" جوٹوٹ کے بکھرا نہیں" یہ کتاب پاکستان کے ممتاز
صحافی ،بے باک اور معروف کالم نگار، دانش ور اور بک رائٹر جناب جبار مرزا
صاحب کی ہے۔وہ بات کہنے کا ڈھنگ بھی جانتے ہیں اور ظالم حکمرانوں کے سامنے
کلمہ کہنے کا ہنر بھی خوب انہیں آتا ہے ۔شاید انہی کے لیے یہ فقرہ کہا گیا
تھا ۔"اتنا ہی یہ ابھر ے گا جتنا کے دبا دو گے ۔"کہاتو یہ جاتا ہے کہ ان کا
شمار روزنامہ جنگ کے سینئر اور بزرگ کالم نگاروں میں ہوتا ہے لیکن اس کتاب
سمیت وہ کتنی ہی اور کتابوں کے مصنف ہیں ۔شعبہ ادب و صحافت میں وہ کون شخص
ہوگا جو انہیں نہ جانتا ہو۔اﷲ تعالی نے انہیں اتنی عزت اور اچھی شہرت عطا
کی ہے کہ شاید ہی کسی اور ملی ہو۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط کا نہ ہوگا کہ ہر
شعبہ زندگی میں ہردلعزیز ہیں ۔ یہ اﷲ کی ان پر خاص مہربانی کی وجہ سے ہے۔
مرزا صاحب اپنے اصولوں کے اس قدر پکے ہیں کہ بڑے سے بڑا شخص بھی انہیں اپنی
رائے بدلنے پر مجبور نہیں کرسکتا ۔ جو بات ان کی زبان سے ایک بار نکل جاتی
ہے پھر مفادات کی آندھیاں بھی مل کر اس بات تبدیل نہیں کرا سکتیں ۔ یہی وجہ
ہے کہ وہ پاکستان بھر کے صحافتی ، سماجی و معاشرتی اداروں اور صحافیوں کے
لیے رول ماڈل کا درجہ رکھتے ہیں ۔
اس وقت میرے پیش نظر ان کی ایک کتا ب "جو ٹوٹ کے بکھرا نہیں" ہے ۔ بظاہر تو
یہ کتاب جبار مرزا کی اہلیہ رانی مرحومہ کے حوالے سے لکھی گئی ہے ۔جو بالکل
صحت یاب تھیں لیکن معالجین کے روپ میں پیسے کے پجاریوں نے علاج کے نام ان
کی اہلیہ کے اتنے ٹیسٹ ، ایکسرے ، میمو گرافی اور ایم آر آئی کر وائی کہ نہ
ہونے کے باوجود بھی ان کے بیگم کو بریسٹ کینسر نے آگھیر ا۔ پڑھنے والوں کو
اس کتاب میں کلبلاتی ہوئی روحوں کے نوحے ، نام نہاد مسیحاؤں کا سانحاتی
کرداراور روحانی پیشواؤں کے گھناؤنے چہرے ضروردکھائی دینگے ۔پروفیسر فتح
محمد ملک لکھتے ہیں اس کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں -:میں جبار مرزا کو نصف
صدی سے جانتا ہوں ۔اپنے تجربات اور مشاہدات نے مجھے ان کی یہ پہچان عطا کی
ہے کہ وہ جبار مرزا نہیں دلدار مرزا ہیں ۔اپنے اسی حسن کردار سے وہ آج تک
اردو ادب و صحافت کو ثروت مند بنانے میں منہمک چلے آرہے ہیں ۔اپنی ذاتی
زندگی میں انہوں نے اپنی رفیقہ حیات کی طویل علالت کے دوران جس طرح علاج کا
ہر نسخہ آزمایا وہ ان کی وفاداری بشرط استواری کی نادر کمیاب مثال
ہے۔میڈیکل سائنس سے لے کر عطائی طبیبوں تک یقین سے لے کروہم و گمان تک وہ
