قلم شگوفیاں۔ سوشل ورکر

سوشل ورکر کے شب و روز ان کے طریقہ کار پر دو افراد کے درمیان مزاج و طنز سے بھرپور مکالمہ و تبصرہ۔ ایک مزاحیہ تحریر


او ساجو۔جی ماجو۔
یار یہ سوشل ورکر کیا ہوتا ہے۔ کیایہ کوئی اونچی نوکری ہے۔
بھائی کیا بتاؤں سنا ہے کوئی دفتر ہوتا ہے اس میں چند لوگ ہوتے ہیں۔
۔ تو یہ لوگ کرتے کیا ہیں۔
بھائی کرتے ورتے تو کچھ نہیں۔
۔ تو پھر ان کو سوشل ورکر کیوں کہتے ہیں۔
بھائی ہمارے ملک میں جو کچھ نہ کرے اسے ہی تو سوشل ورکر کہتے ہیں۔
۔تو پھر یہ اتنا بڑا دفتر کیوں بناتے ہیں۔
بھائی اپنی مشہوری کے لیئے۔
۔تو یہ اپنی مشہوری کیسے کرتے ہیں
بھائی اپنی فوٹو بنا کے۔ سیلفیاں بنا کے ۔ بڑے بڑے بینر لگا کے ۔ٹی وی پروگراموں میں جاکے۔اخباروں میں اپنی تصویریں چھپا کے۔
۔ تو ان کے خرچے کون پورا کرتا ہے۔
بھائی ہم غریب لوگوں کے پیسے سے ہی ان کا خرچا پوراکیا جاتا ہے۔
۔وہ کیسے۔
بھائی پہلے یہ اپنی جیب سے تھوڑا سا خرچہ کرتے ہیں۔ دفتر بناتے ہیں۔ بینر نبواتے ہیں اخبار میں اشتہار لگاتے ہیں۔ اپنی تنظیم یا ادارے کا کوئی نیا سا نام رکھتے ہیں۔
۔اچھا تووہ جن کو سی این جی بھی کہتے ہیں جنکے ساتھ ایک دو میمیں بھی کام کرتی ہیں۔
بھائی سی این جی نہیں ہوتی ۔ وہ این جی او ہوتی ہے۔ اور ٹرسٹ ہوتے ہیں۔
۔یہ ٹرسٹ کیا ہوتا ہے۔
بھائی یہ بھی سوشل ورکر کی طرح ہوتے ہیں۔
۔پھر کیا ہوتا ہے۔
بھائی پھر یہ اپنا خرچہ بھی نکال لیتے ہیں اور ان کو اور پیسے بھی ملتے ہیں۔
۔ تو ان پیسوں کا کیا کرتے ہیں۔
بھائی اس سے نئے نئے ادارے بناتے ہیں۔ کچھ پیسوں سے اپنی کارکردگی رپورٹ بناتے ہیں۔
۔کون سی کارکردگی۔
بھائی وہ سارے کام جو نہیں کئے ہوتے۔
۔واہ بھئ واہ۔ بھلا جو کام نہیں کئے ہوتی وہ کیا کارکردگی ہوئی۔
بھائی وہی تو کارکردگی ہوتی ہے۔ کبھی سرکاری ٹی وی سے خبریں سنی ہیں۔وہ وزیر اپنے محکموں کی کارکردگی سناتے ہیں۔ وہ ایسے ہی تو ہوتی ہے۔
۔لے ۔سرکاری ٹی وی پر اتنا جھوٹ ۔ ان کو پولیس نہیں پکڑتی۔
بھائی پولیس کے محکمے نے بھی تو اپنی کاردگی ادھر ہی آکر سنانی ہوتی ہے۔
۔واہ عجیب بات ہے۔ کام بھی نہ کرو اور کارکردگی بھی۔ یہ کیسے ہو جاتا ہے۔میری سمجھ سے باہر ہے۔
بھائی تو نے کبھی سنا نہیں کہ جب وزیر خزانہ بتاتا ہے کہ عام آدمی کی فلاح و بہبود پر اتنے ارب روپئے خرچ ہوئے۔ ہم میں سے کسی نے کبھی جا کر بتایا کہ ہمارے پر تو ایک دھیلہ بھی کبھی خرچ نہ ہوا۔
۔ پر میری پریشانی وہی ہے کہ ان سی این جی والوں کو پیسے کیسے ملتے ہیں۔
بھائی پہلے بھی بتایا ہے سی این جی نہیں ان کو این جی او کہتے ہیں۔ اور رہا سوال پیسوں کا تو سرکار پیسہ دیتی ہے ان کو۔
۔ واہ سرکار بھی ان کو ہی پیسہ دیتی ہے پر کیوں؟
بھائی وہ سرکار کو بتاتے ہیں ۔کہ ہم اتنے سالوں سے فلاں فلاں علاقے میں غریبوں کی خدمت کر رہے ہیں۔ ان کی اشیائے ضروریہ تعلیم صحت بچوں کی پرورش اوردیگر فلاحی کام کر رہے ہیں۔ پچھلے سال اتنے مردوں کو کفن دیا۔ اتنوں کو دفنایا۔ اتنے درخت لگائے
