اصلی چہرہ

ابھی چند دن پہلے کی بات ہے کہ آزاد کشمیر کے انتخابات میں کراچی کی دو نشستوں پر انتخابات کے التوا پر ایم کیو ایم نے وہ طوفان برپا کیا کہ الامان۔ سب سے پہلے حکومت سے علیحدگی کا اعلان کیا گیا اور پھر پی پی پی کے خلاف ایسی گل افشانیاں اور الزام تراشیاں کی گئیں کہ آدمی دیوانہ ہو جائے۔ہر وہ الزام جو پی پی پی کی قیادت پر لگا یا جا سکتا تھا اسے لگا یا گیا اور اسے اپنا جمہوری حق قرار دے کر اس کو حق بجانب بھی ٹھہرایا گیا۔ہر شخص کو بخوبی علم ہے کہ پی پی پی اس وقت حکومت میں ہے لہٰذا اس کےلئے تو اس طرح کی بے ہو دگی اور الزام تراشیوں کا جواب دینا انتہا ئی آسان ہے لیکن پی پی پی کی قیادت نے انتہائی صبر و تحمل سے کام لیا اور ایسا کو ئی ردِ عمل ظاہر نہیں کیا جس سے مخاصمت اور جھگڑے کی سیاست کو ہوا ملنے کا امکان ہوتا اور کراچی کا امن ایک دفعہ پھر خواب و خیال ہو جاتا۔ پی پی پی نے اپنی مفا ہمتی سیاست کے فلسفے کو زندہ رکھنے کےلئے رحمان ملک کو کراچی روانہ کیا تا کہ ایم کیو ایم کی قیادت سے مذاکرات کر کے ان کے تحفظات کو دور کیا جا سکے اور انھیں اس طرح کی جلد بازی کے فیصلوں کو رو بہ عمل لانے سے روکا جا سکے۔ پی پی پی اور ایم کیو ایم کے کئی دنوں کے مذاکرات کے بعد ایم کیو ایم نے حکومت میں واپسی سے انکار کر دیا اور یوں ایم کیو ایم کی اقتدار کے ایوا نوں میں واپسی کی بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ ایم کیو ایم حکومتی اتحاد سے علیحدہ ہو کر اپوزیشن بنچوں پر بیٹھ گئی لیکن وہ جس بھونڈے اور غیر منطقی انداز سے حکومت سے الگ ہو ئی وہ سب پر عیاں ہے اور اس طرح کا انداز اپنانے سے اسے کو ئی سیاسی منعفت نصیب نہ ہو سکی۔آزاد تجزیہ نگاروں اور کالم نگاروں کی منتفقہ رائے تھی کہ ایم کیو ایم نے کراچی کی دو سیٹوں پر حکومت سے علیحدگی اختیار کر کے سیاسی بلوغت کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ چند خفیہ ہاتھوں کے اشاروں پر حکومت سے علیحدہ ہو نے کا انتہائی قدم اٹھا یا ہے جس سے اس کی ساکھ بری طرح سے متاثرہو ئی ہے اور جمہوری نظام کو سنگین خطرات لا حق ہو گئے ہیں۔۔۔

ایم کیو ایم کی پوری تاریخ خونی واقعات سے بھری پڑی ہے اگر میں ۲۹۹۱کے فوجی آپریشن کا ذکر کروں گا تو تو بات بہت دور تک نکل جائے گی ۔ جنرل نصیر اللہ بابر کے کلین اپ آپریشن کی داستان دھرانے کا بھی یہ وقت نہیں ہے کیونکہ عوام ایم کیو ایم کے ماضی سے بخوبی واقف ہیں۔لاشیں اٹھا نا اور گرانا ان کی سیاست کی بنیاد ہے اور اسکا مظاہرہ ہم روز انہ کراچی کی سڑکوں پر دیکھتے ہیں۔کو ن سی کمیونٹی ہے جس کے ساتھ ایم کیو ایم کی جنگ نہیں ہو ئی۔ہر کمیونٹی کو اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھا نی پڑیں لیکن ایم کیو ایم کی تشدد آمیز سیاست میں رتی برابر بھی فرق نہیں آیا۔اِس وقت اُن کی لڑائی پختونوں کے ساتھ بڑی شدت کے ساتھ جاری ہے جس نے ٹارگٹ کلنگ کے نئے رحجان کو فروغ دیا ہے۔ آئے دن لاشیں اٹھا نا ایک معمول سا بن گیا ہے ۔ پاکستان میں وکلا تحریک سے کون واقف نہیں ہے یہ وہ تحریک ہے جس میں پاکستانی عوام نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور مشرف کے غیر آئینی اقدامات کو رد کر دیا۔ اگر میں یہ کہوں کے وکلا تحریک جنرل مشرف کے آمرانہ دورِ حکومت کے خاتمے کی حشتِ اول تھی تو بے جا نہیں ہو گا۔نو سال تک جنرل پرویز مشرف کی گود میں بیٹھ کر جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت سے اندھا د ھند فوائد حا صل کرنے والی جماعت آج جمہوری قدروں کی علمبردار بن کر پی پی پی کو جمہوریت پسندی کا درس دے رہی ہے تو اس پر ایم کیو ایم کی عقلِ سلیم پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔( شائد اسی موقعہ کے لئے شاعر نے کہا تھا کہ بت ہم کو کہیں کافر اللہ کی مرضی ہے)۔۔۔

