#العلمAlilm علمُ الکتابسُورَةُالاَحزاب ، اٰیت 28 تا 30 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
یٰایھاالنبی
قل ازواجک ان کنتن
تردن الحیٰوة الدنیا وزینتھا
فتعالین امتعکن واسرحکن سراحا
جمیلا 28 وان کنتن تردن اللہ ورسوله و
الدار الاٰخرة فان اللہ اعد للمحسنٰت منکن اجرا
عظیما 29 یٰنساء النبی من یات منکن بفاحشة مبینة
یضٰعف لھاالعذاب ضعفین وکان ذٰلک علی اللہ یسیرا 30
اے ھمارے خبردار رسُول ! آپ نے جنگِ احزاب سے پہلے اور جنگِ احزاب کے بعد
جس طرح قُرآنی معاشرے کے مردوں کی علمی و عملی تربیت کی ھے اسی طرح جنگِ
احزاب کے بعد آپ قُرآنی معاشرے کی عورتوں کی علمی و عملی تربیت کا بھی
اہتمام کریں اور اِس علمی و عملی تربیت کا اپنے گھر سے آغاز کرتے ہوۓ سب سے
پہلے تو آپ اپنی بیویوں کو اِس اَمر کا اختیار دیں کہ وہ آپ کے مقاصدِ نبوت
کی تکمیل کے لیۓ آپ کے ساتھ رہ کر وہ آزمائش بھری وہ زندگی گزارنا چاہتی
ہیں جو آپ کے ساتھ گزار رہی ہیں یا وہ آپ کے اِن عظیم مقاصدِ نبوت سے الگ
ہو کر وہ آسائش بھری زندگی گزارنا چاہتی ہیں جو اِس وقت آپ کے گھر میں اُن
کو مُیسر نہیں ھے ، اگر آپ کی بیویاں اِس آزمائش بھری کی زندگی پر ایک
آسائش بھری زندگی کو ترجیح دینا چاہتی ہیں تو آپ اُن سے کہہ دیں کہ میں تُم
کو مناسب سامانِ زندگی دے کر اِس معاشرتی بندھن سے آزاد کردیتا ہوں جس
معاشرتی بندھن میں رہ کر تُم یہ مُشکل بھری کی زندگی گزار رہی ہو اور آپ
اپنی اِن بیویوں کو ھمارا یہ پیغام بھی سُنا دیں کہ اگر تُمہارا اللہ و
رسُول اور یومِ آخرت پر ایمان و یقین پُختہ ہو چکا ھے اور تُم ھمارے رسُول
کے مقاصدِ نبوت میں اُس کی شریکِ مقاصد بیویاں بن کر ھمارے رسُول کا ساتھ
دینا پسند کرو گی تو ھم تمہیں تُمہارے اِس حُسنِ عمل کا دُنیا و آخرت دونوں
میں دُہرا اجر دیں گے اور اگر تُم قُرآن کے اِن آزادانہ اَحکام کا آزادانہ
انکار کروگی تو اِس انکار کی تمہیں سزا بھی دُہری دی جاۓ گی !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اَقوامِ عالَم کے اکثر مُحاربے اکثر اَقوام کے لیۓ اکثر ہی اپنے جلو میں
عشرت و خوش حالی کے بجاۓ عُسرت و بد حالی کا پیغام لے کر آتے ہیں لیکن کبھی
کبھی اَقوامِ عالَم کے یہ مُحاربے کسی قوم کے لیۓ اپنے جلو میں عُسرت و بد
حالی کے بجاۓ عشرت و خوش حالی کا پیغام بھی لے آتے ہیں اور مُحاربہِ اَحزاب
بھی ایک ایسا ہی مُحاربہ تھا جو قُرآن کی اُس پہلی قُرآنی حکومت کے لیۓ
