فرحت نصیب: ایک فرد کی نہیں ایک عہد کی داستان/ڈاکٹر فرحت عظیم
(Dr Rais Samdani, Karachi)
|
فرحت نصیب: ایک فرد کی نہیں ایک عہد کی داستان/ڈاکٹر فرحت عظیم ٭ ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی سوانح عمری یا آپ بیتی لکھنے کا رواج ایک قدیم روایت ہے۔ اصناف اردو میں آپ بیتی اور یادداشتوں کو ایک منفرد اور پسندیدہ صنف سمجھا جاتا ہے۔ مطالعہ کرنے والے بڑے لوگوں کی آپ بیتیاں زیادہ شوق اور دلچسپی سے پڑھتے ہیں۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ بڑے لوگ اپنوں سے بڑوں کی آپ بیتی کا مطالعہ زیادہ توجہ سے کرتے ہیں۔ آپ بیتی کی انفرادیت یہ بھی ہے کہ اکثر لوگ قید میں رہنے والوں کی آپ بیتیاں زیادہ دلچسپی سے پڑھتے ہیں۔اردو میں آپ بیتی لکھنے کا آغاز اٹھارویں صدی میں ہوا۔ توار یخِ عجیب المعروف ”کالاپانی“ کے بارے میں خیال ہے کہ یہ 20سال قید رہنے والے جعفر تھانیسری نے تحریر کی۔ تھانیسری کا عہد 1838ء تا 1905ء کا تھا۔کالا پانی کو حقیقی معنوں میں مکمل خود نوشت سوانح عمری نہیں تو اسے پہلا ذاتی تجزیہ ضرور کہا جاسکتا ہے۔ڈاکٹر روف پاریکھ نے اپنے مضمون ”خواتین کی لکھی ہوئی اردو کی خود نوشت سوانح عمریاں“ کالا پانی کے بارے میں لکھا ہے کہ کالا پانی کے یادداشت یاسوانح عمری یا سفر نامہ ہونے پر سوالات ہیں۔ انہو ں نے 1885ء میں شائع ہونے والی آپ بیتی ”بیتی کہانی“ جو نواب پٹودی کے خانوادے سے تعلق رکھنے والی ایک مصنفہ شہر بانو بیگم کی تصنیف ہے۔ یہ کتاب ڈاکٹر معین الدین عقیل کی تدوین کے بعد 1985ء میں شائع بھی ہوچکی ہے۔ اردو کی دیگر معروف اور اہم سوانح عمریوں میں اعمال نامہ‘ سید رضاعلی، ’مشاہدات‘ نواب ہوش یار ہوش بلگرامی، دیوان سنگھ مفتون کی سوانح عمری، ’خوب بہا‘ حکیم احمد شجاع‘، سرگزست‘ ذیڈ اے بخاری،’یادوں کی بارات‘ جوش ملیح آبادی، ’جہان دانش‘ احسان دانش،’زرگزست‘مشتاق احمد یوسفی، ’شہاب نامہ‘ قدرت اللہ شہاب، مشفق خواجہ کی ’اردو کی مختصر آپ بیتیاں‘، ’غبار خاطر‘ مولانا ابو اکلام آزاد کی سوانح عمری تو نہیں لیکن ان کے خطوط کا مجموعہ ہے یہ خطوط قلعہ احمد نگر میں 1942ء1945 ء کے درمیان لکھے گئے۔ ڈاکٹر روف باریکھ نے خواتین کی تحریر کردہ کئی سوانح عمریوں کا ذکر بھی کیا ہے ان میں بھوپال کی خاتون حکمراں سلطان جہاں کی’تزک سلطانی‘، عطیہ فیضی کی’زمانہ تحصیل‘، وزیر سلطان بیگم کی’نیرنگ بخت‘، قیصر بیگم کی کتاب زندگی، انیس قدوئی کی ’آزادی کی چھاؤں‘، صالحہ عابدحسین کی’سلسلہ روز و شب‘، ادا جفری کی ’جو رہی تو بے خبری رہی‘، کشور ناہید کی’بُری عورت کی کتھا‘، سعیدہ بانو احمد کی’ڈگر سے ہٹ‘، بیگم شائستہ اکرم اللہ کی پر’دے سے پارلیمنٹ تک ُاور بیگم جہاں آرا حبیب اللہ کی زندگی کی یادیں، ان کے علاوہ سیاست داں عابدہ حسین کی ’اور بجلی کٹ گئی‘، معروف آپ بیتیاں ہیں۔