پی پی پی نے تو وکلا تحریک میں اپنے کارکنوں کی لاشیں اٹھائی تھیں اور اس تحریک میں اپنا لہو د یا تھا لیکن ایم کیو ایم نے حکومت کے ساتھ مل کر اس تحریک کو کچلنے کےلئے جو کھیل کھیلا تھا اس سے ہر ذی شعور شخص آگا ہے۔۲۱ مئی کا دن ایک ایسا دن ہے جس نے یم کیو ایم کے چہرے پر پڑا ہوا جعلی نقاب بالکل نوچ کر پھینک دیا ہے اور اس کا اصلی اور حقیقی چہرہ ساری دنیا کو دکھا دیاہے ۔ چیف جسٹس آف پاکستان ا فتخار محمد چوہدری اس دن وکلا تحریک کو فعال بنا نے اور بار سے خطاب کےلئے کراچی تشریف لائے لیکن ایم کیو ایم نے پہلے تو چیف جسٹس کو کراچی میں داخل ہو نے کی راہ داری نہیں دی اور انھیں وکلا سے ملنے کی اجازت نہ دی۔ انھیں کئی گھنٹوں تک ائر پورٹ پر محبوس رکھنے کے بعد وہی سے واپس اسلام آباد بھیج دیا ۔اس دن شہرکی جو حالت تھی اس کا صحیح نقشہ کھینچنا بھی مشکل ہے کیونکہ پورے شہر کی ناکہ بندی کر دی گئی تھی۔ لوہے کے کینٹینرز ، ٹریلرز، ٹرالیز، ویگنوں اور بوگیوں سے ساری شاہراﺅں کو بند کر دیا گیا تھا۔پورے شہر کا ٹریفک جام کر دیا گیا تھا اور کسی کو آنے جانے کی کوئی اجازت نہیں تھی جس کسی نے باہر نکلنے کی کوشش کی اسے موت کی نیند سلا دیا گیا۔ ایم کیو ایم کے شدت پسندوں کے ہاتھوں میں آتشیں اسلحہ تھا اور ہر وہ شخص جو ایم کیو ایم کا مخالف تھااور وکلا تحریک سے ہمدردی رکھتا تھا اسے بڑی بے دردی سے موت کے حوالے کیا گیا۔ اس دن ۴۶ لاشیں گرائی گئیں اور چند وکلا کو ان کے چیمبر کے اندر جلا کر خاکستر کر دیا گیا تھا ۔ انتقام کی ایک ایسی فضا تھی جس میں مخالفین کو سرِ عام گولیوں سے بھون دیا گیا ۔ ستم بالائے ستم دیکھئے کہ طاقت کے اس پر تشدد مظاہرے پر فخر و ناز کیا جاتا رہا اور اسے اپنی طاقت کے مظاہرے سے منسوب کر کے مخالفین کو خوف و ہراس میں مبتلا کیا جاتا رہا۔

