"ریل کی جادو نگری "یہ کتاب جناب سعید جاوید کی ہے
۔پیشے کے اعتبار سے وہ بنکار ہیں لیکن وہ چارمعروف کتابوں کے مصنف بھی
ہیں۔حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ان کی ہرکتاب ادب و صحافت اور عوامی پسندیدگی
کی بلندیوں کو چھو رہی ہے ۔پہلی کتاب "اچھی گزر گئی"ان کی سوانح عمری تھی
،دوسری کتاب "مصریات"اور تیسری کتاب "ایساتھا میرا کراچی "تھی جبکہ چوتھی
کتاب "ریل کی جادو نگری" جس پر ہم گفتگو کررہے ہیں۔ سعید جاوید اپنی
کتاب"جادو کی نگری" میں لکھتے ہیں ۔ یہ آج سے کوئی تین سو برس پہلے کی بات
ہے کہ لوگ گھوڑوں اور بگھیوں پر ہی سفر کیا کرتے تھے۔امریکیوں نے تو اپنا
ڈاک کا نظام بھی گھڑسوار ہرکاروں کو سونپ رکھا تھا،سترہویں صدی میں تھامس
نیو کومین نام کا ایک انجینئر تھا جو اپنی ورکشاپ میں کانکنی میں استعمال
ہونے والے متفرق اوزار بنایا اور مرمت کیاکرتا تھا ۔کہا جاتا ہے کہ ایک دن
چائے بنانے کے لیے اس نے آگ پر کیتلی رکھی ،کچھ دیر بعد کیتلی کی ٹونٹی سے
بھاپ نکلنے لگی ،اس نے ٹونٹی کا منہ بند کرکے بھاپ کو روکنے کی کوشش کی
۔بھاپ وقتی طور پر رک تو گئی لیکن پھر یکایک کیتلی کاڈھکن ایک دھماکے سے
اڑا اور چھت سے جا ٹکرایا۔اس تجربے سے وہ اپنا ہاتھ جلا بیٹھا لیکن اس کے
ذہن میں یہ سوال چپک کررہ گیا کہ یہ کونسی طاقت تھی جس نے اتنا جوش مارا
اورکیتلی کا ڈھکن چھت سے جا لگا ۔ اس لمحے اس کے دماغ میں یہ خیال پیدا ہوا
کہ بھاپ کی طاقت کو استعمال کرکے کوئی بڑا کام بھی کیا جا سکتا ہے ،چنانچہ
اس نے مزید تجربات کرنے کے بعد ایک پسٹن والا بھاپ کا انجن بنا ڈالا۔اس سے
پانی کھینچنے والا ایک پمپ اس طرح سے منسلک کرکے کوئلے کی کان کے اوپر نصب
کردیا جب اس پمپ کا پسٹن بھاپ کی طاقت سے اوپر کھینچتا تو وہ اپنے ساتھ کان
میں جمع ہونے والا ڈھیر سارا پانی بھی کھینچ لاتا۔پانی باہر گرا کر پسٹن
ایک بار پھر کان کی گہرائی میں اتر جاتا۔پسٹن کے بار بار سلنڈر کے اند ر
اوپر نیچے ہونے سے پانی کا مسلسل بہاؤ جاری رہتااور یو ں زمین کی گہرائی
میں کام کرنے والے مزدور کھدائی میں مصروف رہتے ۔نصف صد ی تک اسی طرح کام
چلتا رہا۔اس انجن کو ایک اور انجیئنر جیمس واٹ کے حوالے کیا گیا کہ وہ اس
کی کارکردگی کو مزید بہتر بنائے ۔جیمس واٹ اپنی مزید تحقیق کی بناپر ایک
ایسا بھاپ والا انجن بنانے میں کامیاب ہوگیا ۔جس کا شمار ریل گاڑی کے آباؤ
اجداد میں کیا جاتا ہے۔اس انجن کی خوبی یہ تھی کہ اس میں بھاپ پوری طرح
ضائع نہیں ہوتی تھی بلکہ اس کو بار بار اور مسلسل استعمال میں لایا جاسکتا
تھا ۔جیمس واٹ نے اس نئی طرز کے انجن کو اپنے نام سے رجسٹر کروا لیا پھر