عسرت و بد حالی کا کوئی بُرا پیغام لانے کے بجاۓ عشرت و خوش حالی کا وہ
اَچھا اَنجام لے کر آگیا تھا کہ جس کو دیکھ کر قُرآن کی اُس قُرآنی حکومت
کو بھی اپنے اہلِ ریاست کا معیارِ زندگی پہلے سے کہیں زیادہ بہتر و بلند
ہوتا نظر آنے لگا تھا لیکن یہ بھی ایک مُسلمہ حقیقت ھے کہ جس جنگ کے بعد
جہاں پر جتنی زیادہ آسائش آتی ھے وہاں پر اتنی ہی آزمائش بھی زیادہ آتی ھے
اور قُرآنی حکومت پر آنے والی اِس آسائش کے بعد سب سے پہلے جس ہستی کو جس
بڑی آزمائش سے گزرنا تھا وہ سیدنا محمد علیہ السلام کی وہ ہستی تھی جس ہستی
نے خوش حالی کے اِس ماحول سے کوئی معاشی فائدہ اُٹھا نے کے بجاۓ اپنا وہی
سادہ معیارِ زندگی برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا تھا جو اِس سے پہلے آپ کے گھر
میں موجُود تھا لیکن آپ کے اہلِ خانہ پر تو اللہ تعالٰی کی وہ وحیِ تسکین
نازل نہیں ہوتی تھی جو وحیِ تسکین آپ پر نازل ہوتی تھی اِس لیۓ بدلے ہوۓ
اِن حالات میں آپ کے اہلِ خانہ بھی قُدرتی طور پر اُن معاشی آسائشوں سے فیض
یاب ہونے کے مُتمنی ہو سکتے تھے جن معاشی آسائشوں سے دُوسرے اہلِ ریاست فیض
یاب ہونے لگے تھے اور اللہ تعالٰی نے اپنے رسُول کی اِس آسو دہ قلبی کا
خیال رکھتے ہوۓ آپ کے اہلِ خانہ کی تسکینِ قلبی کے لیۓ بھی وہ خاص اَحکام
صادر فرماۓ تھے جو خاص اَحکام اٰیاتِ بالا میں بیان ہوۓ ہیں کیونکہ سیدنا
محمد علیہ السلام کا گھرانہ کوئی ایسا عام گھرانہ نہیں تھا کہ اُس کو اُس
کے حال پر چھوڑ دیا جاتا بلکہ آپ کا گھرانہ تو وہ خاص گھرانہ تھا جس نے
مقاصدِ نبوت کی تکمیل میں آپ کا ساتھ دینا تھا اور اِن مقاصد کی تکمیل کے
لیۓ اُس گھرانے میں شوہر و بیوی کے درمیان اُس خاص ذہنی و قلبی ہم آہنگی کا
ہونا بھی ضروری تھا جو ذہنی و قلبی ہم آہنگی مقاصدِ نبوت کی تکمیل کے لیۓ
ایک اَمرِ لازم ہوتی ھے اِس لیۓ اللہ تعالٰی کے مُحوّلہ بالا حُکم میں
سیدنا محمد علیہ السلام کی بیویوں کو اِس فیصلے کا اختیار دے دیا گیا کہ وہ
چاہیں تو اپنے شوہر و نبی کے مقاصدِ نبوت کی تکمیل کے لیۓ اسی آزمائش کی
زندگی میں رہتے ہوۓ اپنے شوہر کا ساتھ دیں اور چاہیں تو اِس مُشکل زندگی کو
تَج دینے کا فیصلہ کرلیں تاکہ قُرآن کے قانُون کے مطابق اُن کو اُن کا
مناسب حق دے کر عزت کے ساتھ رُخصت کردیا جاۓ لیکن اٰیاتِ بالا میں ایسا
کوئی بھی اشارہ موجُود نہیں ھے کہ جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہو کہ آپ کی
بیویوں میں سے کسی بھی بیوی نے اپنی آسائش و آزمائش کے اِس حُکم کے بعد