۸۱ اکتوبر ۷۰۰۲ کا وہ تاریخی لمحہ جب محترمہ بے نظیر بھٹو اپنی آٹھ سالہ جلا وطنی ختم کر کے پاکستان واپس لوٹیں تھیں تو روئے ارضی پر دنیا کے سب سے عظیم الشان استقبال سے نوازی گئی تھیں لیکن استقبال کا یہ رنگ کچھ قوتوں کو پسند نہ آیا لہٰذا اس دن ان کے جلوس پر خود کش حملے اور دستی بموں سے خون کی ہولی کھیلی گئی ۔ ۸۴۱ لوگ موقع پر ہی جان بحق ہو گئے اور ۰۰۵ سے زائد لوگ زخمی ہو گئے۔ اس د ھماکے کے پیچھے چند ہاتھ وہ تھے جن میں ایم کیو ایم کے ہاتھ بھی شامل تھے۔ سا نحہ کارساز کے وقت کون لوگ تھے جنھوں نے سڑک پر لگے کھمبوں پر روشن چراغ گل کئے تھے اور اس حادثے کو رونما ہو نے میں ممدو معا ون بنے تھے۔ اس دن جو خون بہا تھا س کی ذمہ داری میں ایم کیو ایم برابر کی شریک تھی ۔اس روز ایم کیو ایم کے وزرا امن و امان قائم رکھنے میں بری طرح سے ناکام ہوئے تھے۔ اگر چہ محترمہ بے نظیر بھٹو اس حملے میں معجزانہ طور پر بچ گئی تھیں لیکن جو حرکت ایم کیو ایم اور دوسرے حکومتی عہدیداروں نے کی تھی اس نے ایم کیو ایم کی جمہوریت نوازی کا پردہ چاک کر کے رکھ دیاتھا۔

ابھی چند دن قبل ڈاکٹر ذولفقار مرزا نے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے خلاف ایک بیان دیا جس میں اسے بدمعاشوں کا سرغنہ قرار دیا۔اگر ہم ایم کیو ایم کے ماضی کا جائزہ لیں اور اس کے کرتوتوں پر نظر دوڑائیں تو اس نے جو کچھ کہا ہے اس میں مکمل صداقت ہے ۔ اگر اس بیان میں صداقت نہ ہوتی تو پھر قائدِ تحریک الطاف حسین انگلینڈ میں خود ساختہ جلا وطنی کی زندگی نہ گزار رہے ہوتے۔سیاسی لیڈر جلا وطن ہوتے ہیں لیکن یہ کیسی جلا وطنی ہے جو پچھلے ۹۱ سال سے ختم ہو نے کا نام نہیں لے رہی۔ چلو مان لیا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں محمد نواز شریف کی حکومتوں نے قائدِ تحریک کے خلاف آپر یشن کئے اور ان حکومتوں میں انھیں انصاف کی امید کم تھی لیکن ان دونوں قائدین کی حکومتوں کے خاتمے کے بعد نو سال تک جنرل پرویز مشرف بر سرِ اقتدار ہے جس میں ایم کیو ایم کو مکمل شریکِ اقتدار کیا گیا تھا۔الطاف حسین اور جنرل پرویز مشرف میں گہری دوستی تھی اور حکومتی فیصلوں میں ایم کیو ایم کو ایک خصوصی مقام حاصل تھا لہذا اسی دور میں قائدِ تحریک کو واپس آکر اپنے خلاف مقدمات کو بھگت لینا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔آج کل تو ویسے بھی عدلیہ آزاد ہے لہٰذا داغ دھونے کا یہ سنہری موقع ہے۔ دراصل قائدِ تحریک کو علم ہے کہ ان کے خلاف عدالتوں میں قتل ،اغوا اور تاوان کے بے شمار مقدمات دائر ہیں اور ان مقدمات میں انھیں سزائیں بھی ہو سکتی ہیں لہٰذا وہ پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھنے کی جرات نہیں کر رہے۔اب اسی بات کو ڈاکٹر ذولفقار مرزا نے ایک دوسرے پیرائے میں بیان کیا ہے تو پوری ایم کیو ایم غصے میں آپے سے باہر ہو گئی ہے اور اس نے کراچی شہر کو جس طرح خون میں نہلا دیا ہے اس پر ہر محبِ وطن پاکستانی یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا ہے کہ آخر ایم کیو ایم کی سیاست کی بنیاد اور فلسفہ کیا ہے۔اگر اس کی بنیاد یہی ہے کہ اس کی قیادت پر اعتراض اور الزام لگانے والا موت کے منہ میں دھکیل دیا جائےگا تو پھر سب سیاسی جماعتوں کو مل کر ایک متفقہ لا ئحہ عمل ترتیب دینا ہو گا تا کہ سیاست سے اسطرح کے غیر سیاسی اور خونی اندازِ سیاست کا خاتمہ ہو سکے۔

مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ ۸۸۹۱ کے انتخابات اور پھر ۰۹۹۱ کے انتخابات میں پی پی پی کی قیادت پر جس طرح کے الزامات لگائے گئے تھے اس نے ساری اخلاقی حدود کو پامال کر کے رکھ دیا تھا، گھٹیا اور گندے الزامات کے ساتھ من گھڑت تصاویر بھی شائع کی گئیں۔ کرادر کشی کا کوئی ایسا گوشہ نہیں تھا جسے عوام تک نہ پہنچایا گیا ہو لیکن پی پی پی کی قیادت نے کردار کشی کی اس مہم میں اس طرح کے کسی ردِ عمل کا مظاہرہ نہیں کیا تھا جس طرح کا مظاہرہ ایم کیو ایم نے کیا ہے۔ پی پی پی نے صفائیاں پیش کرنے اور الزامات در الزامات میں پڑنے کی بجائے عوامی مسائل کے حل کے وعدے اور جدو جہد سے عوام کی حمائت سے انتخابات میں فتح حاصل کی تھی ۔اگر پی پی پی کی قیادت بھی الزامات در الزامات کی سیاست میں الجھ جاتی تو شائد اسے وہ کامیابیاں نصیب نہ ہو سکتیں جو اس جماعت کی پہچان ہے۔ صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کے خلاف جس طرح کی زبان استعمال کی جاتی ہے، جس طرح کے اشتہار، بینرز لگا ئے جاتے ہیں اور جس طرح کے ایس ایم ایس بھیجے جاتے ہیں اگر پی پی پی اس پر ردِ عمل کی ٹھان لے تو پھر سیاست میں قتل و غارت گری اور بد امنی کے سوا کچھ بھی باقی نہیں بچے گالیکن پی پی پی ایک سیاسی جماعت ہے اور اس نے کبھی بھی اس طرح کی کوئی حرکت کرنے کی کوشش نہیں کی جس سے سیاسی نظام کی بساط ہی لپیٹ دی جائے۔پی پی پی کے سیاسی فلسفے اور اندازِ سیاست سے ا ختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن اس بات سے کسی کو بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ اس جماعت نے بے شمار ظلم و ستم سہنے کے باوجود بھی پر امن سیاسی جدو جہد کا راستہ نہیں چھوڑا اور شائد یہی وجہ ہے کہ یہ جماعت چاروں صوبوں کی زنجیر بنی ہو ئی ہے اور عوام اس جماعت سے محبت کرتے ہیں۔۔

۷۱ قیمتی انسانی جانیں ضائع ہو جانے، درجنوں گاڑیاں نذرِ آتش ہو جانے ، سارے شہر میں خوف و ہراس پھیلانے اور لوٹ مار کے واقعات رونما ہو جانے کے بعد قائدِ تحریک الطاف حسین اپنے پیرو کاروں کو پر امن رہنے کی تلقین کرتے ہیں اور حیران کن بات یہ ہے کہ اس اپیل کے بعد شہر میں امن و امان بھی قائم ہو جاتا ہے، لوٹ مار اور قتل و غارت گری بھی رک جاتی ہے لہذا اس سارے خون آشام ڈرامے کے بعد ایک صاحبِ شعور شخص یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ وہ لوگ جو اس بد امنی کے ذمہ دار ہیں اور جھنوں نے اس شہر کو یرغمال بنا رکھا ہے ان کا تعلق اسی گروہ سے ہے جو قائد تحریک کی ایک اپیل پر اپنا ہاتھ روک لیتے ہیں اور شہر میں امن و امان بحال ہو جاتا ہے۔ امن پسند قوتوں کی یہ ذمہ داری ہونی چاہیے کہ وہ متفقہ جدو جہد اور لائحة عمل سے شہرِ قائد کو ایسے بے رحم غنڈہ گرد عناصر سے نجات دلائیں اور اسے امن و آشتی کا گہوارہ بنا دیں کیوں کہ کراچی سے پاکستان کی معیشت، اس کی خو شخا لی اور استحکام جڑا ہوا ہے۔کراچی کے امن کو پسِ پشت ڈال کر کوئی بھی سمجھوتہ پاکستان سے دشمنی کے مترادف ہو گا لہذا حکومت کو ا من و امان کی خاطر سخت اقدامات کرنے ہوں گئے اور سیاسی وابستگی اور مفادات سے بالا تر ہو کر سب کو ایک ہی لا ٹھی سے ہانکنا ہو گا کیونکہ یہی حب ا لوطنی کا تقاضہ ہے اور حکومت کو اسی تقاضے پر لبیک کہنا ہو گا ۔۔۔
Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 629 Articles with 515623 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.