کرائے کی حور

انسان جب خود اپنی ہی اسلامی و اخلاقی اقدار کو پس پشت ڈال کرگمراہی کی راہ کا انتخاب کرے گا تو اُسے دنیا کی کوئی طاقت تباہی و بربادی سے بچا نہیں سکتی ۔برصغیر میں مسلمان تقریباًایک ہزار سال تک ہندوؤں اور دیگر اقوام کے ساتھ رہے تو رفتہ رفتہ ہم نے بہت سی ایسی رسومات شروع کردیں کہ جن کا اسلام سے قطعاً کوئی تعلق نہ تھا ۔ہندوپتھر کی مورتیوں کو بھگوان اور ماتا دیوی بنا کر پوجتے تھے تو مسلمانوں نے بھی ان کی دیکھا دیکھی اپنے مذہبی تہواروں پر انہی کی مانندایسی ایسی چیزیں بنا نا شروع کردیں کہ رہے نام ﷲ کا ۔۔۔ہمارا یہ مزاج بن چکا ہے کہ ہم مسلمانوں کی تباہی و بربادی کا سارا ملبہ یہود و نصاریٰ پر ڈال دیتے ہیں ۔جبکہ بہت ہی خرابیاں ہماری اپنی پیدا کردہ ہے ۔ہماری صفوں میں موجود غیر ملکی ایجنٹ ہماری اسلامی واخلاقی اقدار تباہ کرنے کے درپے ہیں۔

پاکستان بننے سے پہلے برصغیر میں چونکہ مسلمان ، ہندو اور دیگر اقوام اکٹھی رہتی تھیں اس لئے مسلمانوں کی سوچ و فکر پر ہندو کلچرغالب رہا۔اس لیے رسومات کی صورت طرح طرح کی خرافات ہمارے تہواروں میں شامل کی جانے لگیں ۔ اسلام میں تصویر کشی اور بُت پرستی منع ہے اس لیے مذہبی جلوسوں میں تصویر و بت نماء شاہکار شامل کرنا ہرگزجائز نہیں ہوسکتا ۔اس لیے ہمیں ایسی باتوں سے اجتناب کرنا لازم ہے ۔

ایک بات تو حقیقت ہے کہ یہود و نصاریٰ اپنے ناپاک عزائم کو پروان چڑھانے کے لیے مسلم ممالک خاص طور سے پاکستان میں مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو مذہبی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں اپنے اپنے عقیدے کے مطابق مدارس اور مساجد بنانے میں ان کوہر ممکن مالی امداد فراہم کرتے ہیں ۔سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہودونصاریٰ مختلف مذہبی و فلاحی گروپوں کی سپورٹ کیوں کرتے ہیں۔؟اس سوال کا سیدھا سا جواب ہے کہ اسلام دشمن قوتیں اچھی طرح جانتی ہیں کہ مسلمان ایک ذہن و فطین قوم ہے ۔تاریخ کا مشاہدہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دنیا بھرمیں جدید علوم کی آبیاری ،تحقیق و جستجو،اور ایجادات مسلم سائنسدانوں کی کاوشوں کا ثمرتھیں ۔اس لئے یہود ونصاریٰ کا ان گروپوں کی سپورٹ کا مقصد یہی ہے کہ مسلمانوں کو جدید علوم اور ٹیکنالوجی سے دور رکھا جائے اور انہیں مذہبی تفرقہ بازی میں الجھایا کر رکھ دیا جائے ۔ اور ان کے پرورددہ عناصر ملک میں کسی صورت امن و استحکام پیدا نہ ہونے دیں ۔انہی مقاصد کے تحت مسلمانوں کو ہر دو چار ماہ بعد کوئی نہ کوئی ایشو دے دیا جاتا ہے ۔جس کو بنیاد بنا کرپاکستان میں جلسے ، جلوسوں اور احتجا ج کا سلسلہ شروع کردیا جاتا ہے ۔جس کی وجہ سے ملکی معیشت کو شدید دھچکا لگتا ہے ۔نظام زندگی معطل وہ کر رہ جاتا ہے ۔اور ہم اس بات کا خوش ہوتے ہیں کہ ہم نے اسلام کا بول بالا کیا ہے ۔