تھوڑی بہت ترمیم کرکے اس کو مختلف مقاصد کے لیے استعمال کرنے لگا جس سے
حقیقی معنوں میں ایک صنعتی انقلاب آگیااور ہفتوں عشروں کا کام دنوں اور
گھنٹوں میں ہونے لگا۔صنعت کار بھاپ کی اس طاقت سے بڑے بڑے رولر ،گراریاں
پہیے گھماتے تھے پھر ان پر پٹیاں کس کر بیک وقت چھوٹی بڑی کئی مشینوں سے
منسلک کرکے ان کے ذریعے موثر انداز اور تیز رفتاری کے ساتھ مختلف مصنوعات
تیارکرنے لگے ۔گویا اب صحیح معنوں میں صنعتی انقلاب کاآغا ز ہو چکا تھا ۔اس
وقت کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اس انجن کو کسی چھکڑے میں نصب کیا
جا سکتا ہے جو بھاپ کی طاقت سے حرکت میں آجائے گاجو کوئلے کی کانوں کے باہر
بچھائی ہوئی لوہے کی پٹڑی پر خوب دوڑتا پھرے گا۔اس طرح پچاس برس اور گزرگئے
۔یہ انیسویں صدی کے ابتدائی دور کی بات ہے کہ امریکہ کے رابرٹ فولٹن نامی
انجیئنر نے اس انجن کے ڈیزائن میں تھوڑی بہت ترمیم کرکے اس کو ایک بڑی بحری
کشتی میں نصب کرکے بھاپ کے زور سے اس کا پیڈل ویل گھمانے کا کامیاب تجربہ
کیا جس سے کشتی تیزرفتاری سے آگے بڑھنے لگی۔یو ں روایتی بادبانوں اور چپوؤں
سے نجات بھی مل گئی ۔پھر جلد ہی یورپ اور امریکہ کے دریاؤں میں دخانی کشتیا
ں چلنے لگیں اور بغیر کسی اضافی افرادی قوت کے، سامان تیزی سے ایک جگہ سے
دوسری جگہ آنے جانے لگا۔جارج سٹیفنس بھی ایک انگریز انجینئر تھا۔ اس نے جب
کشتیوں کو بھاپ کے زور پر چلتے دیکھا تو اس نے اسی بھاپ کی طاقت سے انجن کو
زمین پر دوڑانے کی ٹھانی جس کے پیچھے سامان کی ترسیل اور مسافروں کے کچھ
چھکڑے لگائے جانے تھے ۔جارج سٹیفنس نے آٹھ دس سال کے تجربات کے بعد یعنی
1815ء بھاپ سے چلنے والا ایک ایسا انجن بنا ڈالاجو نہ صرف خود فولادی پٹڑی
پر دوڑتا تھا بلکہ اس کے پیچھے لگائی ہوئی بوگیوں میں کئی لوگ سفر کرنے
لگے۔یہی انجن آگے چل کر ریلوے کے اسٹیم انجنوں کے قبیلے کا سردار بنا۔ اگر
یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ جناب سعید جاویدنے بہت تحقیق اور عرق ریزی
سے "ریل کی جادو نگری" کے بارے میں یہ کتاب لکھی ہے ۔ جتنی ریل کے بارے میں
اہم معلومات اس کتاب میں موجود ہیں اتنی معلومات تو ریلوے کے کسی بھی
افسریا ملازم کے پاس نہیں ہونگی جو لاکھوں روپے تنخواہ لے کے گھومنے والی
کرسی پر ایئرکنڈیشنڈ کمرے میں بیٹھتے ہیں۔اس کتا ب کی خصوصیت یہ ہے کہ اسے
آسان اردو کے سانچے میں ڈھالا گیا ہے۔شاید ہی ریلوے کوئی شعبہ ایسا ہوگا جس
کا ذکر اس کتاب میں شامل نہ ہو۔551صفحات کی اس کتاب کی قیمت 3000/-روپے
رکھی گئی ہے۔چالیس صفحات پرریلوے کے بارے میں رنگین تصویریں موجود ہیں جو
کتاب کو مزید دلکش بنارہی یں ۔
|