اسی طرح بعض سیاست دانوں نے بھی اپنی آپ بیتیاں تحریر کیں ان میں ’ہاں میں باغی ہوں‘ جاوید ہاشمی، ’فرزند پاکستان‘ شیخ رشید احمد، ’ایوان اقتدار کے مشاہدات‘ گوہر ایوب خان، ’جاہ یوسف سے صدا‘ یوسف رضا گیلانی، ’سچ تو یہ ہے‘ چودھری شجاعت حسین،’اور لائن کٹ گئی‘ کوثر نیازی، سابق صدر جنرل پرویز مشرف کی In the Line of Fireجس کا اردو ترجمہ”سب سے پہلے پاکستان“ معروف آپ بیتیاں ہیں۔محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی حقائق اور واقعات پر مبنی داستان ”داستان عزم“ بھی اپنے موضوع پر منفرد داستان ہے۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم کا ایک شعر ؎ اس ملکِ بےِ مثال میں اک مجھ کو چھوڑ کر ہر شخص بےِ مثال ہے اور باکماہ ہے جناب محمود شام سے اتفاق ہے کہ بادشاہوں، آمروں، منتخب حکمرانوں کی آپ بیتیاں بہت ذوق شوق سے پڑھی جاتی ہیں لیکن شاعروں اور ادیبوں نے ادب کی اس صنف کا آغاز کیا اور ان کی تحریر کردہ آپ بیتیاں بہت مقبول ہوئیں۔ جن کا ذکر اوپر کیا جاچکا ہے۔ ڈاکٹر فرحت عظیم کی آپ بیتی ”فرحت نصیب“ ایک استاد کی، ایک مصنفہ کی، ایک مقررہ کی، ایک شاعرہ کی، ایک ادیبہ کی اور ایک سچ لکھنے والی کی زندگی کی کہانی ہے۔ یہ کہانی ڈاکٹر فرحت عظم کی آپ بیتی ہی نہیں بلکہ ایک عہد کی داستان ہے اور تاریخ ہے۔ کتاب کی ایک خوبی تو یہ ہے کہ یہ آپ بیتی معروف صحافی، شاعر، کالم نگار اور ادیب محمود شام کے جریدے ”اطراف“ میں قسط وار شائع ہوچکی ہے، دوسری خوبی یہ ہے کہ ہر قسط جو کتاب میں ایک باب ہے کے ابتدا میں محمود شام کا تحریر کردہ اس باب یا قسط کے بارے میں انتہائی مختصر خلاصہ یا اظہاریہ بھی شامل ہے۔ بقول مصنفہ کتاب کا عنوان، تدوین اور اشاعت کی تمام تر کاوش کا سہرا محمود شام کو جاتا ہے۔انہوں نے محمود شام صاحب کو کتاب کا محسن قرار دیا۔ ڈاکٹر فرحت عظیم کی آپ بیتی کی تقریب رونمائی 31 اکتوبر 2021ء محبان بھوپال فورم کے زیر اہتمام فاران کلب میں منعقد ہوئی، راقم مہمان اعزاز جب کہ ڈاکٹر پیرزادہ قاسم صدیقی کی صدارت اور مہمان خصوصی جناب محمود شام صاحب تھے۔ میزبانی کے فرائض اویس احمد ادیب اور پروفیسر انیس زیدی نے انجام دیئے۔ کتاب کا فلیپ اور پیش لفظ محمود شام صاحب کے تحریر کردہ ہیں۔ تقریب میں مقررین نے آپ بیتی کے حوالے سے کتاب اور صاحب کتاب کے بارے میں تفصیلی اظہار خیال کیا۔پیش لفظ میں محمود شام نے لکھا ”فرحت عظیم اپنے شعبہ تدریس و تعلیم میں ایک نمایاں مقام رکھتی رہی ہیں۔ تدریس کو محض ذریعہ معاش نہیں سمجھتی رہیں بلکہ اسے عبادت اور ملی فریضہ خیال کر کے ادا کیا ہے۔ انہیں عہد بھی ایسا ملا ہے جس میں پاکستان یکے بعد دیگرے بڑے بحرانوں میں گھرارہا ہے۔ سیاسی طوفانوں میں تعلیم کی ناؤ سب سے زیادہ ڈولتی رہی۔ ڈاکٹر فرحت عظیم نے سرسید کالج میں تدریس کا آغاز کیا اور اسی کالج کی پرنسپل کی حیثیت سے سبکدوش ہوئیں۔ سیاسیات ان کا سبجیکٹ، اپنے وقت کی بہترین مقررہ رہی ہیں، چنانچہ کالج میں طالبات کی ہم نصابی سرگرمیوں کی سربراہ رہتے ہوئے طالبات کو مقابلوں کے لیے تیار کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ طلبہ کے تقاریری مقابلوں میں سر سید گرلز کالج کی طالبات نے ہمیشہ نمایاں پوزیشن حاصل کیں۔مجھے اپنے کالج (گورنمنٹ کالج برائے طلبہ، ناظم آباد) میں چند سال طلبہ کی ہم نصابی سرگرمیوں کے سربراہ کا اعزاز حاصل ہوا۔ ان سالوں میں ڈاکٹر فرحت عظیم نے اپنی طالبات کی رہنمائی کی اور تقریری مقابلوں میں شرکت کی اور نمایاں مقام حاصل کیا۔ کتاب کے 432صفحات 27 ابواب پر مشتمل ہیں۔ پہلے اور دوسرے باب میں مصنفہ نے اپنے والد اور والدہ کی زبانی قیام پاکستان کی جدوجہد، قربانیوں کی داستان بیان کی ہے۔اپنے خاندان کے دہلی میں قیام، بھائیوں، بہنوں کی تفصیل کے بعد قیام پاکستان اور ہندوستان سے ہجرت کے دلخراش واقعات کا ذکر کیا ہے۔ پاکستان ہجرت کرنے والے مہاجرین کن کن مشکلات اور اپنی جانوں کو بچاتے ہوئے کس طرح پاکستان پہنچے۔ان کی والدہ نے یہ بھی بتایا کہ وہ خود بھی زندگی اور موت کی کشمکش میں رہیں۔ اپنے سامنے اپنے بھائیوں، بہنوں کو شہید ہوتے دیکھا۔ کئی لاشوں تلے دبی ہوئی ایک رحم دل ہندو خاتون ان کا ہلتا ہاتھ دیکھ کر انہیں اپنے گھر لے گئیں۔ بیٹیوں کی طرح پالنا شروع کردیا مگر جب فوجی مسلمان لڑکیوں کی تلاش میں آئے تو فرحت عظیم کی والدہ اپنے آپ کو ہندو نہ کہہ سکیں۔ بے ساختہ ان کے لبوں پر کلمہ طیبہ جاری ہوگیا اور وہ ایک فوجی کیمپ میں پہنچادی گئیں۔ یہ سب کچھ مصنفہ نے ادبی پیرائے میں اس طرح بیان کیا ہے کہ پڑھنے والے کی آنکھیں نم ہوئے بغیر نہیں رہ سکتیں۔پاکستان ہجرت کے بعد مہاجر بستی میں دو کمروں کے گھر میں رہائش، اپوا اسکول میں داخل ہونا، اسکند رمرزا کا ذکر، ایوب خان اور 1965کی پاک بھارت جنگ، فاطمہ جناح کا ایوب خان کے خلاف الیکشن میں حصہ لینا، الیکشن کی تفصیل، جنگ بندی م تاشقند امن معاہدہ کا ذکر، اسکول میں تقریری مقابلوں میں انعامات حاصل کرنے کا ذکر عمدہ طریقے سے کیا ہے۔چوتھے باب میں ایوب خان کا اقتدار سے علیحدگی اور ریحیٰ خان کا اقتدار، 1970ء انتخابات جس میں عوامی لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی کی پارٹی پوزیشن، مشرقی پاکستان کا مغربی پاکستان سے الگ ہوجانے کی کہانی قرطاس پر بیان کردی۔ پانچواں باب فرحت عظیم کے ایک طالبہ کی حیثیت سے سر سید گرلز کالج میں داخل ہونے کی تفصیل پر مشتمل ہے۔ یہ دور مسیز مختارزمن کے پرنسپل شپ کا تھا۔ کالج میں طلبہ سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا، ہم نصابی سرگرمیوں کی تفصیل، انعامات جیتنے کی تفصیل، اساتذہ کے خوبصورت اور عزت و احترام سے ذکر کیا ہے۔ گیارہویں باب میں 1985ء اپریل کی 15سرسید گرلز کالج کی ایک طالبہ بشریٰ زیدی منی بس میں ٹکر سے جان بحق ہوگئی تھی جس کے بعد پورا کراچی فسادات کی لپیٹ میں آگیا تھا۔ اورنگی ٹاؤن میں پچاس سے زیادہ لوگوں کا ماردیا جانا، پٹھان مہاجر جھگڑے، ایک دوسرے کی بستیوں پر حملے، غرض کراچی افواہوں، عملی مظاہروں، خون خرابے کی لپیٹ میں تھا جس کا ذکر مصنفہ نے تسلسل کے ساتھ اور اچھے پیرائے میں کیا ہے۔ بہت سی یادیں تازہ ہوگئیں۔سندھ پبلک سرو کمیشن کے تحت سیاسیات کی لیکچرر تقرر اور سر سید کالج میں تقرر، یہ دور مسیز کمال کی پرنسپل شپ تھی کہتی ہیں کہ یہ دور بھی ہمارا ہی تھا اس لیے کہ پروگرام منعقد کرنے میں انہیں مکمل آزادی حاصل تھی، اپنے والد صاحب سے دائمی جدائی کا ذکر بہت ہی دکھ اور تکلیف سے کیا ہے۔ وہ فلاحی تنظیم الخدمت سے بھی وابستہ رہے، پندرہواں باب پاکستان کی کہانی ہے۔ پی ایچ ڈی کرنے اور علم سیاسیات پر کتاب کی اشاعت کو انہوں نے اپنا پہلا ہدف قرار دیا ہے۔ اگلے باب میں انہوں نے سچ لکھا کہ ’اہل اختیار ہماری طرح کے انسان نہیں ہوتے‘۔ اپنی بیٹی کی شادی کی روداد خوبصورت الفاظ میں بیان کی ہے۔ بیٹیاں والدین کو بہت پیاری ہوتی ہیں شاید اس لیے کہ جگر کے ان ٹکڑوں کو ایک دن جدا ہونا ہی ہوتا ہے۔ سترہواں باب کا عنوان ہے ’بھٹو آئے تھے سرسید کالج میں‘ بھٹو صاحب کے بعض قریب دوست ناظم آباد اور اس کے اطراف میں سیاسی معاملات میں سرگرم رہے تھے، وہ گورنمنٹ کالج فار مین، ناظم آباد میں بھی بہت آتے رہے تھے۔پروفیسر انیس زیدی کی باغ وبہار شخصی کا ذکر ہے۔سیاسیات مصنفہ کا مضمون ہے چنانچہ سیاست کے حوالے سے چھیڑ چھاڑ جگہ جگہ ملتی ہے۔ اتفاق ہے کہ میں بھی سیاسیات کا طالب علم رہا ہوں، وہی جراثیم ہیں جو سیاسی موضوعات پر کالم نگاری پر مجبور کرتے ہیں۔ وزیر اعظم بے نظیر بھٹو سے ملاقات کا جذباتی ذکر بھی کتاب کا حصہ ہے، شہادت کی تفصیل بھی۔بچے جیسے جیسے بڑے ہوتے ہیں پڑھائی کے بعد اپنے اپنے پیشوں میں مصروف ہوجاتے ہیں، اعلیٰ تعلیم کے لیے وطن سے باہر جانے کی منصوبہ بندی ہوتی ہے اور چلے بھی جاتے ہیں۔ مصنفہ نے اپنے بچوں سے دوری کی کہانی خوب تحریر کی ہے۔ خوشی بھی ہوتی ہے اور بچوں کی جدائی اندر ہی اندر والدین کو بے چین کیے رہتی ہے۔ میں بھی اس کرب سے گزر رہا ہوں اس لیے اس کرب کو محسوس کرسکتا ہوں۔ پرنسپل بننے کی کہانی چوبسویں باب میں بیان کی ہے۔سر سید کالج سے مصنفہ کی وابستگی طویل عرصہ رہی یہی وجہ ہے کہ سرسید کالج کے حوالے سے تمام طرح کے واقعات کا ذکر جگہ جگہ آیا ہے اور بہترین انداز، شائستہ اور ادبی چاشنی کے ساتھ ہوا ہے۔ کتاب واقعی آپ بیتی ہی نہیں بلکہ ایک عہد کی داستان ہے۔ (9نومبر2021)
|