روشنی کی ایک کرن کی تلاش میں سرگرداں رہے ۔اس طرح طویل تلاش و جستجو کا
نتیجہ ناکامی ٹھہرا اور ان کی رفیق زندگی اس عالم فانی سے کوچ کرگئیں تو
انہوں نے اپنے تجربات و مشاہدات کو بڑی درد مندی اور دلسوزی سے کے ساتھ زیر
نظر کتاب میں یکجا کردیا ہے۔یہ کتاب جبار نہیں دلدار مرزا کے حسن کردار کا
جیتا جاگتا عکس ہے، وہاں موت بانٹنے والے نام نہاد شفا خانوں کا تعارف بھی
اس میں شامل ہے۔
جسٹس (ر) میاں نذیر اختر، جبار مرزا کی اس کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں یہ
جبار مرزا کی آپ بیتی نہیں بلکہ ایک آئینہ بھی ہے جس میں معالجین کے مکروہ
چہرے صاف دکھائی دیتے ہیں ۔انہوں نے اس کتاب میں میاں بیوی کے پیار بھرے
رشتے کی اہمیت بتائی ہے۔ مرنے کے بعدجبار مرزا اپنی بیگم کے لیے تاج محل تو
تعمیر نہ کرسکے لیکن اس کا عکس مرقد کے کتبے پر کندہ کروا کر یہ ثابت کرنے
کی جستجو کی ہے کہ تاج محل تعمیر کرنے والے مغل بادشاہ سے وہ کسی طرح بھی
کم نہیں ہیں ۔جبارمرزا مبارک باد کے مستحق ہیں اس لیے کہ وہ اپنی رانی کی
رحلت پر دل شکستہ تو ہوئے مگر وہ ٹوٹ کے بکھرے نہیں ۔بلکہ آج بھی استقامت
اور پورے قد سے کھڑے دکھائی دیتے ہیں ۔
محمد احمد ترازی لکھتے ہیں کہ اپنی رفیقہ حیات "رانی"کی یادوں پر مشتمل یہ
ایک ایسی پرتاثیر آپ بیتی ہے جسے پڑھ کر جبار مرزا کا وہ خوبصورت روپ سامنے
آتا ہے جس میں محبت اور سراپا محبت ،جذبہ ایثار و قربانی ، انسان دوستی اور
اپنی ذات کی نفی کا وہ رنگ نمایاں ہے جو آج کل خال خال ملتا ہے۔وہ کتاب جس
کے مندر جات اور تجربات کے آئینے میں قاری نے اپنی زندگی کے خال وخد جانچنے
،پہچاننے اور بدلنے کی کوشش کے ساتھ اک نئے عزم سے زندگی جینے کا حوصلہ بھی
لیا ۔اس میں زندگی کی تڑپ اور معاشرے کے دل کی دھڑکن واضح طور سے سنائی
دیتی ہے ۔سچی بات یہ ہے کہ یہ صرف جبار مرزا کی آپ بیتی نہیں بلکہ وسیع
تناظر میں سچی محبت کی چاشنی سے لبریز دل کو عجیب سی ادا سی کے سحر میں
مبتلا کردینے والی جگ بیتی ہے ۔جس میں سوز وگداز، سادگی و سلاست ،اختصار و
جامعیت ،اضطراب ، بے ساختگی ، اسلوب کی شگفتگی ، شوخی و ظرافت ،عکا س
زندگانی اور عارفانہ و صوفیانہ طرز بیان نمایا ں ہے ۔اس کی معنویت ،اس کی
خوشبو اور اس کے اثر انگیز رنگوں کے سحر سے قاری کا نکلنا آسان نہیں ۔اس کا
خمیر شک، بدگمانی اور نفرت کی آمیزش سے پاک انسیت ،محبت ،چاہت ،اعتماد
،خلوص اور قربانی کے جوہر سے مزین ہے ۔
....................
