ایک تھا عبداللہ

پرانی یادوں سے وابستہ شگفتہ شگفہ مزاح سے بھر پور شخصی جاکہ

یہ کوئی سن چار کم 2000 عیسوی کی بات ہے۔ ہماری کمپنی کے تین چار سو لوگ ایک ہی کیمپ میں رہتے تھے۔ ہربندے کی اپنی اپنی ذمہ داریاں ، اپنے اپنے مشاغل اور اپنے اپنے کام کا شیڈول اور دورانیہ تھا ۔

عبداللہ ہماری کمپنی میں ڈرائیور تھا۔ ہنسی مزاح توگویا اس کے انگ انگ اورعمومی حرکات و سکنات سے پھوٹتا ہی رہتا تھا۔ بات کرتا تو لب و رخسار سے شرارتوں کے پرزے جھڑتے۔بلا کا ہنسوڑا تھا۔

جاڑےکی ایک شام کمپنی انچارج نے کہا کہ کل رات کو کھانے کےبعد سب لوگ بڑے ہال میں اکٹھے ہوں ۔ گپ شپ اور تفریحی سرگرمیاں ہوں گی اور گھر سے دوری کا احساس جاتا رہے گا ۔

اگلےدن کھانےکےبعد یہ رنگا رنگ پروگرام شروع ہو گیا۔ جس میں۔ لطائف۔ چٹکلہ بازی اور موسیقی کے تڑکے بھی شامل تھے۔

پھر پروگرام کے میزبان نےاعلان کیا۔ اب عبداللہ خان ڈائس پر آ رہا ہے جو آپ سے خطاب کرےگا۔

اعلان سن کر ہی اس بات کے تصور سے کہ عبداللہ خان خطاب کرے گا۔ ہنسی ، قہقوں کا ایک طوفان ، دبی دبی سیٹیاں اور ملتی جلتی آوازوں سےہال گونج اٹھا۔ ایک کونےسے عبداللہ مع اس کے جاہ و جمال ،ہیبت و جلال رد الملال نمودار ہوا اور تالیوں کی گونج میں سٹیج پر مائیک کے سامنے یوں گویا ہوا۔

آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں۔ مجھے گھر سےخط آیا ہے والد صاحب نے لکھا ہےکہ ساتھ والی زمینوں کے مالک خان بابا کے ساتھ زمینوں کا تبادلہ ہے۔ کچھ اور بھی جرگہ کے امور سےمتعلق مشاورت ہے۔ میں نےبڑےخان بابا کوبتایا ہےکہ میرابڑا بیٹا عبداللہ خان ایک کمپنی میں کام کرتا ہے اور کوئٹہ میں ہے۔ جب تک وہ نہیں آتا اور کوئی مشورہ نہیں دیتا۔ کوئی فیصلہ اور زمینوں کا سودا نہیں ہو سکتا۔

اب ایکطرف تو عبداللہ خان کا انتظار ہو رہا ہےکہ عبداللہ آئے اور جرگے اور زمینوں کے فیصلے ہوں۔

اور ادھر جب میں بات کرتا ہوں تو آگے سے کہتےہیں کہ بوتھا بند ۔ کیا میں کوئی جانور ہوں کہ ہر وقت میرا منہ کھلا رہتا ہے۔ اس کے اس فقرے سےمحفل کشت زعفران بن گئی۔

عبداللہ کے ساتھ دوسری ملاقات نادرن ایریا ضلع غذرمیں ایک پروجیکٹ پر ہوئی۔ مجھے اپنی فیملی کے ساتھ گلگت شہر جانا تھا اور عبداللہ ڈرائیور تھا۔

