لگے ٹھمکہ

پاکستان کی سیاست اور جمہوری کلچر کا تماشا ہماری زندگی کا حصہ بن چکا ہے ۔پاکستان ٹیلی ویژن کے ابتدائی دنوں میں معروف آرٹسٹ ضیاء محی الدین کا ایک’’ ٹی وی شو ‘‘چلتا تھا ۔جس میں عوام کو تفریح فراہم کی جاتی تھی ۔اس مقبول پروگرام میں ضیا ء محی الدین کا ایک جملہ بے حد مقبول ہواتھا ۔’’لگے ٹھیکہ ‘‘۔۔۔۔آج جب بھی پاکستان میں سیاسی و مذہبی کسی بھی گروپ کی طرف سے احتجاج ، جلسے، جلوس یا دھرنے کی کال دی جاتی ہے تو مجھے ضیاء محی الدین یاد آجاتے ہیں کہ اب یہ ’’کٹھ پتلیاں‘‘ اپنے سرپرستوں کے سائے میں ’’لگے ٹھیکہ‘‘ کی بجائے ’’ٹھمکے پہ ٹھمکہ ‘‘لگائیں گی ۔اور ان کے یہ ٹھمکے الیکٹرانک میڈیا پر تواتر سے دکھائے جا ئیں گے ۔تمام میڈیا کا فوکس انہیں ٹھمکوں پر رہے گا ۔رہی سہی کسر سوشل میڈیا پر فیس بک اور یوٹیوبرز نکال دیں گے ۔ہمارے ملک میں عجب تماشا ہوتا ہے ۔موجودہ وزیر اعظم نے بھی حصول اقتدار کے لیے گھیراؤ ،جلاؤ اور دھرنے کی سیاست کو اپنایا۔موصوف نے126دن کی اپنی احتجاجی مہم میں کنٹینر پر کھڑے ہو کر جوشِ جنون میں وہ وہ ارشادات کئے کہ جو حکومت ملنے کے بعد اب ان کے اپنے گلے میں پڑے ہیں ۔ماضی میں ٹیکنالوجی نے اتنی ترقی نہ کی تھی اس لئے لوگوں کو آئینہ دکھانا مشکل ہوتا تھا لیکن اب تو سوشل میڈیا اور جدید ٹیکنالوجی نے ’’آئینہ ‘‘دکھانا اتناآسان کر دیا ہے کہ لوگ انسانوں کے سبھی کرتوں ’’ریکارڈ‘‘کرکے اپنے پاس محفوظ کرلیتے ہیں یا’ ’یوٹیوب‘‘پر اَپ لوڈ کر دیتے ہیں ۔یہ انہیں سہولیات کا کرشمہ ہے کہ وزیر اعظم کو عوام کے ساتھ ساتھ مخالفین بھی ان کا ماضی وڈیوز کی صورت دکھا رہے ہیں ۔لیکن المیہ یہ کہ ’’آئینہ ‘‘دکھانے کے باوجود انہیں شرم محسوس نہیں ہوتی ۔مہنگائی پر سابقہ حکمرانوں کو چور اور ڈاکوکہنے والے اب خود ان لوگوں سے زیادہ قوم پر مہنگائی کی صورت ظلم کر رہے ہیں لیکن مجال ہے انہیں اپنی وہ باتیں اور بڑکیں یاد آتی ہوں جو وہ اسلام آباد میں کینٹینر پر خطاب کے دوران بولتے تھے ۔

موجودہ احتجاجی سیاست کی عادتِ بد نے ملک کو تباہی کے دھانے پر پہنچا دیا ہے ۔تحریک لبیک کی فرانسیسی سفیرکی ملک بدری کے لیے چلائی جانے والی حالیہ احتجاجی تحریک کے آغاز پر ہی جڑواں شہروں راولپنڈی اسلام آباد کو سیل کرکے کاروبار زندگی مفلوج کرکے رکھ دیا گیا تھا ۔ جلوس ابھی لاہور سے شروع ہی ہوا تھا کہ راولپنڈی اسلام آباد میں کنٹینر لگا دئیے گئے تھے ۔لاہور سے اسلام آباد آنے والی جرنیلی سڑک (جی ٹی روڈ) کو جگہ جگہ سے اکھاڑ کر تباہ و برباد کر دیا گیا ۔یہ کام تو سابقہ نواز شریف حکومت نے بھی نہیں کیا تھا جب پی ٹی آئی نے احتجاج کی کال دی تھی ۔۔اس وقت بھی ر اولپنڈی اسلام آبادسمیت مختلف جگہوں پرراستے بندکئے گئے تھے لیکن کسی بھی جگہ سڑکوں کو کھود کر برباد نہیں کیاگیا تھا ۔موجودہ حکومت کی اب تک کوئی تعمیری سرگرمی دیکھنے میں نہیں آئی ،کوئی نئی سڑک بنائی گئی ہے اور نہ ہی کہیں کوئی مرمت کا کام کیا گیا ۔اس کے برعکس مین جی ٹی روڈ کو ہی جگہ جگہ سے کھنڈر بنا دیا گیا ہے،اس قومی دولت کے ضیاع کا ازالہ کون کرے گا۔؟ ۔

