عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے دنیا کو خبردار کیا ہے
کہ غریب ممالک کو ضرورت کے مطابق ویکسینز نہ ملنے کی وجہ سے وبا کم از کم
مزید ایک سال جاری رہے گی۔ڈبلیو ایچ او کے سینیئر اہلکار ڈاکٹر بروس
ایلوارڈ کا کہنا ہے کہ اس کا مطلب ہے کہ کووڈ کا بحران ’آسانی سے 2022 کے
آخر تک جا سکتا ہے۔‘دوسرے برِ اعظموں کی 40 فیصد آبادی کی نسبت افریقہ کی
صرف پانچ فیصد سے کم آبادی کو ویکسین لگائی گئی ہے۔ دنیا کے غریب ممالک اس
وقت بڑے امتحان سے گذر رہے ہیں، غریب اور ترقی پزیر ممالک کو کرونا کی وجہ
سے درپیش مشکلات سے نمٹنے کے لئے اپنی قوت اور طاقت کا اندازہ نہیں رہا۔
کرونا ویکسینز کی فراہمی امیر ممالک تک محدود ہو گئی ہے، غور طلب مقام یہ
بھی ہے کہ غریب ممالک غریب سے غریب ہوتے جا رہے ہیں، مہنگائی کا عفریت
انہیں چار اطراف سے کچھ اس طرح گھیر چکا ہے کہ انہیں اپنے عوام کو بچانے کے
لئے امیر ممالک کی جانب دیکھنا پڑ رہا ہے۔ کرونا ویکیسن کے تیاری کے مراحل
میں ابتدائی اندازے یہی لگائے گئے تھے کہ ویکیسین کی تیاری میں کئی برس لگ
سکتے ہیں لہذا اس وقت تک لوگوں کو احتیاطی تدابیر پر زیادہ توجہ دینا ہوگی۔
تاہم سائنسدانوں نے تمام اندازوں کے برعکس برسوں کے بجائے چند مہینوں میں
ویکسین بنا کر دوا ساز اداروں کے لئے منافع کمانے کا بڑا دورازہ کھول دیا۔
دنیا کے سامنے اصل چیلنج یہ تھا کہ کرونا کے مزید پھیلاؤ کو روکنے کے لئے
ویکسین کو دنیا بھر میں پھیلایا جائے۔ امریکا، چین سمیت کئی ممالک نے کرونا
ویکسینز کی فراہمی کے لئے قدرے بہتر اقدامات کئے لیکن اسے دنیا کے کمزور
طبقے کے لئے ناکافی سمجھا جارہا ہے۔ کوویکس گروپ کے ذریعے ایسے ممالک کو
ویکسینز فراہم کی جاتی ہے جو اپنی کمزور معیشت کی وجہ سے خریدنے کی استطاعت
نہیں رکھتے۔ عالمی امداد کے اداروں نے برطانیہ اور کینیڈا جیسے معاشی طور
پر مضبوط ممالک کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے جنہوں نے ویکسینز کی بڑی
خوراک خریدنے کے بجائے عطیہ لیں۔ برطانیہ نے5 لاکھ 39 ہزار 370 فائزر کی
خواکیں اور کینیڈا نے ایک ملین کے قریب آسٹرازینیکا کی خوارکیں کوویکس گروپ
سے حاصل کیں جس پر انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔کرونا وبا کے عالمی
طور پر بڑے پیمانے پر پھیلاؤ کے بعد اس خدشے کی جانب توجہ مبذول کرائی گئی
تھی کہ کرونا وبا کی ویکسین کو جلد ازجلد تیار کیا جائے اور اس کی منصفانہ
تقسیم کو یقینی بنایا جائے کیونکہ غریب اور ترقی پذیر کمزور معیشت والے
ممالک کے لئے مہنگی خوراکوں کا حصول انتہائی دشوار گذار دیا جارہا تھا
کیونکہ ان کی معیشت پہلے ہی مالی بحران کا شکار ہونے کے وجہ سے امیر ممالک
کے مقابلے میں خریدنے کی استطاعت نہ تھی۔ کرونا ویکسین بنانے والے دوا ساز
اداروں نے جیسے ہی ویکسین بنانے اور اس کے کامیاب تجارب کا اعلان کیا تو
فوری طور پر امیر ممالک نے ان دوا ساز اداروں سے بڑے پیمانے پر ویکسین
خریداری کے معاہدے کرلئے۔
کرونا وبا کے خاتمے کے لئے ویکسین کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانا ہوگا،
مساوی رویہ اختیار کئے بغیر کرونا وائرس کی تمام عالمی کوششیں ناکامی سے
دوچار ہوتی چلی جائیں گی، لہذا اس امر کی جانب عالمی اداروں کو توجہ مرکوز
رکھنے کی ضرورت بڑھ جاتی ہے کہ غریب اور ترقی پذیر ممالک کے مالی مشکلات کا
حل نکالا جاسکے۔ برطانیہ اور کینیڈا جیسے ممالک بھی اگر خیراتی امداد کے
ذریعے ویکسین حاصل کرچکے ہیں تو اس عمل پر کوویکس گروپ کو اپنی پالیسی پر
بھی نظر ثانی کی ضرورت بڑھ جاتی ہے کہ مضبوط معیشت کے حامل ممالک کو ویکسین
کی مفت فراہمی کس طرح ممکن ہوسکی۔ خیال رہے کہ گاوی کوویکس ویکسینوں تک
مساویانہ رسائی کے لیے وقف ایک بین الاقوامی شراکت داری ہے۔ اس کا ہدف 2021
کے اختتام تک کووڈ-19 ویکسین کی دو ارب خوراکیں تقسیم کرنا ہے۔ کوویکس میں،
