"چسکیاں"کتاب کے مصنف ڈاکٹر ذوالفقار علی ہے۔ جوپیشے
کے اعتبار سے معلم ہیں ۔شعبہ اردو کے پروفیسر ہونے کی بناپر ان کا رجحان
طنز و مزاح کی جانب زیادہ ہے۔بقول ڈاکٹررؤف پاریکھ ،ڈاکٹر ذوالفقار علی
مزاح کے میدان میں نئے نہیں ہیں ۔اس کتاب سے قبل ان کی کئی مزاحیہ نگارشات
نظر سے گزرچکی ہیں۔زبان درست لکھتے ہیں ،شعر و ادب کا اچھا مطالعہ ہے۔لفظوں
سے کھیلنا خوب جانتے ہیں۔سماجی و سیاسی شعور بھی ان کی تحریریوں میں جھلکتا
ہے ،حس مزاح بھی رکھتے ہیں گویا کامیاب مزاح نگاری کے تمام لوازمات ان کے
پاس ہیں ۔اس کتاب میں ان کے تین مضامین کانفرنس بازیاں ،خود ساختیاتی تنقید
اور حلقہ ارباب جوک ادبی منظر رکھتے ہیں ۔بشمول ان مضامین کے ان کی جملہ
نگارشات کے مطالعے سے قاری خود کو مسکرانے مجبور پاتا ہے یہی مزاح نگار کی
کامیابی کا سب سے بڑا پیمانہ ہوا کرتا ہے ۔ پنجاب یونیورسٹی کے سینئر
پروفیسر آف اردوڈاکٹرخواجہ محمد زکریا "چسکیاں"کتاب اور مصنف کے حوالے سے
لکھتے ہیں کہ الحمد ﷲ۔ ڈاکٹرذوالفقار علی کا فن مزاح پہلے سے کہیں زیادہ
نکھرا ہوا ہے۔اکثر لکھنے والوں کا فن ایک تنگ دائرے میں مقید ہوتا ہے لیکن
ڈاکٹر ذوالفقار علی کے مزاح کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا جارہا
ہے۔ڈاکٹرمحمد کامران لکھتے ہیں کہ مزاح نگاری درحقیقت کیمیا گری ہے۔ایک آنچ
کی کسر رہ جائے، تو بات بنتے بنتے رہ جاتی ہے ۔گوہر مقصود ہاتھ آتے آتے رہ
جاتا ہے۔ڈاکٹر ذوالفقار علی "اٹکھیلیاں "، "چھپڑچھاڑ" ، "چٹکیاں"بھرنے کا
چسکا لینے کے بعداپنی تخلیقی ترنگ میں مشروب لطافت ہنر کی "چسکیاں " لینے
پر اتر آیا ہے۔اس کا مزاح پھلجڑیوں جیسا آتش باز ہے ۔وہ کبھی شگوفے کھلاتا
ہے ،کبھی محفل کو کشت زعفران بنادیتاہے ۔
اس کتاب میں کل چودہ مضامین شامل ہیں جن میں باجا برادر، ٹوکا،خود
ساختیارتی تنقید،نائی نامہ ، مفت خوری ،ہم میچور ہیں،حلقہ ارباب جوک ،لفافہ
،صبح کی سیر،تماشے مرے آگے،کھوچل میڈیا،پنڈ دا سواد،کانفرنس کورونا گردی
وغیرہ۔ڈاکٹر ذوالفقار علی اس کتاب میں نائی نامہ میں لکھتے ہیں -;کسی زمانے
میں نائی کاگاؤں میں وہی مقام ہوا کرتا تھا جوشہر میں کسی میڈیکل سپیشلسٹ
کا ہوتا ہے۔ گویا نائی ہر طرح کے دیکھے ،ان دیکھے اور امراض کہنہ کا علاج
کرتا تھا ۔حکمت اس کے گھر کی لونڈی ہوا کرتی تھی ، اس لونڈی کی کشش دور
افتادہ دیہات سے ہرطرح کے مایوس افراد کو نائی کی طرف کھینچ لاتی ہے ۔ اگر
غور کیا جائے تو نائی دیہی زندگی کا انسائیکوپیڈیا ہی نہیں بلکہ "سرچ
انجن"بھی تھا ۔ ترکوں کے کائی قبیلے کی طرح جس کا نشان تلوار تھا ۔ نائی
قبیلے کانشان استرا ہوا کرتا تھا ۔تاہم اس ضمن میں نائی قبیلہ یہ وضاحت پیش
کرتا ہے کہ اس کی تلوار کثرت سے استعمال کی وجہ سے یہ شکل اختیارکر گئی ہے
۔نائی قبیلے کی بھی ایک اپنی سلطنت ہوتی ہے جس کو وہ بڑے فخر سے "برونائی
دارالحجام"قرار دیتا ہے اور کار سلطنت کو بہت توانائی سے چلاتا ہے اور اپنا
تو ا بھی لگوا تا ہے۔عہد حاضر میں بھی دور دراز کے دیہی علاقہ جات میں جہاں
کے باسی ابھی شہر نہیں گئے۔ نائی اپنا کردار اسی قدیمی تمکنت کے ساتھ
سرانجام دیئے چلا جا رہا ہے ۔اس کے کچھ ولی عہد بھی ہوتے ۔جو ہر نئے آنے
والے غریب گاہک کے سرو رخسار پر ٹکا ٹک یعنی بے دھڑک ٹک لگاتے ہیں اور اس
کے لیے عموما اپنا کھنڈا استرا استعمال کرتے ہیں ۔نائی وہ سماجی حیوان ہے
جس کے سامنے سارے انسان آنکھیں بند کرکے بیٹھ جاتے ہیں۔گاؤں میں نائی کا
استرا وہ استرا ہوتا ہے کہ جس کی کارگزاری دیکھ دیکھ کر آخر کار سب استرے
ہوجاتے ہیں۔یہی وہ استرا ہے جس کی بابت لوگ بندر کے ہاتھ نہ لگ جانے کے
خواہاں رہتے ہیں۔بعض لوگوں کے نزدیک نائی کا استرا ایک ایسا عمل پسند
اشتراکی ہوتا ہے جو بیماری کی جراثیمی خوراک سب میں برابر بانٹتا ہے ۔ نائی
نے ہاتھ میں قینچی پکڑی ہوتی ہے ۔قینچی چلاتے وقت اس کا منہ بھی عین اس
قینچی کے مطابق کھلتا اور بند ہوتا ہے۔جب وہ قینچی چلاتا ہے تو لگتا ہے کہ
وہ بال کاٹنے کے ساتھ ساتھ بات کاٹنے کی پریکٹس بھی کرتا چلا جا رہا
ہے۔256صفحات ہر مشتمل اس کتاب کی قیمت صرف 500/- روپے ہے۔
|