ایک روز دفتر سے گھر آتے ہوئے ہماری موٹر سائیکل چلتے
چلتے تین ہٹی کے پل پربند ہوگئی،کافی دیر تک اسٹارٹ کرنے کی کوشش کی لیکن
ککیں لگانے کے باوجود اسٹارٹ نہیں ہوئی۔ ہم اسے کھینچتے ہوئے لالوکھیت سی
ایریا لے کر آئے جہاں ایک مکینک کی دکان نظر آئی۔ ہم نے اپنی بائیک وہاں
لے جا کر کھڑی کردی اور اسے اپنا مسئلہ بتایا۔ مکینک کی دکان پر کافی رش
تھا۔ اس نے ہم سے کہا ،’’جناب آپ کو انتظار کرنا پڑے گا، میں ان لوگوں کا
کام نمٹا دوں ، پھر آپ کی گاڑی دیکھوں گا۔‘‘ ہم نے اِدھر اُدھر نظر دوڑائی
لیکن اس علاقے میں مکنیک کی یہ واحد دکان تھی ، اس لیے ہم صبر شکر کرکے
وہیں ایک بینچ پر بیٹھ گئے۔ تقریباً ایک گھنٹے کے انتظار کے بعد ہمارا نمبر
آیا۔ مکینک نے پلگ ، کھول کر اسے صاف کیا اور گاڑی اسٹارٹ کرنے کی کوشش کی
لیکن اس کا انجن نہیں جاگا۔ اس نے بتایا کہ ،’’ صاحب آپ کی بائیک کی
ٹیوننگ کرنا پڑے گی، اس کے بغیر کام نہیں چلے گا‘‘۔ ہم نے کہا، ’’بھائی
کردیں لیکن ذرا جلدی ،کیوں کہ ہمیںبہت دور جانا ہے‘‘۔ مکینک نے میگنٹ
کوراور سلینڈر کاہیڈ کورکھولا ۔ شام کے سائے گہرے ہوتے جارہے تھے اوررات کا
اندھیر اغالب آرہا تھا۔۔ ہمارا گھر یہاں سے تقریباً 18کلومیٹر کے فاصلے پر
نارتھ کراچی میں تھا اس لیے ہمیں ایک ایک پل بھاری پڑ رہا تھا۔ ابھی مکینک
نے کام شروع ہی کیا تھاکہ ایک بڑے میاں بغیر لائٹ کی موٹر سائیکل دوڑاتے
ہوئے وہاں آگئے اور گھبرائے ہوئے انداز میں مکینک سے مخاطب ہوتے ہوئے بولے،
’’ابے للّو ، جرا جلدی سے میری پھٹ پھٹی دیکھ لے، وس کی لیل ٹین نہیں جل
رہی، چمنی بھی کالی پڑ گئی ہے، لیل ٹین ٹھیک جلادے اور چمنی بھی بدل
دے۔‘‘مکینک نے ان کے انداز تخاطب پر غصے سے ان کی طرف دیکھا اور کہا:’’بڑے
صاحب، پہلے ان بھائی صاحب کی گاڑی ٹھیک کردوں، پھر تمہاری پھٹ پھٹی بھی
دیکھ لوں گا‘‘۔ بڑے میاں یہ سن کر خوش آمدانہ انداز میں ہم سے بولے،
’’بٹوا، تم ہی اس سے کہہ دو، میرے لمڈے کی جانگ کی ہڈی کھسک گئی ہے، اسے
ڈسپنسری لے کر جانا ہے، ڈاکٹر اس کی پھوٹو کھینچے گا‘‘‘۔ ان بزرگوار کی بات
سن کر ہم شش و پنج میں پڑ گئے کہ، فوٹو کھینچ کے علاج کرنےکا کون سا
نیاطریقہ ایجاد ہوا ہے؟۔اپنی معلومات میں اضافے کے لیے ہم نے ان سے پوچھا،
’’بڑے صاحب، کیا اس ڈسپنسری میں فوٹو کھینچ کر علاج کیا جاتا ہے‘‘؟ بڑے
صاحب نے ہماری طرف مضحکہ خیز نظروں سے دیکھا اور بولے ، ’’ میاں بھیئے، تو
بھی نراجاہل ہے، ارے، واں میرے لمڈے کو لمبی سی میز پر لٹائیں گے، بڑی بڑی
بتیوں کے نیچے، پھر ’’پھوٹوگراپھر‘‘بھیابٹن دبا کر پھوٹو کھینچے گا‘‘۔ میں
نے مکینک سے کہا کہ ’’بھائی پہلے ان صاحب کی لائٹ ٹھیک کردو، انہیں
ایمرجنسی ہے‘‘۔ میری سفارش پر مکینک نے بڑے میاں سے پوچھا، ’’چچا، اگلی بتی
صحیح کروں یا پچھلی‘‘؟۔ بڑے میاں نے مکینک کو غصے سے دیکھا پھر بولے’’ اماں