متعدی بیماریوں سے نمٹنے کے لیے تیاری اور جدت طرازی کا اتحاد، گاوی،
یونیسیف اور عالمی ادارہ صحت رابطہ کاری کا کام کرتے ہیں۔ دسمبر 2020 میں
امریکی حکومت نے کوویکس کے لیے پیسوں کی منظوری دی تو گاوی کے چیف ایگزیکٹو،
ڈاکٹر سیتھ برکلے نے کہا،“امریکی عوام کی طرف سے دی جانے والی اس امداد سے
گاوی کو کوویکس اے ایم سی کے ذریعے کم آمدنی والی معیشتوں کو کووڈ-19
ویکسین کی خوراکیں خریدنے اور پہنچانے میں مدد ملے گی۔ اس سے بحرانی مدت
میں کمی آئے گی، زندگیاں بچیں گیں اور عالمی معیشت کو دوبارہ مستحکم بنانے
میں مدد ملے گی۔“ لیکن عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے جب یہ بیان دیا
غریب ممالک کو ضرورت کے مطابق ویکسینز نہ ملنے کی وجہ سے وبا کم از کم مزید
ایک سال جاری رہے گی، تو اس کے بعد امریکا جیسے ممالک کو اپنی پالیسی میں
تبدیلی کی ضرورت ہے۔
امریکا اس وقت تک دنیا کے ممالک کے لیے ویکسینوں کی200 ملین خوراکوں کا
عطیہ دے چکا ہے، لگ بھگ ایک سو ترقی پذیر ممالک کو بطور عطیہ دینے کے لیے
ویکسین کی 1 بلین خوراکوں کی خریداری کی گئی اور کوویکس پروگرام میں مدد
کرنے کے لیے بنائے گئے ویکسین کے اتحاد، گاوی کے لیے چار ارب ڈالر کا عطیہ
بھی دیا گیا۔صدر بائیڈن نے 3 جون کے ایک بیان میں کہا تھا کہ”امریکہ اس
وائرس کے خلاف دنیا کی مشترکہ جنگ میں ویکسینوں کا اسلحہ خانہ ہوگا۔ ہم ایک
ایسی دنیا تعمیر کرنے کے لیے جو کچھ کر سکے کریں گے جو متعدی بیماریوں سے
لاحق خطرات کے خلاف دفاع میں زیادہ سلامتی والی ہو اور زیادہ محفوظ
ہو۔”آکسفیم کا اندازہ ہے کہ دنیا کی چار ارب آبادی کا انحصار کوویکس کی طرف
سے دی جانے والی ویکسین پر ہے۔ برطانیہ کا کوویکس پروگرام کے تحت ویکسین
لینے کے عمل سے پہلے برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے کہا تھا کہ ’برطانیہ
کی ویکسین مہم کی کامیابی کے بعد ہم اس پوزیشن میں ہیں کہ اضافی ویکسین ان
کے ساتھ شیئر کریں جنہیں اس کی ضرورت ہے۔دنیا میں تین ایسے ممالک ہیں جہاں
سب سے زیادہ ویکسین لگائی گئی۔ چار ارب ویکسینز میں سے 40 فیصد یعنی 1.6
ارب چین میں لگائی گئی۔ بھارت میں تقریباً ساڑھے 40 کروڑ افراد کو اور
امریکہ میں 34 کروڑ کے قریب ویکسین لگائی گئی۔
دنیا کے غریب ممالک نے دیر سے ویکسین لگانے کا عمل شروع کیا اور وہ بھی
کویکس کی طرف سے عطیہ کے باعث ممکن ہوا۔ تاہم ویکسین کی تقسیم برابری سے
نہیں ہوئی۔چین غریب ممالک میں ویکسین کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے اہم
کردار ادا کررہا ہے لیکن چین کی جانب سے ویکسین کی امداد کو عالمی سیاست کا
نشانہ بناتے ہوئے ویکسین ڈوپلومیسی قرار دیا جارہا ہے، جس کی وجہ امریکا
اور یورپی ممالک کی جانب سے چین کی تیار کردہ کرونا ویکسین کی افادیت کو کم
ظاہر کئے جانا مقصود تھا تاہم پاکستان،بنگلہ دیش، بھارت، افغانستان، سری
لنکا سمیت کئی ممالک کو فوری ویکسین کی فراہمی کو یقینی بنایا اور سب سے
پہلے ویکسین کی خوراکیں پہنچائیں۔ پاکستان میں چین کے تعاون کے باعث ہی پاک
ویک ویکسین تیار کی ہے۔ کرونا کی تبدیل ہوتی نئی اشکال اور دنیا کو درپیش
چیلنجز کے تناظر میں ایسی کرونا ڈوپلومیسی کو ناکام بنانے کی ضرورت ہے جس
سے غریب اور ترقی پذیر ممالک کی عوام کو خطرات درپیش ہوں۔ اقوام متحدہ کے
ادارہ صحت کو صرف بیانات پر اکتفا کرنے کے بجائے عملی طور پر ویکسین کی
مساوی تقسیم کو یقینی بنانا چاہے۔امریکا اور چین دنیا کی بڑی آبادی کو
ویکسین فراہم کرنے کی تعداد میں اضافہ کریں تو اس سے جلد ازجلد عالمی سطح
پر وبا پر قابو پانے میں آسانی ہوگی اور دنیا بھر کی معیشت کو نقصان پہنچنے
کا ازالہ ممکن بنانے کے لئے مناسب لائحہ عمل اختیار کیا جاسکے گا۔ مضبوط
مالہ معیشت کی حامل ممالک بالخصوص جی سیون اور جی 20کو اپنے امدادی پروگرام
میں پیش رفت بڑھانے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ دنیا ابھی کرونا وبا سے محفوظ نہیں
ہوئی۔
|