آسائش کو ترجیحی دیتے ہوۓ نبی علیہ السلام کی رفاقت سے الگ ہونے کا فیصلہ
کیا ہو جس کا مطلب یہ ھے کہ انہوں نے دُنیا کی آسائش پر دُنیا و آخرت دونوں
میں نبی علیہ السلام کی رفاقت کو ترجیح دی تھی اور اپنا قانونی حق لے کر
نبی علیہ السلام کے گھر سے رُخصت ہونے کے بجاۓ نبی علیہ السلام کے اُسی گھر
میں اُسی عُسرت کے ساتھ رہنا قبول کیا تھا جو عُسرت اُس وقت آپ کے اُس گھر
میں موجُود تھی لیکن اہلِ روایت کو نبی علیہ السلام کی بیویوں کا یہ
مومنانہ فیصلہ پسند نہیں آیا تھا اِس لیۓ انہوں نے اپنی روایاتِ باطلہ کے
ذریعے اٰیاتِ بالا کی یہ باطل شانِ نزول وضع کی ھے کہ جنگِ احزاب کے بعد جب
مدینے کی قُرآنی حکومت پر خوش حالی کا زمانہ آیا تھا تو نبی علیہ السلام کی
بیویوں نے بھی آپ سے اپنا نان و نفقہ بڑھانے کا مطالبہ کر دیا تھا جس کے
بعد اُن کے لیۓ اللہ تعالٰی کا یہ فیصلہ کُن حُکم آیا تھا کہ تُم اللہ
تعالٰی کے نبی ساتھ رہنا چاہتی ہو تو بخوشی رہو ، نہیں رہنا چاہتی ہو اپنا
حق مہر لے کر رُخصت ہو جاؤ چنانچہ اہلِ روایت کے روایتی سرخیل مولانا سید
ابوالاعلٰی مودودی مرحوم اپنے تفسیر تفہیم القرآن میں اُن روایتِ باطلہ کو
اِس طرح نقل کرتے ہیں کہ { صحیح مسلم میں حضرت جابر بن عبداللہ اُس زمانے
کا یہ واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز حضرت ابو بکر اور حضرت عمر حضور کی
خدمت میں حاضر ہوۓ اور دیکھا کہ آپ کی ازواج آپ کے گرد بیٹھی ہیں اور آپ
خاموش ہیں ، آپ نے حضرت عمر کو خطاب کر کے فرمایا کہ " ھن کماترٰی یسئلنی
النفقة" یہ میرے گرد بیٹھی ہیں جیساکہ تم دیکھ رھے ہو ، یہ مجھ سے خرچ کے
لیۓ روپیہ مانگ رہی ہیں ، اس پر دونوں صاحبوں نے اپنی اپنی بیٹیوں کو ڈانٹا
اور ان سے کہا کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تنگ کرتی ہو اور وہ
چیز مانگتی ہو جو آپ کے پاس نہیں ھے ، اس واقعہ سے معلوم ہوتا ھے کہ حضور
اس وقت کسی مالی مشکلات میں مبتلا تھے اور کفر و اسلام کی شدید کشمکش کے
زمانے میں خرچ کے لیۓ ازواج مطہرات کے تقاضے مزاج مبارک پر کیا اثر ڈال رھے
تھے } مولانا مودودی مرحوم مزید لکھتے ہیں کہ { اِس آیت کے نزول کے وقت
حضور کے نکاح میں چار بیویاں تھیں ، حضرت سودہ ، حضرت عائشہ ، حضرت حفصہ
اور حضرت ام سلمہ ، ابھی حضرت زینب سے نکاح نہیں ہوا تھا ، جب یہ آیت نازل
ہوئی تو آپ نے سب سے پہلے حضرت عائشہ سے گفتگو کی اور فرمایا " میں تم سے
