا تھا جو سوئی تک نہیں بنا سکتا تھا ایٹم بم سائنس ٹیکنالوجی کے عروج کے بعد بنایا جاتا ہے لیکن یہاں قدرت پھر دنیاوی ترقی کی حقیقت اہل دنیا کو دکھانا چاہتی تھی یہ ہونہار بچہ تعلیم کی منازل طے کررہاتھا کہ قیام پاکستان کا وقت آگیا تو عبدالقدیر خان نامی یہ بچہ اپنے خاندان کے ساتھ ہجرت کر کے کراچی پاکستان میں آگیا تعلیم حاصل کر نے کے بعد میٹرو پولیٹن میں ملازمت حاصل کی پھر سکالر شپ پر اعلی تعلیم کے لیے جرمنی ہالینڈ چلے گئے وہاں پر میٹریل ٹیکنالوجی میں ایم ایس کے بعد پھر بیلجئیم میں میٹرلوجیکل انجینئرنگ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی یہاں پر یہ جان گئے کہ مادے کوکس طرح کنورٹ کیا جاتا ہے کیونکہ قدرت نے اِن سے کام لینا تھا اِس لیے مطلوبہ علم کے راستے کھلتے چلے گئے اِسی دوران سانحہ مشرقی پاکستان رونما ہو جاتا ہے اِس حادثے کے بعد جب اندرا گاندھی نے یہ کہا کہ دو قومی نظریے کو ہم نے سمندر میں غرق کر دیا ہے تو یہ سن کر اس پاکستانی کادل چھلنی ہو گیا ڈاکٹر قدیر خان بھی سانحہ مشرقی پاکستان پر بہت افسردہ تھے پھر 1973ء میں جب ہندوستان نے ایٹمی دھماکہ کیا اور خود کو ایشیاء کا سپر مین ہونے کا دعوی کیا تو قدرت اپنے بڑے فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ڈاکٹر قدیر خان کو پاکستان بھیجتی ہے 1974ء میں ڈاکٹر قدیر خان اپنی بیگم کے ساتھ چھٹیاں گزارنے پاکستان آتے ہیں تو اُس وقت کے وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو کو ایک خط لکھ کر اپنی خدمات پیش کرتے ہیں بھٹو صاحب نے آپ کو فوری بلایا پھر ٹین کی چھتوں پر مشتمل بہت چھوٹے پیمانے پر کہوٹہ میں لیبارٹری قائم کی گئی جو بعد میں آنے والے تقریبا سارے حکمرانوں کی وجہ سے ترقی کرتی گئی کیونکہ ایٹم بم کے لیے یورینیم کو خاصل عمل سے گزارا جاتا ہے جس میں ایسی مشین کی ضرورت ہوتی ہے جو برق رفتاری سے گھوم سکے پاکستان نے بہت کو شش کی لیکن مشین مطلوبہ رفتار سے پہلے ہی ٹوٹ جاتی پھر ڈاکٹر صاحب نے اپنے ذاتی تعلقات پر یورپ جرمنی سے پرزے منگوا کر وہ مشین تیار کی جو بر ق رفتاری کے اُس مقام پر پہنچ جاتی تھی پھر چند سال کی کو ششوں سے ہی ڈاکٹر صاحب اور ان کی ٹیم اپنے عظیم مقصد میں کامیاب ہو گئی تو 1984ء میں ڈاکٹر صاحب نے جنرل ضیاء الحق کو خط لکھ کر خوشخبری دی کہ ہم یہ عظیم کامیابی حاصل کر چکے ہیں آپ جب ارادہ کر یں گے ایک ہفتے کے اندر ایٹمی دھماکہ کرنے کی پوزیشن میں ہونگے لیکن سیاسی حکمران یو رپ امریکہ کی دشمنی کی وجہ سے ایٹمی دھماکہ کرنے سے گریز کر تے رہے یہاں تک کہ 1998ء کا سال آگیا جب بھارت نے دوبارہ ایٹمی دھماکے کیے تو اُ س وقت کے وزیر اعظم نواز شریف پر پریشر آگیا کہ میاں صاحب اب بھی اگر آپ نے دھماکہ نہ کیا تو عوام آپ کا دھماکہ کر دے گی پھر عوامی پریشر اور ہندوستان کو کرارا جواب دینے کے لیے 28مئی 1998ء کو بلوچستان چاغی کے پہاڑ کی غاروں میں ایٹمی مواد چھپا کر ڈاکٹر قدیر صاحب نے بٹن دبا کر ایٹمی دھماکہ کر کے پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنا دیا اِ س طرح سر زمین بھو پال سے اٹھنے والا یہ معمولی بچہ محسن پاکستان کے مقام تک پہنچ گیا کیونکہ قائد اعظم اور ان کے ساتھیوں کے بعد جو شہرت محبوبیت عزت ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب کو ملی وہ کسی دوسرے حکمران یا لیڈر کا نہیں ملی پوری پاکستانی قوم ڈاکٹر قدیر خان صاحب کی شکر گزار ہے جنہوں نے پاکستانی قوم کو عزت وقار اور اعتماد بخشا ۔
 

Prof Abdullah Bhatti
About the Author: Prof Abdullah Bhatti Read More Articles by Prof Abdullah Bhatti: 805 Articles with 735634 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.