داستان عزم ........خود نوشت ڈاکٹر عبدالقدیر خان

جس ملک میں سوئی تک نہیں بنتی اس ملک میں کوڑیوں کے بھاؤ ایٹم بم بنانا ہی ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا کارنامہ ہے
ایٹمی دھماکوں کے بعد ڈاکٹر خان سے ایٹم بم بنانے کا اعزاز چھیننے کی ہر سطح پر کوشش کی گئی
پرویز مشرف نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے پہلے قصید پڑھے پھر امریکہ کے ایما پر ان کی تذلیل کی
ایک وقت وہ بھی آیا جب زلزلے نے ایٹمی میدان میں تمام پیش رفت کو صفر کردیالیکن ڈاکٹر خان نے حوصلہ نہ ہارا
بوسنیا ئی فوج نے پاکستانی ٹینک شکن میزائل سے سربیا کے 82 ٹینک تباہ کرکے گھیراؤ کاطلسم توڑ دیا
قدرت نے ہمیں ڈاکٹر خان کی شکل میں ایک انمول ہیرا دیا تھا لیکن ہم اس کی قدر نہ کرسکے

"داستان عزم "یہ کتاب محسن پاکستان اور عظیم ایٹمی سائنس ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی خودنوشت ہے۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان بیشک اب ہمارے درمیان نہیں رہے لیکن تاقیامت ان کا نام اور دفاع پاکستان کے حوالے سے ایٹمی دھماکوں کا عظیم کارنامہ روز روشن کی طرح چمکتا اور دمکتا رہے گا۔ڈاکٹر خان کیا تھے اور انہوں پاکستان کے لیے کیا عظیم کارنامہ انجام دیا ،یہ سب کچھ پاکستانی قوم کے ہر شخص کو ازبرہے ۔ڈاکٹر خان نے بیشمار واقعات کو اپنی خود نوشت میں شامل کیا ہے جس کا علم کم از کم مجھے تو نہیں ہے ۔وہ لکھتے ہیں 1984ء میں جنرل ضیاالحق نے "انڈیا ٹو ڈے "کے نمائندے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہاتھا کہ ایٹم بم بنانا ہمارے لیے مشکل نہیں ۔جب چاہیں ہم بنالیں گے تو میرے لیے بات کھل کر کرنا آسان ہوگیا۔ایسے ہی ایک لیکچرکے دوران سٹاف کالج( جو اب یونیورسٹی بن چکی ہے) کے چند افسران نے مجھ سے بالواسطہ سوالات کیے تو میں نے پوچھا کہ یہاں کوئی غیر ملکی تو نہیں ہے۔ کالج کے کمانڈنٹ جنرل سید تنویر نقوی نے بتایا کہ یہاں کوئی غیرملکی نہیں ہے۔درحقیقت لوگ میری زبان سے ہماری ایٹمی اور دفاعی صلاحیت کے بارے میں سننا چاہتے تھے۔میں نے حاضرین سے کہا کہ آج میں کھل کر یہ بات بتانا چاہتا ہوں کہ ہمارے پاس اتنے ایٹم بم ہیں کہ ہم ہندوستان کے ہر بڑے شہر کو کم از کم پانچ مرتبہ صفحہ ہستی سے مٹا سکتے ہیں ۔اس پر ہال میں موجود تمام لوگ اپنی نشستوں سے کھڑے ہوگئے اور تالیوں کی گونج دیر تک جاری رہی ۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان ایک اور جگہ لکھتے ہیں 6اپریل 1998ء کی صبح ساڑھے چھ بجے ایٹم بم لے جانے والے غوری میزائل کا تجربہ کرنے کے لیے میں اپنے رفقائے کار کے ہمراہ ٹلہ جوگیاں پہنچا ۔ جہاں تمام تیاریاں پہلے سے مکمل تھیں۔ چنانچہ 7بج کر23منٹ بٹن دباتے ہی غوری میزائل چند سینکڑوں میں 360کلومیٹر خلامیں گیا ،اس کا وار ہیڈ علیحدہ ہوا اور بلوچستان میں 1300کلومیٹردور اپنے ٹارگٹ کے قریب جا گرا۔وہاں پہلے سے فوج کا ایک دستہ موجود تھا جس نے اپنی تحریری رپورٹ پیش کردی۔جب اس کارنامے کی اطلاع وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کو دی گئی تو انہوں نے غوری میزائل فائرکرنے اور ٹارگٹ پر گرنے کی ویڈیو دیکھ کر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے حکم دیا کہ اس ویڈیوکو پی ٹی وی پر دکھا یا جائے ، پھرمجھے اپنے ساتھ لیکر نوازشریف نیشنل ڈیفنس کالج پہنچ گئے اور وہاں اپنی تقریر کے دوران انہوں نے غوری میزائل کے کامیاب تجربے کی خوشخبری سنا دی ۔پورے ملک میں جشن کا سماں تھا۔اسلامی ممالک کے سربراہوں نے نوازشریف کو مبارک باد دی ۔ہمارے میزائل کے ٹیسٹ نے ہندوستان کے جارحانہ عزائم کو بڑی بڑی حد تک ٹھنڈا کردیا کیونکہ یہ میزائل موبائل لانچر پر نصب تھا۔اوراسکے ذریعے ہندوستان کے تما م اہم ہداف کو کامیابی سے نشانہ بنایا جاسکتا تھا۔اس کے ایک ماہ بعد جب ہم نے ایٹمی دھماکے کیے تو دونوں ممالک کے درمیان آئندہ بڑی جنگ کے خطرات ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئے۔
............…