ہماری قوم کا یہ مزاج بن چکا ہے کہ جہاں بھی کوئی مسئلہ پیدا ہوتا ہے ۔ہم لوگ احتجاج کی راہ اپناتے ہیں ۔سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خلاف جب جنرل پرویز مشرف سے ایکشن لیا تھا تو اس وقت بھی ملک کی اس قابل احترا م اہم ترین شخصیت نے اپنے حمایتیوں کے تعاون سے احتجاج کا ہی سہارا لیا تھا ۔۔ان کی بحالی کیلئے نکالی گئی ریلی اسلام آباد سے لاہور لے جائی گئی تھی ۔جو 27گھنٹے پر محیط تھی ۔جبکہ لال مسجد آپریشن جو کہ آٹھ دن تک جاری رہا ،جنرل پرویز مشرف سے 8دن کا وقت دیا تھا کہ بچے اور بچیاں اپنے گھروں کو چلی جائیں ۔لیکن اس سہولت سے کسی نے فائدہ نہ اٹھایا ۔پورا ایک ہفتہ میڈیا لمحہ بہ لمحہ صورتحال کو ’’آن ایئر ‘‘کرکے لوگوں میں اشتعال پیدا کرنے میں لگا رہا ۔کوئی بھی طبقہ بچوں کو بچانے کیلئے یا آپریشن رکوانے کیلئے سڑکوں پر نہ آیا ۔پھر آٹھ دن بعد آپریشن کر دیا گیا ۔
ملکی معیشت کودیکھیں تو احتجاج اور دھرنا قومی مفاد میں نہیں ،ہم اپنے مقاصد کو پروان چڑھانے کیلئے احتجاج کی راہ اپناتے ہیں ، باہمی گفتگو و شنید سے حل ہوسکنے والے مسائل حل کرنے کیلئے بھی ہم سڑکوں پر آجاتے ہیں ۔احتجاج کی صورت میں ہماری صفوں میں ملک دشمن عناصر کے ساتھ ساتھ مخالفین میں آگھستے ہیں ۔یوں کسی انہونی کا ہونا عجب بات نہیں ۔دنیابھر میں احتجاج کی راہ اپنانے والے ممالک میں پاکستان کاپہلا نمبر ہے ۔یہود ونصاریٰ ہماری ذہنی سوچ و فکر کو جان چکے ہیں اس لئے وہ ایسے کام کرتے ہیں کہ ہم سڑکوں پر آ جاتے ہیں ۔ معیشت کا پہہ جام کر دیتے ہیں ۔احتجاج کا یہ سلسلہ ہمیں مسلسل معاشی بدحالی کی جانب لے جا رہا ہے ۔ڈالر 178روپے کا ہوچکا ۔روپے کی قیمت روز بروز گھٹ رہی ہے ۔قوم غربت کی لکیرسے نیچے جا رہی ہے۔کچھ عناصر کو شاہد احتجاج کے بدلے میں بعض قوتوں کی طرف سے امداد ملتی ہو ،اس لئے انہیں تباہی کی کوئی فکر نہیں ہو تی۔لیکن ہمارے’’ احتجاجی ٹھمکوں ‘‘سے معیشت کا جنازہ نکلتا جا رہا ہے ۔ ہم ایک بھکاری قوم کی طرح یہود ونصاریٰ کی چوکھٹ پر ہاتھ پھیلائے کھڑے ہیں۔یہی سلسلہ جاری رہا تو ہمیں تباہی وبربادی سے کوئی بچا نہیں پائے گا۔قانون ِقدرت کے مطابق انسان جو بوتا ہے وہی کاٹتا ہے، ہماری آئندہ نسلیں بھی ہمارا بویا ہوا ہی کاٹیں گی ۔ نفرتوں کو فروغ دے کر محبت کے پھول کھلنے کی توقع عبث ہے ۔امن ومحبت کے پھول تو انس و محبت کے لمس سے ہی کھلا کرتے ہیں ۔نفرت کی تپش میں محبت کے پھول مرجھا جاتے ہیں۔اس لئے ہمیں ہوش کے ناخن لینے چاہئے ۔گھیراؤ ،جلاؤ ،احتجاج اور دھرنوں کی سیاست ترک کرنا ہو گی ۔اور ترقی کیلئے کوئی ایسا’’ ٹھمکہ ‘‘لگانا ہوگا کہ ہم قوموں کی برادری میں ایک باوقار قوم کا مقام حاصل کر سکیں ۔اور ہم ایک خوشحال ، مضبوط اور مستحکم ملک بنانے میں کامیاب ہو کر قوم کو ایک روشن پاکستان دینے کے قابل بن سکیں ۔
 

syed arif saeed bukhari
About the Author: syed arif saeed bukhari Read More Articles by syed arif saeed bukhari: 126 Articles with 115038 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.