للّو،تو بھی نرا گنوار نکلا، ابے پیچھے جو سرخ بتی لگی ہے، وہ ویسی ہی ہوتی
ہے جیسی دپھتروں میں بڑے صاب کے کمرے کے باہر لگی ہوتی ہے، وس کا مطبل ہوتا
ہے، میں کام کرریا ہوں، پریسان مس کریو‘‘۔’’ پھٹ پھٹی کے پیچھے بھی سرخ بتی
اسی لیےہوتی ہےکہ پیچھے آنے والے ڈریور کو پتہ چل جائے کہ چاچا،پھٹ پھٹی
چلا ریا ہے ہیں، وس کو پریسان نہیں کرنا ہے‘‘۔ ’’ابے ہینڈل پرجو لیل ٹین
لگی ہے اسے ٹھیک کردے،وس سے سڑک پر اجالا ہوجائے گا‘‘۔ مکینک نے ہیڈ لائٹ
کھولی وہاں بلب وغیرہ ٹھیک تھے لیکن کرنٹ نہیں آرہا تھا۔ اس نے بیٹری کا
کور کھولا ، وہاں سے تار نکلے ہوئے تھے، اس نے انہیں جوڑا، لائٹ جلنے لگی۔
بڑے میاں نے خالی بیٹھا دیکھ کرہماری طرف دس کا نوٹ بڑھاتے ہوئے کہا، ’’ابے
منوا، جرا دوڑ کر جائیو اور نکڑ کی دکان سے ڈبل پتی ، ساہ جادی کا پان تو
لے آئیو‘‘۔ والدین نے ہمیں’’ بچپن‘‘ سے ہی بزرگوں کا احترام کرنا سکھایا
تھا جو ہمیں’’پچپن سال کی عمر ‘‘ میں بھی یاد تھا، اس لیے بزرگوار کا حکم
بجا لانے کے لیے دوڑے دوڑے پان کی دکان پر گئے اوران کا فرمائشی پان لا کر
انہیںپیش کیا۔ پا ن کا بیڑا چباتے ہوئے بڑے صاحب مکینک سے مخاطب ہوئے،
’’ابے للّو، پھٹ پھٹی کے کواڑ کوجرا جور سے بند کردیجیو، کہیں رستے میںکھل
جائے‘‘۔ کواڑ سے ان کی مراد سائیڈ کور تھا۔ مکینک نے سائیڈ کور لگا کرہیڈ
لائٹ کا شیشہ تبدیل کیا اوربڑے صاحب سے اس سارے کام کے 200روپے طلب کیے۔
200روپے کا نام سن کروہ تاؤ کھاتے ہوئے بولے، ابے للّو، کہیں گھاس تو نہیں
کھاگیا، اتّے سے کام کے 200روپیہ، میں تجھے 100 روپے سے ایک دمڑی بھی جیادہ
نہیں دوں گا‘‘۔ انہوں نے بائیک اسٹارٹ کی اور سے بولے، ابے وس کا تو بھونپو
بھی نہیں بج ریا ہے، چل ابھی میں لیٹ ہوریا ہوں، کل آکر ٹھیک کراؤں گا
وسے بھی۔ انہوں نے مکینک کی طرف 100 روپے پھینکے اور اپنی پھٹ پھٹی کی لیل
ٹین کے اجالے میں ، پھٹ پھٹ کرتے چلے گئے۔اتنے میں دکان پر کام کرنے والا
لڑکا چائے لے آیا اور مکینک غصے میں تاؤ کھاتے ہوئےچائے پینے لگا۔
بڑے میاں مکینک کو بار بار للو کے نام سے مخاطب کررہے تھے، اس لیے ہم بھی
اسے للو ہی سمجھے تھے ۔ کیوں کہ ہمیں پہلے ہی کافی دیر ہوگئی تھی، اس لیے
ڈرتے ڈرتے مکینک سے خوش آمدانہ انداز میں کہا، ’’للو بھائی، میری گاڑی
جلدی سے ٹھیک کردیں، مجھے بہت دور جانا ہے‘‘۔ ہماری درد بھری فریاد سن کر
مکینک نے بجائے رحم کھانے کے، ہمیں پھاڑکھانے والی نظروں سے دیکھا اور
بولا،’ اب تم بھی للو کہو گے، وہ بڈھا تو سٹھیایا ہوا تھا جو بار بارمجھے
للو کہہ رہا تھا،یہ کہہ کو اس نے سلینڈر اور میگنٹ کور اٹھا کر ہمارے ہاتھ
میں پکڑائے اور غصے سے بولا، ،’’منوا، اب تو اپنی گاڑی کہیں اورلے جاکے
ٹھیک کرالے‘‘۔ ہم نے مکینک کی بہت خوش آمد کی لیکن اس نے ہماری ایک نہ