اس کتاب کا چوتھا باب "چودھرانی سے رانی تک"کا ہے ۔پڑھنے سے پہلے میرا یہ
خیال تھا کہ شاید چودھرانی ہی نے شادی کے بعد رانی کا روپ دھارا ہے لیکن جب
کتاب کا یہ باب پڑھنا شروع کیا تو ہر قدم پر حیرتوں اور محبتوں کے نئے گوشے
کھلتے چلے گئے ۔وہ جبار مرزا صاحب جسے میں جانتا ہوں اس باب میں یکسر مختلف
میں دکھائی دیئے بلکہ سرچشمہ محبت نظر آئے ۔ مجھے یہ کہنے دیجیئے کہ جبار
مرزا صاحب کا یہ روپ کم ازکم میرے لیے ایک انکشاف کا درجہ رکھتا ہے ۔وہ اس
باب میں لکھتے ہیں کہ ہماری ساری زندگی ان دو کرداروں میں یا کہانیوں
.......چودھرانی کی یاد اور رانی کے حصار میں گزری ......چودھرنی نے ہمیں
کرچی کرچی کیا اور رانی نے تنکا تنکا سیمٹا ۔چودھرنی بچھڑی تو گھر بسا گئی،
رانی بچھڑی تو گھر اجڑ گیا ۔چودھرنی رخصت ہوئی تو ہماری خاطر اس قدر روئی
کہ بینائی گنو ابیٹھی ۔رانی رخصت ہوئی تو اسے پھر خواب میں آکر کہنا پڑاکہ
آپ روتے کیوں نہیں؟ چودھرانی نے ہماری خاطر والد سے مکالمہ کیاتھا۔ رانی
ماں کے سامنے کھڑی ہوگئی ۔ چودھرانی نے ہمیں اپنانے کے لیے سرتوڑ کوششیں
کیں ۔ روئی ۔تڑپی۔ چلائی ۔آخرچار سال دو ماہ اور تیرہ دن بعد شریک زندگی
بننے کی تگ و دومیں گزار کربے بسی اور بے چارگی کے عالم میں محبت کو مصلوب
ہوگئی ۔رانی 36سال 9ماہ اور گیارہ دن ہمراز اور ساتھ ساتھ رہی ۔چودھرانی نے
ہمیں مہذب کیا ۔شاعری کو نکھارا ۔رانی نے ہمیں گھردار بنایا ۔لفظوں کو گداز
کیا ۔چودھرانی کی کاوشیں لائق تحسین تھیں اور رانی کا ساتھ قابل رشک
رہا۔چودھرانی زندگی کی کسک رہی اور رانی زندگی کا سنگھار ۔جذبے دونوں کے
سچے تھے ۔فکر دونوں کی مثبت تھی ۔
عمر بھر ہم دو محسنوں کے درمیان کھڑے رہے ۔شادی سے پہلے والی دنیا میں
جھانکتا ہوں تو ریزہ ریزہ ہو جاتا ہوں ۔شادی کے بعد کا ماحول ہمیں ایستاد ہ
کردیتا رہا۔ چودھرانی کی کہانی مختصر ترین مگر کبھی نہ بھولنے والی ۔رانی
کا سفر طویل تر اور پرسکو ن گزرا۔چودھرانی ایک جھیل تھی جس میں ہوا سے بننے
والے دائرے ناپتے ناپتے ہمنے عمر گزار دی ۔رانی ایک ہنگامہ پرور آبشار تھی
جو زندگی کے تپتے صحرا میں جھرنے کا روپ لیے رہی ۔چودھرانی ناموس اور
خاندانی جلال پر اپنی محبت قربان کرگئی ۔ رانی تمام تر حالات کے باوجود
ہمارے وقارمیں اضافہ کیے رہی ۔دونوں ہماری خریدار تھیں .......ہم بے مول
تھے .......وہ انمول کرگئیں ۔
...............
