"یہ آخری صدی ھے کتابوں سے عشق کی"
صدیاں بیت گئیں ، انسان گمنام تھا، اسے جس ساتھی نے شناخت دی ، وہ تھی"کتاب".
یہی کتاب تھی جس نے تاریکیوں کے قفل کو کھولا اور علم کا چمکتادمکتاسورج
دکھایا- "کتاب" اور "انسان" دوست کہلائے-انسان نے اسے سینے سے لگایا اور
تحقیق کے سفر پر نکلا- کتاب انسان کی تہذیب و تمدن کی محسن بن گئی...
تاریخ کے سنہری اوراق کو پلٹا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی
ھے کہ جن قوموں نے کتاب کا سہارا لیا وہ ترقی کی راہ پر گامزن ہوئیں.. اور
جنھوں نے ایسا نہ کیا ان کے مقدر محکومی لکھ دی گئی....!!!
مطالعہ اور تحقیق کا رک جانا ذہن اور عقل کو ساکن کر دیتا ھے- مشہور دانشور
والٹیر کا کہنا ھے کہ:"انسانی تاریخ میں چند وحشی اور غیر مہذب قوموں کو
چھوڑ کر لوگوں پر صرف کتابوں کی حکومت ھے-"
آئیے! مثال ہمارے سامنے ھے.مسلمانوں کا دور ... ایک ایسا علمی دور جہاں
معاشرہ کتاب دوست معاشرہ تھا...کتب کی تخلیق تھی جن میں فلکیات، ریاضی،طب
اور کیمیا سر فہرست ہیں- کتابوں کو پڑھنا ایک شاہانہ مشغلہ تھا.....!!!
مگر وقت کے گرداب میں مسلم معاشرہ کتاب سے خالی ہوتا چلا گیا... ترقی اور
عروج کا گراف گرتا ہی چلا گیا... ہمارا نوجوان انٹرنیٹ اور ٹیکنالوجی کے
بھنور میں پھنس گیا....جس کتاب نے سائنس سے روشناس کروایا، سائنس آج اسی
کتاب سے دور کر رہی ھے- جہاں نیا فیشن سمارٹ فون، فیس بک، ٹویٹر اور واٹس
ایپ ہو .. وہاں کتاب بینی پرانا مشغلہ کہلاتا ھے ... اور ہمارے نوجوان کو
اس مشغلے سے کوئی سروکار نہیں.....!!! تعلیم ھے تو نوٹس پر چلتی ھے، کتاب
کی آدھی جگہ آن لائن ویب سائٹس نے لے لی ....اگر تعلیم میں اکیڈمک لیول پر
مجبوری نہ ہوتی تو کورس کی کتاب بھی کبھی نہ کھلتی ...
دراصل، یہ ایک بیماری بن چکی ھے جسے "کتاب فوبیا" کہنا غلط نہ ہو گا.مسعود
عثمانی صاحب نے کیا خوب کہا ھے:
کاغذ کی یہ مہک، یہ نشہ روٹھنے کو ھے
یہ آخری صدی ھے کتابوں سے عشق کی
از قلم
ہالہ نابغہ
|