یوں تو مذہبی تہواروں پر بے شمار خرافات دیکھنے میں آتی ہیں لیکن امسال جشن عید میلاد النبی ؐ کے موقع پر ملتان شہر میں ایک ایسا کام کیا گیا ہے کہ جس سے مسلمانوں کے سر شرم سے جھک گئے ہیں ۔میلاد ؐکے جلوس میں ایک دوشیزہ کو سجا سنوار کرحور پری کے روپ میں شریک کیا گیا ہے ۔جس کے بعد حسب عادت اس دوشیزہ کی وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کرکے یہ تاثر دیا گیا ہے کہ ملتان میں آسمان سے اتری ہوئی ایک ’’حور‘‘(پری)نے بھی شرکت کی ہے ۔یوں ہردوسرے شخص نے اس ’’حور‘‘کا دیدار کارِ ثواب سمجھ کر کیا ۔اسی طرح کچھ اور وڈیوز بھی وائرل کی گئی ہے کہ جن میں خواتین اور خواجہ سرا انتہائی بیہودہ انداز میں رقص کرتے دکھائے گئے ہیں ۔اس وڈیوکو ہر دوسرا شخص کارثواب کے طور پر وائرل کررہا ہے کچھ لوگ اس کے ساتھ احتجاجی کلمات بھی لکھ رہے ہیں اور حکومت سے اس کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔اس حرکت کا سب سے زیادہ قصور وار تو اس دوشیزہ کا باپ ہے کہ جس نے اپنی بیٹی کو یوں جلوس میں شرکت کی اجازت دی ۔اس کے بعد جلوس کے منتظمین اور مقامی انتظامیہ اس جرم کی سزا وار ہے کہ جس نے اس’ ’حور ‘‘کو جلوس میں شرکت سے روکا نہیں ۔لگتا ہے کہ ہم بے حسی کی اس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ جہاں ہمیں اپنی بہو بیٹیوں کی عزت کا بھی پاس نہیں رہا ۔جبکہ ہم اپنی اس حرکت پر اﷲ اور اس کے رسول ؐ کے مجرم ہیں ۔کیونکہ ہم نے یہ حرکت کرکے اسلامی تعلیمات کا مذاق اڑایا ہے اور اپنے پیارے نبی ؐ کی روح کو اذیت پہنچائی ہے ۔ملتان والوں کا یہ عمل کسی طور بھی دین اسلام کے شایان شان نہیں ۔اطلاعات کے مطابق دوشیزہ کو اس کام کیلئے باقاعدہ 30ہزار روپے کا معاوضہ طے کر کے لایا گیا تھا ۔معاہدے کے تحت دوشیزہ کو 10ہزار روپے ایڈوانس دیاگیا جبکہ باقی رقم پروگرام ختم ہونے کے بعد دئیے جانے کی یقین دہانی کروائی گئی تھی ۔لیکن جلوس ختم ہونے کے بعددوشیزہ کو مزید 3ہزار روپے ہی ادا کئے گئے ۔پوری رقم نہ دینے کی وجہ سے دوشیزہ نے تھانے میں درخواست دے دی ہے کہ اسے معاہدے کے مطابق ساری رقم کی ادائیگی نہیں کی گئی ۔یوں باقی17ہزار روپے دبا لئے گئے ہیں ۔گویا لوگوں نے اپنی ذہنیت کے مطابق ’’حور ‘‘کو بھی معاف نہیں کیا ۔

غیر محرموں سے پردے کے حوالے سے ہمیں حضور نبی کریم ؐ کے اس فرمان کو ہرگز نہیں بھولنا چاہئے کہ جس میں آپ ؐ نے اپنی پیاری بیٹی حضرت بی بی فاطمہ ؓ کوایک نابینا صحابی سے بھی پردہ کرنے کی تلقین فرمائی تھی ،نبی کریم ؐ اور حضرت بی بی فاطمہ ؓ کی اس واقعہ میں گفتگو سے ثابت ہوتاہے کہ اسلام میں پردے کی کس قدر اہمیت ہے۔ یہ واقعہ ہماری بہو بیٹیوں کے لیے ایک مثال ہے کہ غیر محرم اگر نابینا بھی ہو تو اس سے پردہ کرنا لازم ہے ۔پردہ داری کے حوالے سے ہمیں حضرت بی بی فاطمہ ؓ کا وہ فرمان بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ جس میں آپ ؓ نے کہا تھا کہ میری تدفین بھی رات کے وقت کی جائے تاکہ کوئی نامحرم میرا جنازہ بھی نہ دیکھ پائے۔