ایک دن رانی اچانک ہماری لائبریری سے چودھرنی کی فائل نکال لائی ۔اس کے بعد
خطوط کا جائزہ لیا ......کئی بار پڑھا ......بلکہ بار بار پڑھا ۔پھر ہم سے
کہا جبار میں نہیں مانتی کہ کوئی عورت اس قدر مظلوم بھی ہو سکتی ہے جتنا
تاثر چودھرانی نے اپنے خطوں میں دینے کی کوشش کی ہے۔ میں نے کہا پہلی بات
یہ ہے کہ بدگمانی کا بھی کوئی ثواب نہیں ......جبکہ خوش گمانی کا اجر موجود
ہے اور صحت پر مثبت اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں ۔چودھرانی آپ کی سینئر ہے ،اسے
چودھرانی صاحبہ کہہ کے یاد کیا کرو اور اگر باوضو ہو کے اس کا نام لو تو
اضافی اجر ملنے کے امکانات ہیں۔ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ ہماری اس طرح کی
لائٹ موڈ کی عقیدت آمیز باتوں سے رانی کے مزاج کا درجہ حرارت چھت سے جا
ٹکرائے گا ۔رانی صاحبہ کا ہی فرمان تھا کہ جب آپ گھر سے نکلنے لگو تو قد
آدم آئینے کے سامنے کھڑے ہوکے اپنا جائزہ لے لیا کریں ۔بعض اوقات پائنچہ
جراب میں پھنسا ہوتا ہے اور آپ گھر سے باہر نکل جاتے ہیں۔سو ہم کہیں جانے
سے پہلے آئینے میں اپنا جائزہ لے رہے تھے جب چودھرانی کا ذکر اور اس کے
خطوط کی باتیں ہورہی تھیں تو ہم کچھ رومانٹک ہو گئے ۔ایسے میں آئینے کے بہت
قریب ہو کے خود کلامی کے انداز میں کہا کہ واہ واہ جبار مرزا تو بھی کوئی
بندہ ہے جسے چودھریوں نے بیٹی نہ دی ۔اس پر رانی نے زور سے فائل فرش پر دے
ماری اور قدرے بلند آواز سے کہا کہ وہ کمبخت بیٹی دے دیتے تو میری جان چھوٹ
جاتی .......اب ہمیں فکر ہوئی کہ رانی کہیں محبت بھرے خط ہی پھاڑ نہ دے ۔
.....................
رانی سے کچھ بھی پوشیدہ نہیں تھا ہم گاہے گاہے آپس میں لائٹ موڈ میں
چودھرانی کے حوالے سے بات کرلیا کرتے تھے۔رانی نے تو ہماری سار ی ڈائریاں
بھی پڑھی ہوئی تھیں جو ہم برس ہا برس سے لکھتے آرہے تھے۔شادی کے تین دن بعد
9اپریل 1984ء کو رانی نے ہماری وہ البم بھی دیکھی تھی جس کا پہلا صفحہ خالی
تھا۔رانی نے پوچھا یہ صفحہ خالی کیوں ہے؟میں نے کہا یہاں دراصل چودھرانی کی
تصویر لگنی تھی مگر اس کی شادی کہیں اور ہوگئی اور یہ صفحہ خالی رہ
گیا۔رانی نے اپنا اٹیچی کیس کھولا اور ہماری البم کے پہلے صفحے پر اپنی
تصویرلگا دی ۔
.................