ایک جگہ سابق صدرپاکستان جناب اسحاق خان نے پاکستان کے نامور صحافی زاہد ملک کے خط کے جواب دیتے ہوئے لکھا-:کہ جب بظاہر تمام سینٹری فیوج درست کام کررہے تھے۔اسی دوران ایک مرحلہ ایسا بھی آیا جو قدرتی گیس یورینم کی افزودگی کے کام میں استعمال کی جارہی تھی ،اس کی ایک خاص سطح سے زیادہ افزودگی حاصل کرنے میں رکاوٹ پیدا ہوگئی ۔ظاہر ہے اس رکاوٹ کا پتہ چلانا اور اس پر قابو پانا لازمی تھا۔اس کے علاوہ یہ بھی ہوا کہ اکثر انتہائی اہم مراحل پر نہایت ضروری آلات کے حصول پر پابندی لگا دی جاتی ۔جبکہ ایسے آلات جن کا جائز طریقے سے سپلائی کا آرڈر دیا جا چکا ہو تا۔بلکہ ان کی قیمت بھی ادا کی جا چکی ہوتی ۔پھر ان کے حصول پر ناروا پابندی لگنے سے مشکلات میں مزید اضافہ ہو جاتا ۔ظاہر ہے ایسی صورتوں میں ان چیزوں کو مقامی طور پر تجربہ کرکے ایجاد کرنا پڑتا تھا۔اس طرح کے تجربات میں غلطی اور اس کی تصحیح کرنے کے کٹھن مراحل سے گزرنا پڑا ۔پھر اس کام کے لیے طویل اور تھکادینے والے انجینئرنگ کے عمل سے دوبارہ گزرنا لازمی امر ہو جاتا تھا ۔گویا ایک ایجاد شدہ چیز کو نئے سرے سے دوبارہ بنانے کے عمل کو دہرانا پڑتا تھا ۔تین مرتبہ یہ مشکل پیش آئی کہ سینکڑوں کی تعداد میں انتہائی نزاکت اور باریک بینی سے تیار شدہ اور مکمل توازن اور پوری رفتارکے ساتھ کام کرنے والے سینٹری فیوج زلزلہ کے شدید جھٹکوں کی تاب نہ لاکر یکایک بے کار ہوگئے ۔ان پرزہ جات نے بالکل کام کرنا چھوڑ دیا ۔ حالانکہ کہوٹہ کے علاقے میں زلزلہ شاذو نادر ہی آتا ہے۔مگر ایسا بھی ہوا اور تین مرتبہ زلزلہ نے اس صورت حال سے دوچاربھی کیا ۔ان تمام سینٹری فیوج کو ازسرانتہائی مہنگے داموں دوبارہ بنانا اور چلانا پڑا جس میں بہت سا قیمتی وقت بھی صرف ہوا۔اس طرح کے سنگین حالات میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے علاوہ کوئی شخص ایسا نہیں تھا جو یہ سارا کام ایک بار پھر نئے سرے سے انجام دیتا ۔لیکن ہوا یہ کہ اس طرح کے واقعات نے ڈاکٹر خان کے عزم کو مزید پختہ کردیا اور بھرپور توانائی اور پامردی کے ساتھ کام کرنے کی صلاحیت کو ان مشکلات نے مزید تحریک دی ۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انتہائی مناسب اور قلیل مدت کے اندر اندر نہ صرف اتنے بھاری نقصان کا ازالہ ہوگیا بلکہ ڈیزائن کے معیار کو مزید بہتر بنا کران کو زیادہ مستحکم بنیاد فراہم کر دی گئی۔
............…