نابینا سے پردہ اور رات کی تاریکی میں عورت کی تدفین کے حوالے سے فرمان کی روشنی میں ملتان والے اگر اپنے عمل کا جائزہ لیں تو ان کا یہ جرم معافی کے قابل نہیں ۔ظاہر ہے ایک دوشیزہ کو بنا سنوار کر جب کسی بھی ہجوم میں لایا جائے گا تو اسے جو بھی دیکھے گا،بُری نظر سے ہی دیکھے گا ۔ابھی حال ہی میں گرئیٹر اقبال پارک لاہور میں عائشہ اکرم نامی ٹک ٹاکر خاتون سے ہونے والی بیحرمتی کا واقعہ لوگوں کو نہیں بھولا ۔اس واقعہ سے خاتون کی اب تک جتنی تذلیل ہو چکی ہے ۔وہ اس کے لئے ڈوب مرنے کا مقام ہے ۔خدانخواستہ ملتان میں اس’’ حور پری‘‘ کے ساتھ کوئی انہونی ہوجاتی تو اس کا ذمہ دار کون ہوتا ۔۔؟
یہ بات خوش آئند ہے کہ ہماری قوم میں ابھی غیرت مری نہیں ،ہمارے نوجوان ابھی اتنے بے غیرت بھی نہیں ہوئے کہ یوں کسی لڑکی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کریں ۔لیکن بزرگوں کا کہنا ہے کہ مصیبت بتا کر نہیں آتی ۔یہ تو اﷲ کا خاص کرم رہا کہ یہ ’’حور ‘‘ بغیر کسی انہونی کے اپنے گھر لوٹ گئی ۔لیکن اگر کچھ ہوجاتا تو وہ بیچاری ساری زندگی کرب و الم میں گذار دیتی ۔کسی نے اس کی خبر گیری بھی نہیں کرنا تھی ۔
کسی بھی عورت کی عزت ’’حیا ‘‘میں پوشیدہ ہے ۔بننا سنورنا بھی گھر کی چاردیواری میں صرف شوہر کیلئے ہی اچھا لگتا ہے ۔خواتین کو زرق برق لباس پہن کر اور خوشبوئیں لگا کر بازاروں اور محافل میں غیر محرموں کے سامنے آنے کی اسلام کہیں اجازت نہیں دیتا ،خدشہ ہے کہ قوم کی دیگر بچیاں بھی اس ایک واقعہ کوبنیاد بنا کر آئندہ (اﷲ نہ کرے) ٹولیوں کی شکل میں میلاد ؐکے جلوسوں میں شرکت کرنے لگیں ۔۔پھر میلاد ؐکے جلوس میں کسی دوشیزہ کو’’حور ‘‘بنا کر پیش کرنا اخلاقی دیوالیہ پن کے سوا کچھ نہیں ۔یہ واقعہ پاکستان کی تاریخ میں اپنی نوعیت کاپہلا واقعہ ہے ۔ جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے ۔یہ بھی ایک المیہ ہے کہ اس واقعہ کو گذرے کافی روز ہو گئے مگر کسی بھی حکومتی شخصیت نے اس کا ابھی تک نوٹس نہیں لیا ہے ۔وزیراعظم عمران خان و دیگر ذمہ داران کو اس بات کا سخت نوٹس لینا چاہئے ۔کیونکہ ابھی سے اگر اس روش اور سوچ وفکر کی حوصلہ شکنی نہ کی گئی تو آئندہ اس قسم کی ’’حوروں‘‘کی تعداد 72سے بھی تجاوز کر سکتی ہے ۔۔ضرورت اس امر کی ہے کہ واقعہ کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی جائے ۔سوشل میڈیا سے اس قسم کی وڈیوز ختم کی جائیں اور آئندہ کے لیے ایسے اقدامات اٹھائے جائیں کہ کسی کو بھی ایسا کرنے کی جرات نہ ہو ۔
 

syed arif saeed bukhari
About the Author: syed arif saeed bukhari Read More Articles by syed arif saeed bukhari: 126 Articles with 130355 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.