سنی۔ اس کی دکان پر اور بھی گاہک انتظار میں تھے، وہ ان کے کام میں جت گیا۔
ہم بائیک کھینچتے ہوئے ڈاک خانے تک آئے جہاں نایاب مسجد کے ساتھ کئی
میکنکوں کی دکانیں تھیں۔وہیں ہمارے ایک پینٹر دوست عابد کی بھی دکان تھی۔
ایک دکان پرمکینک کو اپنا مسئلہ بتا کر دونوں کور، اس کے حوالے کیے اور ہم
اپنے دوست کی دکان پر آکر بیٹھ گئےاور اسے سارا ماجرا سنایا، ہماری بپتا
سن کر وہ بہت ہنسا۔ اس نے کہا، ’’بھائی منوا اب تم فکر مت کرو، آج کے بعد
سی ایریا کا مکینک ’’للو مکینک ‘‘ کے نام سے مشہور ہوجائے گا، میں اسے
تمہاری بے عزتی کا سبق سکھاؤں گا‘‘۔ جتنی دیر میں میری بائیک کی ٹیوننگ
ہوئی، اتنی دیر میں اس نے ’’للو مکینک ‘‘کے نام کابڑا سا بورڈ تیار کرلیا۔
اس کی دکان میں بینر کا کپڑا بھی رکھا تھا، اس نےللو مکینک کے نام کے دو
بینر بنائے۔ رات کافی ہوگئی تھی، دکانیں بند ہونے لگی تھیں، عابد نے بھی
دکان بند کی اور مجھے لے کر ہوٹل میں آگیا ۔ وہاںکافی دیر تک بیٹھنے کے
بعد میں نے اس سے اجازت چاہی لیکن اس نے کہا، ’’ارے منوا، ابھی کہاں جارہے
ہو، ابھی توللو مکینک کی کہانی شروع ہوئی ہے، اسے انجام تک نہیں
پہنچاؤگے؟‘‘۔ ’’بیٹھو ابھی ‘‘۔ یہ ہوٹل ساری رات کھلا رہتا تھا، ہم دونوں
وہاں ساڑھےبارہ بجے تک بیٹھے رہے۔ جب ہر طرف سناٹا چھاگیاتو عابد مجھے ،
اپنا بنایا ہوا بورڈ اور انہیں لگانے کا سامان لے کرسی ایریا آیا ۔ وہاں
ساری دکانیں بند ہوچکی تھیں، لوگ بھی وہاں سے اکا دکا ہی گزر رہے تھے۔ اس
نے جیب سے بڑی سی ٹارچ نکالی اورموٹر سائیکل کی سیٹ پر کھڑے ہوکر اس نےبڑی
بڑی کیلوں اور ہتھوڑی کی مدد سے انتہائی ماہرانہ انداز میں دکان پر ’’للو
مکینک‘‘ کے نام کا بورڈ لگایا۔یہ کام اس نےپیشہ وارانہ مہارت سے کیا تھا ،
اس لیے بورڈ اکھاڑے جانے کا کوئی خدشہ نہیں تھا۔ سڑک کے دونوںطرف کے
چوراہوں پر اس نے بینر لگائے۔ کام مکمل کرکے اس نے مجھے گھر جانے کی اجازت
دےدی لیکن ساتھ ہی ہدایت کی کہ کل دن میں آکرمکینک کی دکان پر تماشہ
دیکھنا۔ دوسرے روز میں دفتر جاتے ہوئے دوپہر کے وقت جب لیاقت آباد سے گزرا
تو سی ایریا میں مکینک کی دکان کے پاس بھی گیا اور اس کے سامنے چائے کے
ہوٹل میں بیٹھ کراس کی دکان کا جائزہ لیا۔ وہاں مکینک صاحب کو حیران و
پریشان پایا۔علاقے میں رہنے والے لوگ دکان کے سامنے سے گزرتے ہوئے نئے نام
کا بورڈ لگا دیکھ کر ہنس رہے تھے۔ ہم چائے کا بل ادا کرکے دکان کے ساتھ اس
طرح کھڑے ہوگئے کہ مکینک کی نظر ہم پر نہ پڑے۔ دکان پر جو شخص بھی اپنی
موٹر سائیکل ٹھیک کرانے آرہاتھا، وہ اسے للو بھائی کہہ کر مخاطب کررہا
تھا۔ جس مکینک نےصرف’’للو بھائی ‘‘کہنے پر ہمیں جواب میں ’’بھائی منوا ‘‘
کہہ کر ہماری بائیک ٹھیک کیے بغیر ، بے آبرو کرکے بھگایا تھا، آج وہ پورے
لالو کھیت میں ’’للو مکینک ‘‘ کے نام سے مشہورہے۔
|