پھر وہ وقت بھی آیا جب ایٹمی دھماکوں کے چند سال بعد ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی ریٹائرمنٹ کے موقع پر منعقدہ ایک فنکشن میں جنرل پرویز مشرف نے اپنی تقریر میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی ایٹمی شعبے میں کامیابیوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے کہا -: خواتین و حضرات ۔ آج ہم یہاں وطن عزیز کے نہایت سینئر اور شہرہ آفاق سائنس دان اور اپنے قومی ہیرو کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں ۔تو میری یادداشت مئی 1974کی طرف لوٹ جاتی ہے ،جب بھارت نے پہلا ایٹمی دھماکہ کیا تھااور جنوبی ایشیا کی سلامتی کے منظر کو بدلتے ہوئے پاکستان کے لیے انتہائی نامساعد صورت حال پیدا کردی تھی ۔1971میں پاکستان کے دو لخت ہونے کے بعد اس واقعہ نے ہمارے تحفظ اور جراحت پذیر ہونے کے احساس کو مزید گہرا کردیا تھا۔ہمارے روایتی عد توازن میں ایک اور سبب کا اضافہ ہوگیا تھا اور وہ یہ کہ پاکستان کو اپنی حفاظت کے بارے میں لاحق تشویش کئی گنا بڑھ گئی تھی ۔اس موقع پر عالمی برادری نے روایتی علامتی ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے خاموشی اختیار کرلی تھی ۔پاکستان کو تن تنہا ہی بھارت کی ایٹمی بلیک میلنگ اور دھمکیوں کا سامنا کرنا تھا اور دوسری طرف پاکستان کے پاس ایٹمی ہتھیاروں کے پروگرام کا نام تک نہ تھا ۔ایسی صورت میں ہم سب پاکستانیوں کوصرف خدا ہی کا آسرا تھا۔ہم حقیقی معنوں میں مدد کے لیے آسمان کی طرف دیکھ رہے تھے ۔ہم نے ہمت نہ ہاری اور ہمارا عزم قائم رہا ۔آخرکا ر اﷲ تعالی نے پاکستانی قوم کی دعائیں سن لیں ۔ہماری حالت پر رحم آگیا اور ایک معجزہ رونما ہوا۔پردہ غیب سے ایک بلند قامت اور غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل نابغہ کا ظہور ہوا اور یہ نابغہ روزگار ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہیں ۔ایسے نابغہ جنہوں نے تن تنہا قوم کو ایٹمی صلاحیت سے مالا مال کردیا۔ان مشکل حالات میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی آمد نے ایسی قوم کو جو اپنے مستقبل کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا تھی اور جو عمل کی بجائے صرف وعدوں اور جھوٹی سچی یقین دھانیوں کے عادی ہوچکی تھی ۔اس کو امید رجائیت اور نیا حوصلہ دیا۔خواتین و حضرات آنے والے سال ،واقعات اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی کامیابیاں ،ناقابل فراموش ،انمٹ اور پاکستان کی تاریخ کا عظیم الشان باب ہیں ۔مجھے کہنے کی اجازت دیجیئے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پاکستانی قوم کو جو کچھ دیا اس کے لیے یہ قوم نہ صرف آج بلکہ آئندہ بھی ان کی ممنون احسان رہے گی ۔ڈاکٹرعبدالقدیر خان بلاشبہ ہمارے قومی ہیرو ہیں ۔لیکن افسوس کہ وہی جنرل پرویز مشرف جس نے تمام معززین کے سامنے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو پاکستانی قوم کا عظیم ہیرو قرار دیا تھا امریکی صدر بش کی گود میں بیٹھنے کے بعد امریکہ کے ایجنڈے پر چل پڑااور ملکی سالمیت کو داؤ پر لگا کر ڈاکٹر خان کے تمام اعزازت واپس لے کر انہیں اپنے گھر میں ہی نظر بند کردیا ۔