ایک بات کہتا ہوں ، جواب دینے میں جلدی نہ کرنا ، اپنے والدین کی راۓ لے لو
، پھر فیصلہ کرو ، پھر حضور نے اُن کو بتایا کہ اللہ تعالٰی کی طرف سے یہ
حکم آیا ھے اور آیت ان کو سنادی ، انہوں نے عرض کیا ، کیا اس معاملے کو میں
اپنے والدین سے پوچھوں ؟ میں تو اللہ اور اس کے رسول اور دار آخرت کو چاہتی
ہوں ، اس کے بعد حضور باقی ازواجِ مطہرات میں سے ایک ایک کے ہاں گۓ اور ہر
ایک سے یہی بات فرمائی اور ہر ایک نے وہی جواب دیا جو حضرت عائشہ نے دیا
تھا } عُلماۓ روایت کی اس شانِ نزول پر جو سوالات وارد ہوتے ہیں ہم اُن
سوالات کو طوالتِ کلامی سے بچنے کے خیال سے نظر انداز کرتے ہیں لیکن یہ عرض
کرنا شاید بر وقت اور بر محل ہوگا کہ عُلماۓ روایت نبی علیہ السلام کے بیتِ
نبوت کو ایک بیتِ ازواج ثابت کرنے کے اتنے دلدادہ ہیں کہ مولانا مودودی نے
آپ کی اِن چار ازواج کے ذکرکے ساتھ آپ کی بیویوں کی تعداد بڑھانے کے لیۓ آپ
کی اُس پاچویں بیوی زینب کا ذکر کرنا بھی ضروری سمجھا ھے جو اس وقت تک آپ
کے نکاح میں نہیں آئی تھی ، غالبا اِس ذکر سے اُن کی غرض یہ ظاہر کرنا ہو
کہ جس مُشکل وقت میں آپ کے مالی اَسباب آپ کی چار بیویوں کے اخراجات کے
متحمل بھی نہیں ہو سکتے تھے اُس مُشکل وقت میں آپ پانچویں بیوی بھی بیاہ کر
لانے کا فیصلہ کر چکے تھے کیونکہ عُلماۓ روایت کا آپ کی بیویوں کی تعداد کی
آڑ میں آپ پر زبان درازی کرنا اُن کی وہ مردود عادت ھے جس مردُود عادت کا
وہ جابجا اظہار کرتے رہتے ہیں اور اُن کی اِس کی مردُود عادت کی ایک مثال
نبی علیہ السلام کی وہ چوتھی بیوی اُمِ سلمہ ہیں جن کا مولانا مودودہ نے
اُس وقت آپ کی چار موجُود بیویوں میں سے چوتھی بیوی کے طور پر ذکر کیا ھے
اور سننِ نسائی شریف کے جامع امام عبدالرحمٰن احمد بن شعیب نسائی متوفٰی
303 ھجری نے اپنی کتاب سننِ نسائی کے باب 1639 میں "بیٹے کا والدہ کو کسی
کے نکاح میں دینے" کے ایک جلی عنوان کے ساتھ آپ کی اُسی بیوی اُمِ سلمة کا
حدیث 3259 میں آپ کے ساتھ ہونے والے نکاح کا یہ اَحوال درج کیا ھے کہ { عن
اُمِ سلمة لما انقضت عدتھا بعث الیھا ابو بکر یخطبھا علیه فلم تزوجه فبعث
الیھا رسول اللہ ﷺ عمر بن الخطاب یخطبھا علیه فقالت اخبر رسول اللہ ﷺ انی
امراة غیری وانی امراة مصیبة ولیس احد من اولیائی شاھد فاتی رسول اللہ ﷺ
فذکر ذٰلک له فقال ارجع الیھا فقل لھا اما قولک انی امراة غیری فسادعو اللہ
لک فیذھب غیرتک واما قولک انی امراة مصیبة فتستکفین صبیانک واما قولک ان