ہم نے ایک دکان سے کچھ فروٹ خریدا اور مروتاًعبداللہ کوبھی پیش کیا۔ ہماری اس اچانک کی ہمدردی پر عبداللہ توانتہائی غصیلے لہجے میں چیخ پڑا۔ کہ میں کوئی بیمار ہوں۔ فروٹ تو بیمار کھاتے ہیں۔ کیسا زمانہ آیا ہے۔ جس تو دیکھو منہ اٹھائے فروٹ کھا رہا ہے۔ یہ تو ڈاکٹر لوگ مریضوں کو کھلاتے ہیں۔ اس اچانک ہونے والی سبکی پر بیگم کو تو چپ ہی لگ گئی۔ سارا رستہ پھر اس کو بولنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ البتہ مجھ سے سرگوشی میں کہا کہ آپ کو یہ جانور ہی ڈرائیور ملا۔ اب ہماری بدقسمتی کہ عبداللہ خان نے بھی سن لیا۔ اب ہم اس کے متوقع رد عمل کا انتظار کر رہے تھے۔ تھوڑے توقف کے بعد عبداللہ خان نے گلے کو صاف کر کےبلکہ اچھی خاصی کشتی کرتےہوئے اپنی مدبرانہ گفتگو کا آغاز کیا۔ صاب میری بات کا برا مت مناؤ۔ عورت جتنا بھی پڑھ لکھ جائے۔ افسر بن جائے۔ مگرپتہ نہیں عبداللہ خان اس کو جانور ہی کیوں نظر آتا ہے۔میرے ساتھ پہلے بھی یہی ہوتا ہے۔ باجی نے کوئی پہلی دفعہ تو نہیں کہا۔ اسی وجہ سے ہم اپنی لڑکیوں کو سکول نہیں بھیجتے۔ اب اتنا پڑھ کر بھی اگر عبداللہ خان نے انکو جانور ہی نظر آنا ہے تو کیا فائدہ اتنی تعلیم کا۔ ہم نے اس بےلاگ تبصرے پر خاموشی کو ہی عافیت جانا۔

گاڑی اب نسبتاً کھلی سڑک پر آ گئی تھی ۔ یہ سڑک گلگت سے غدر کی جا تی تھی اور ہماری منزل گاہکوچ تھی۔ ضلع غذر کا ضلعی او تحصیل پونیال کا انتظامی مرکز۔ اچانک گاڑی کی رفتا کم پڑ گئی۔ میں نے ہمت کر کے پوچھا کہ عبداللہ خان خیریت تو ہے۔ رفتا بالکل کم کر دی ہے۔ مجھے جواب ملا کہ آپ نے پڑھا نہیں بوڈ پر۔ آہستہ چلو آگے سکول ہے۔ میں نے زچ ہو کر کہا خدا کے واسطے عبداللہ ایک تو سکول بند ہیں۔ چھٹیاں ہیں ۔ آج اتوار بھی ہے اور شام کے چھ بجے کونسا سکول ہے۔ جواب ملا کہ محکمےوالوں نے وہ بورڈ پھر اکھاڑا کیوں نہیں۔ ایک بار پھر عبداللہ کی منطق نے مجھے لاجواب کر دیا۔ تھوڑا آگے سڑک خراب تھی کیوں کہ ایک طرف دریائے غذر اور دوسری طرف پہاڑی سلسلہ ساتھ ساتھ تھا۔

کہیں کہیں پر سڑک میں گڑھے اور بیچ میں بارش کاپانی تھا۔ اب زرا اندھیرا بھی چھا رہا تھا۔ عبداللہ اب قدرے دھیمے لہجے میں بولا۔

صاب سڑک بہت خراب ہے۔ گاڑی کی لائٹ کا بھی تھوڑا مسئلہ ہے۔ کبھی کبھی پہاڑ سے پتھر بھی گرتےہیں اور نیچے دریا بھی گہرا ہے۔ اور اس کا پانی بھی یخ ٹھنڈا ہے نگر برف ہے برف۔ جب کوئی جمپ کھڈا آئے تو کلمہ پڑھا کریں۔ اللہ کو یاد کیا کریں۔ سفر جاری وساری تھا۔ سنگل سڑک تھی سامنے سے بھی ٹریفک کا بہاؤ تھا کہیں کہیں۔ کنارے پر مٹی اور سنگریوں کا ڈھیر بھی دیکھنے کو ملتا۔ عبداللہ بڑی حاضر دماغی اور توجہ سے ڈرائیو کر رہا تھا۔ اچانک دریا کی طرف گاڑی ایک گڑھے کے قریب آئی اور پہلے جمپ پر ہی عبداللہ کی آواز گونجی۔ صاب اب کلمہ پڑھ لو۔ اس سفر میں جتنی عربی زبانی یاد تھی ساری ہی پڑھی تھی۔ منزل پر پہنچ کر شکرانے کے نفل بھی پڑھے۔ یہ عبداللہ کے ساتھ میرا آخری اور یاد گار سفر تھا۔


 

Sibtain Zia Rizvi
About the Author: Sibtain Zia Rizvi Read More Articles by Sibtain Zia Rizvi: 24 Articles with 14711 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.