اور شعور اجاگر کرنے اوراگاہی مہموں کے لیئے واک کیئے۔
۔ مطلب ہے یہ ہمارے نام پر سرکار سے پیسہ بٹورتے ہیں ۔ پر ہم پر خرچ نہیں کرتے۔
بھائی انہوں نے ہم پر تھوڑا ہی خرچ کرنا ہوتا ہے۔ خرچ کریں یا نہ ۔کارکردگی میں تو لکھ دیتےہیں نا۔
۔ تو سرکار اتنی اندھی ہے ان پر اعتبار کر جاتی ہے۔ اور ان کو اننھے واہ پیسہ دیتی ہے۔
بھائی گورنمٹ اپنے وزیروں اور اسمبلی ارکان کو بھی تو ایسے ہے اننھے واہ دیتی ہے۔ اور جواب میں رنگ برنگی کارکردگی رپورٹ ہی ملتی ہیں۔
۔مطلب یہ صرف رپوٹوں پر زور لگاتے ہیں
او بھائی انہوں نے کیا زور لگانا ہوتا ہے۔ وہ کیا بھلا نام ہے ۔ ہاں کمپیوٹر ۔ بڑی ذہین مشین ہے۔ اس میں پچھلے سال کی رپورٹ ہوتی ہے نا۔ بس اس کو تھوڑاتبدیل کر کے نئی رپورٹ چھاپ لیتے ہیں۔
۔توبہ او میریا خدایا۔سارے ای فراڈیے۔
وہ شعور اجاگر اور اگاہی مہم کیا ہوتی ہے۔
بھائی یہ ان این جی او کے ایسے کام ہوتے ہیں جن پر خرچہ بھی نہیں ہوتا اور کارکردگی بھی بن جاتی ہے۔
۔ تو ان پر خرچہ کون کرتا ہے۔ اور یہ کیا ہوتا ہے۔
بھائی جو امیرلوگ ان کو پیسہ تو نہیں دیتے پر اپنی مشہوری کے لیے ان کا پروگرام کروا دیتے ہیں۔ پندرہ بیس لوگوں کو اکٹھا کیا ان کو تعلیم یا صحت کی اگاہی پر لوگوں کو بتایا جیساکہ صبح اٹھ کر ہاتھ منہ دھونا ہے ڈیٹول صابن سے پھر کولگیٹ سے دانٹ صاف کرنے ہیں ورزش اور سیر کو جانا ہے یوں صابن اور پیسٹ بنانے والوں سے پیسہ بھی مل گیا اور سب کی مشہوری بھی ہو گئی۔ تصویریں بھی بن جاتی ہیں۔ نئے نئے اخبار والے وہ چھاپ دیتے ہیں۔ کچھ تو وہ تصویریں خرید بھی لیتے ہیں۔
۔ اچھا تو وہ بڑے بڑے ناخنو ں اور چمکیلے پرس والی میمیں کیوں ساتھ رکھتے ہیں۔
بھائی وہ گلی محلوں میں جا کر سادہ لوح عورتوں کو بے وقوف بنا کر ان سے بھی چندے لیتی ہیں۔
۔کمال ہے وہ عورتیں بھی ان کو پیسے دیتی ہیں۔ ان کو یہ کیا بتا کر پیسے اینٹھتی ہیں۔
یہ میڈمیں ان کو جا کر بتاتی ہیں کہ ہم عورتوں کے حقوق کے لیئے جنگ لڑ رہی ہیں۔ ہماری ممبر بن جاؤ۔ یہ کارڈ رکھ لو۔ اس کارڈ کی وجہ سے چوکی تھانے اور میٍڈیا والے تمہاری بات سنیں گے۔تم پر کوئی ظلم زیادتی نہیں کر سکتا۔ اور تو اور تمہارے شوہر بھی تم پر کوئی تشدد نہیں کر سکتے ۔ اگر کوئی مسئلہ بنے تو ہمیں فون کر لو۔ اور کارڈ کی فیس دے دو۔ بے فکر ہو جاؤ۔
۔واہ ساجو واہ۔ پھر تو ان میڈموں کی بڑی پاور ہو گی۔چوکی تھانے میں۔
نہیں بھائی وہ تو خود دیہاڑی دار ہوتی ہیں۔ اکثر کو تو ان کے خاوندوں نے گھر سے نکالا ہوا ہے۔
۔ساجو تو تو شہر میں آکر بڑا چالاک بن گیا ہے ساری گیم جانتا ہے۔
جب نیا نیا شہر آیا تھا تو میں نے بھی چھ مہینے باؤ حمید اور میڈم عروج کے ساتھ بڑے دھکے جائے تھے پر ماجو تو یہ سب آج کیوں پوچھتا ہے ۔
۔وہ اپنے محلے والے حاجی صاحب بھی یہ کام کر رہے ہیں۔

 

Sibtain Zia Rizvi
About the Author: Sibtain Zia Rizvi Read More Articles by Sibtain Zia Rizvi: 24 Articles with 14882 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.