لیس احد من اولیائی شاھد فلیس احد من اولیائک شاھد ولا غائب یکره ذٰلک
فقالت لابنھا یا عمر قم فزوج رسول اللہ ﷺ فزوجه مختصرا } اِس حدیث کا جن دو
بزرگ علماۓ کرام نے ترجمہ کیا ھے اُن میں پہلے بزرگ عالم مولانا خورشید حسن
قاسمی اور دُوسرے بزرگ عالم حافظ محبوب احمد خان ہیں جنہوں نے اپنی مُشترکہ
کاوش سے اس حدیث کا یہ ترجمہ کیا ھے کہ { ام سلمة فرماتی ہیں کہ جس وقت
میری عدت مکمل ہوگئی تو حضرت ابو بکر کی جانب سے نکاح کا پیغام آیا جس کو
میں نے قبول نہیں کیا ، پھر حضرت رسول کریم نے عمرانہ کو نکاح کا پیغام دے
کر روانہ فرمایا تو انہوں نے عرض کیا کہ حضرت رسول کریم کی خدمت میں عرض
کرلو کہ میں ایک غیرت مند خاتون ہوں ، میرے بچے بھی ہیں اور پھر اس وقت
میرے اولیاء میں سے بھی یہاں پر کوئی شخص موجود نہیں ھے چنانچہ حضرت عمر بن
خطاب اقدس میں حاضر ہوۓ اور آپ ﷺ کے سامنے بیان کردیا ، آپ ﷺ نے فرمایا ان
سے کہدو کہ جہاں تک تمہاری اس بات کا تعلق ھے کہ میں غیرت دار خاتون ہوں تو
میں خدا وندِ قدوس سے دعا مانگوں گا کہ وہ تُمہاری اس غیرت ( یعنی آفت ) کو
ختم فرمادیں ، جہاں تک تمہاری اس بات کا تعلق ھے کہ میں بچوں والی خاتون
ہوں تو ( خدا وند قدوس ) تمہاری اور تمہارے بچوں کی کفالت کے واسطے کافی
ہیں ، پھر جہاں تک تمہاری اس بات کا تعلق ھے کہ میرے اولیاء میں سے کوئی
موجود نہیں تو حقیقت یہ ھے کہ ان میں سے موجود اور غیر موجود لوگوں میں سے
کوئی بھی اس قسم کا نہیں ھے کہ اس بات کو پسند نہیں کرتا ، اس بات پر انہوں
نے اپنے لڑکے حضرت عمر سے کہا کہ اے عمر اٹھ جاؤ اور مجھ کو حضرت رسول کریم
ﷺ کے نکاح میں دے دو ، اس طریقہ سے انہوں نے اپنی والدہ صاحبہ کا نکاح حضرت
رسول کریم ﷺ سے فرما دیا ، یہ حدیث مُختصر طریقہ سے بیان کی گئی ھے } نسائی
شریف کی اِس شریف حدیث پر ایک شریف مسلمان آخر کیا تبصرہ کرسکتا ھے کہ جس
حدیث میں اس امامِ حدیث نے یہ ثابت کیا ھے کہ عمر بن خطاب کی بیٹی حفصہ تو
پہلے ہی نبی اکرم علیہ السلام کے نکاح میں موجُود تھی لیکن آپ نے اِس پر
اکتفا کرنے کے بجاۓ اپنے سُسر عمر بن خطاب کی والدہ سے بھی نکاح کر لیا {
نعوذ باللہ من ذٰلک } یاد رھے کہ امام نسائی کی یہ کتاب اس ترجمے کے ساتھ
دُنیا کی کوئی نایاب کتاب نہیں ھے جو دست یا نہ ہو بلکہ یہ پاکستان کے درجن
بھر کتب خانوں سے بہت آسانی کے ساتھ دست یاب ہوجانے والی کتاب ھے لیکن بقول
شخصے کہ ؏
ہم ایسی ہر کتاب کو قابلِ ضبطی سمجھتے ہیں
جسے پڑھ کر بچے ماں باپ کو خبطی سمجھتے
|