وہ پاکستانی قوم جس کے تحفظ کے لیے ڈاکٹر خان نے اپنی جان پر کھیل کر ایٹم بم بنایا تھا وہ خاموشی سے ڈاکٹر خان کی تذلیل کو دیکھتی رہی ۔بالاخر وہ موت کی وادی میں جا سوئے۔پہلے فیصل مسجد کے صحن میں تدفین کا اعلان ہوا تھا پھر ایچ 8کے قبرستان میں دفن کردیا ۔تدفین کے بعد وزیراعظم نے دبے لفظوں میں کہا تھا کہ میں ڈاکٹر خان مرحوم کا الگ سے مزار بناؤ ں گا لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ یو ٹرن لینے کے شوقین ہیں اپنے اس وعدے سے بھی مکرجائیں گے ۔
...................

چودھردی شجاعت حسین جوجنرل پرویز مشرف کے دور میں وزیراعظم پاکستان بنیں ۔انہوں نے اپنی سوانح عمری "سچ تو یہ ہے " لکھی جس میں انہوں نے کئی رازوں سے پردہ اٹھایا۔چودھری شجاعت حسین رقمطراز ہیں کہ جنرل پرویز مشرف نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر جو الزامات لگائے ہیں وہ بے بنیاد اور سراسر جھوٹ پر مبنی ہیں حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر خان بالکل بے قصور ہیں ۔چودھری شجاعت مزید لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ مجھے اور ایس ایم ظفر صاحب کو پرویز مشرف نے بلایا اور کہا آپ دونوں جائیں اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے کہیں کہ وہ اس معاملے میں قوم سے معافی مانگیں ۔کچھ توقف کے بعد پرویز مشرف نے مجھ سے کہا آپ اکیلے ہی جائیں اور ان سے بات کریں ۔میں ڈاکٹر خان کے گھر پہنچا اور پرویز مشرف کا پیغام دیا تو ڈاکٹر خان کہنے لگے چودھری صاحب مجھ پر یہ الزام جھوٹا ہے ۔میں نے کوئی چیز فروخت نہیں کی ۔نہ میں نے کسی سے کوئی رقم لی۔یہ فرنیچر جو میرے گھر میں آپ دیکھ کررہے ہیں یہ میری بیگم کے جہیز کا فرنیچر ہے ۔میری مالی حالت تو یہ ہے کہ میں نیا فرنیچر خریدنے کی استطاعت بھی نہیں رکھتا۔یہ لوگ مجھ پر اتنا بڑا الزام لگا رہے ہیں ۔بہرحال جب ڈاکٹر خان کو پرویز مشرف نے حد سے زیادہ مجبور کیا تو ڈاکٹر خان نے ملک و قوم کے مفاد میں ٹی وی پر آکر سارا الزام اپنے سر لے لیا ۔یہ بات بھی سننے میں آئی تھی کہ چودھری شجاعت حسین کے بعد ظفر خاں جمالی نے جب وزارت عظمی کے عہدے کا حلف اٹھا یا تو پرویز مشرف نے انہیں ایک حکم نامے پر دستخط کرنے کا حکم دیا جس پر لکھا تھا کہ ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر خان کو امریکہ کے حوالے کیا جارہا ہے ۔ جب یہ حکم نامہ وزیراعظم جمالی کے پاس پہنچا تو انہوں نے یہ کہتے ہوئے اپنے عہد ے ہی استعفی دے دیا کہ میں پاکستان کے محسن اور عظیم ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو امریکہ کے سپرد نہیں کرسکتا اس لیے وزرات عظمی سے مستعفی ہورہا ہوں ۔