تیس سال بعد یکم جون 2015ء کو رانی سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض چلی گئی,
جہاں ہماری بڑی بیٹی سحرش اپنے شوہر کے ساتھ مقیم ہے ۔چنانچہ وہ وقت کچھ
رانی کے ساتھ گزرتا تھا, وہ بچا پڑا تھا اس کا مصرف یہ نکالا کہ جوانی کی
یادوں کی کتاب "پہل اس نے کی تھی"مرتب کرنے کا پروگرام بنایا ۔وزرات تعلیم
کے ایک دوست کو بلا لیا ۔میں ترتیب وار بولتا گیا ۔بلال مہدی لکھتے گئے
۔چودہ چودہ گھنٹے کھائے پئے بغیر مصروف رہے کہ رمضان تھا۔ بس نماز کے لیے
دس منٹ کا وقفہ ہوتا یا آدھا گھنٹہ افطاری کے لیے ۔یوں ہم نے چار دن میں
کتاب مکمل کرکے کمپوزنگ کے لیے بھجوا دی ۔کمپوزنگ والے نے دو شفٹوں میں کام
کرکے پانچ چھ دن بعد ہمیں پروف پڑھنے کو دے دیا۔ یو ں کل بیس بائیس دنوں
میں کتاب چھپ کے ادبی اور علمی حلقوں میں موضوع بحث بن گئی ۔جب کتاب کا
ٹائیٹل فیس بک پر ڈالا تو رانی نے پوچھا جبار ،چودھرانی کی کہانی کیوں چھپی
؟ میں نے کہا ٹائیٹل ہے۔وہ بولی ٹائیٹل کتاب کے لیے ہوتا ہے۔بس یہ کتاب
نہیں چھپنی چاہیئے۔جبار اس پہلو پر غور کریں کہ جب چودھرانی کے بچوں اور
خاوند کو پتہ چلے گا تو وہ جیتے جی مر جائیگی۔
خیرکتاب 13جولائی 2015ء کو چھپ کے آگئی ۔کتاب کو ہاتھوں ہاتھ لیاگیا اور
خوب پذیرائی ہوئی ۔اخبارات ،ٹی وی ،یو ٹیوب ،فیس بک ،ریڈیو پر تبصرے ہی
تبصرے ۔الغرض" پہل اس نے کی تھی" ہاٹ کیک بن گئی ۔20جولائی تک رانی کو یقین
ہوگیاکتاب چھپ کے مقبول بھی ہورہی ہے۔رات کو رانی کا ریاض سے فون آیا جبار
آپ نے کہا تھا صرف ٹائیٹل ہے تو پھر ملک گیر سطح پر تبصرے کس پر ہورہے
ہیں؟میں نے کہا ہا ں رانی کتاب چھپ بھی چکی ہے اور فروخت بھی ہوچکی ہے اس
پر رانی نے غصے سے فون بندکردیا ۔دورہ مختصر کرکے رانی 24جولائی 2015ء کی
صبح ساڑھے نو بجے اسلام آباد ایئرپورٹ پہنچ گئی۔میں اند ر لاؤنج میں انہیں
لینے گیا ہوا تھا۔ اکثر ایسا ہوتا کہ جب رانی کراچی یا کسی اور شہر سے واپس
آتی تو میرے ماتھے کا بوسہ دیتی۔میں جوابا رانی کا ہاتھ چوم لیا کرتا
تھا۔اس دن رانی نے سامان بھی پورٹر کو پکڑا دیا اور میں ہاتھ چومنے کی
بجائے ہاتھ ملتا رہ گیا۔اب بھی رانی اپنے وصال کے بعد بھی دو تین مرتبہ
میرے خواب میں آئی میرے ماتھے کا بوسہ لیا مگر میں نے اس کاہاتھ نہیں چوما
۔ اس لئے کہ میں خود کو اس کا مجرم سمجھتا ہوں ۔بہرکیف 360صفحات پر مشتمل
اس خوبصورت کتاب کی قیمت صرف ایک ہزار روپے ہے جبکہ اس کتاب کے پبلی شر
شہریارپبلیکیشنز ۔پوش آرکیڈ G-9مرکز ،اسلام آبادہیں ان سے رابطہ موبائل
نمبر 0300-5586192اور ای میل jabbarmirza92@gmail,com کیا جا سکتا ہے ۔
جو ٹوٹ کے بکھرا نہیں وہ میں ہوں وہ میں ہوں
جو ذہن سے اترا نہیں وہ تو ہے ،وہ تو ہے
|