کہنے کا مقصد تو یہ ہے کہ پرویز مشرف نے فوج کی وردی کی آڑ میں بیشمار ایسے منفی اقدام کئے ہیں جو عدلیہ ، جمہوریت اورپاکستان کی سا لمیت کے برعکس جاتے ہیں ۔پاکستان کی چند سیاسی جماعتیں آج بھی پرویز مشرف کو اپناہیرو قرار دیتی ہیں ۔ان کے خلاف پاکستانی عدالتوں میں غداری کے مقدمات زیر سماعت تھے بلکہ سزائے موت کا فیصلہ بھی ہو چکا ہے لیکن ایسے فیصلوں کو منو ں مٹی تلے زبردستی دبا دیا گیا ہے ۔اگر پاکستان اب تک ترقی نہ کرنے کی بجائے سے ایک ہی دائرے میں گھوم رہا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم 74سال گزرنے کے باوجود قومی ہیروز اور غداروں میں فرق نہیں کرسکے ۔
.................

ہم نے مشہور زمانہ اینٹی ٹینک میزائلزبکترشکن بھی تیارکیے۔جو چار پانچ کلومیٹر کے فاصلے سے مخالف فوج کے ٹینکوں کی دھجیاں اڑا دیتے ہیں ۔ہم نے یہ ہزاروں میزائل پاک فوج کو دیئے اور نہایت نازک موقع پر بوسنیا کے مسلمانوں کو بھی بجھوائے جن کی وجہ سے انہوں نے سراجیوو کا کئی سال سے محاصرہ کرنے والے اور قتل غارت گری کرنے والے سرب دہشت گردوں کو چند دنوں میں بھگا دیا ۔بوسنیا کے آرمی چیف نے ایک ملاقات میں مجھے بتایا کہ صرف تین دنوں میں انہوں نے سربوں کے 82ٹینک تباہ کردیئے۔میری اس مدد کی وجہ سے حکومت بوسنیا ہمیشہ میری بے حد ممنون و احسان مند تھی ۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ 28مئی 1998ء کے ایٹمی دھماکوں کے چند ہفتوں بعد سعودی عرب کے پرنس سلطان ابن سعود اور ان کے صاحبزادے جنرل خالد بن سلطان ابن سعود وزیراعظم پاکستان نواز شریف کو مبارکباد دینے پاکستان تشریف لائے ۔نواز شریف ان شاہی مہمانوں اور پاکستان کی تینوں افواج کے سربراہوں کواپنے ساتھ لے کر کہوٹہ تشریف لائے ، انہوں نے کئی گھنٹے وہاں ہمارے ساتھ گزارے ۔

قصہ مختصرایسے ہی بیشمار اور حیرت انگیز واقعات ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی خود نوشت میں شامل ہیں جو واقعی ہماری موجودہ اور آنے والی نسلوں کو پڑھنے چاہیئں ،ان تمام اہم واقعات تک رسائی کتاب کو مکمل پڑھنے ہی سے حاصل کی جاسکتی ہے۔بدقسمتی کی بات تو یہ ہے کہ ہم بحیثیت قوم ،احسان فراموش ہیں ،ہم زندگی میں اس عظیم پاکستانی اور عظیم ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی قدر نہ کرسکے جس نے وطن عزیز پاکستان کے دفاع کو کوڑیوں کے بھاؤ ناقابل تسخیر بنا دیا ہے ۔ڈاکٹر خان کی خود نوشت میں 56کے لگ بھگ اہم شخصیات کے ہمراہ تصویریں اور اہم خطوط شامل ہیں ۔قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل یثرب کالونی ،بنک سٹاپ والٹن روڈ لاہور کینٹ کے زیراہتمام شائع ہونے والی اس کتاب کی قیمت صرف 1500/-روپے ہے۔رابطہ نمبر 0300-0515101اور ای میل ایڈریس [email protected]ہے۔
گزر تو خیر گئی ہے تیری حیات قدیر
ستم ظریف مگر کوفیوں میں گزری ہے

Muhammad Aslam Lodhi
About the Author: Muhammad Aslam Lodhi Read More Articles by Muhammad Aslam Lodhi: 781 Articles with 662201 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.