درخت کی بلندی - جنگل کہانی

تیسری دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک ویران جنگل میں ایک بوڑھے شیر نے اپنا تسلط جما رکھا تھا ۔اس کے غاصبانہ قبضے ،ظلم و ستم اور شقاوت آمیز نا انصافیوں کی وجہ سے جنگل کے ہر درخت کی ہر شاخ پر الو اور زاغ و زغن اپنے آشیاں بنا چکے تھے۔ قرب و جوار کی وادیوں میں تو سرو و صنوبر کثرت سے اگے ہوئے تھے مگر اس جنگل میں ہر طرف حد نگاہ تک پوہلی،کریر اور زقوم ہی دکھائی دیتے تھے۔اس سٹھیائے ہوئے شیر کا ایک بچہ بھی تھا جسے درندگی کے اطوار سکھانے کے لیے بلی،لومڑی ،گرگ ، ریچھ اور خنزیر کو اس نو عمر شیر کا اتالیق مقرر کیا گیا ۔بوڑھا شیر یہ چاہتا تھا کہ اس کا جانشین اپنی درندگی ،سفاکی ،بے رحمی اور شقاوت میں اس سے بھی آگے نکل جائے ۔بوڑھا شیر نہ صرف عقل و خرد سے یکسر محروم تھا بلکہ اس کا حافظہ بھی معدوم تھا ۔ساری جنگلی حیات کو یہ سب کچھ معلوم تھااس کے باوجود بوڑھے شیر اور اس کے نو عمر بچے کا رویہ جنگلی حیات کے ساتھ بہت مذموم تھا ۔نو عمر شیر نے بھالو جی کے پاٹھ شالے سے درندگی کے تمام قبیح ہتھکنڈے سیکھے ۔عیاری اور مکاری میں لومڑی نے اس کو یکتا بنا دیا ۔بلی اس شیر کی خالہ تھی ۔بلی نے اس کی تربیت اور پرداخت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی ۔جنگلی بلی کا یہ بھانجااور ساتا روہن کا پروردہ نوخیز شیر درندگی ،خباثت ،کینہ پروری ،بے رحمی، عیاری ،مکاری ،پیمان شکنی اور جنسی جنون میں اپنے آبا و اجداد سے بھی دو ہاتھ آگے نکل گیا۔احسان فراموشی اور محسن کشی میں اس کا کوئی ثانی نہ تھا ۔اس کی نمک حرامی اور ابن الوقتی کے چرچے پورے جنگل میں پھیل چکے تھے ۔کوئی بھی جانور اس بد طینت درندے کی خون آشامی شقاوت اور جور و ستم سے محفوظ نہ تھا ۔ایک دن اس شیر نے اپنی خالہ بلی کی طرف للچائی ہو ئی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا :” خالہ جان ! کیا تم نے مجھے جنگل کے ماحول میں رہنے کے تمام طریقے اور شکار کی تما م چالیں سکھا دی ہیں؟“

بلی نے نو خیز شیر کی نیت کو بھانپ لیا اور اس خبیث درندے کے عزائم کو جان گئی وہ مسکراتے ہوئے کہنے لگی ”ہاں! میں نے تمھیں شکار کرنے اور حملہ آور ہونے کے تمام گر اور حربے سکھا دئیے ہیں۔“

یہ سننا تھا کہ نو جوان شیر کی رال ٹپکنے لگی اس کا جی چاہا کہ آج بلی کے نرم و نازک گوشت سے ناشتا کیا جائے ۔یہ سوچتے ہی اس نے بلی پر جست لگائی اور اسے دبوچنا چاہا۔بلی نے پلک جھپکتے ہی ایک زور دار چھلانگ لگائی اور نزدیکی درخت پر چڑھ گئی اور بڑی مشکل سے اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوئی۔ نو خیزشیر بہت کھسیانا ہو ا اور درخت کے تنے کو نوچتے ہوئے بولا : ” یہ کیا مذاق ہے خالہ ؟تم نے مجھے درخت پر چڑھنا تو سکھایا ہی نہیں ۔یہ تو استاد کے منصب کے بھی خلاف ہے کہ وہ اپنے شاگرد کو کسی فن میں ماہر نہ بنائے اور اس کے فن میں خامی رہ جائے ۔“

”ہاں میں نے تمھیں درخت پر چڑھنا نہیں سکھایا تھا َ“ بلی نے نوخیز درندے کی بات کو خندہءاستہزا میں اڑاتے ہوئے کہا”ہر فن کار اور معلم اپنے لیے بچ نکلنے کا راستہ ضرور رکھتا ہے ۔اگر میں نے تمھیں درخت پر چڑھنا بھی سکھا دیا ہوتا تو آج میں تمھارے خون آشام جبڑوں کے راستے تمھارے پیٹ کے جہنم کا ایندھن بنتی۔تمھاری نسل در نسل چلنے والی درندگی اور سفاکی سے کچھ بھی بعید نہیں کہ تم محسن کشی کی کوئی بھی حد عبور کر سکتے ہو۔درندوں کے نزدیک ماں ،باپ،استاد اور دوست کی کوئی قدر و منزلت ہر گز نہیں ہوتی ۔اس لیے میں نے تمھیں درخت پر چڑھنے کا کسب نہ سکھا کر اپنے حق میں بہتر فیصلہ کیا تھا ۔تمھارے جیسے جعل ساز ،کفن دزد ،خفاش اور موذی و مکار کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایسے بے غیرت کا نہ باپ نہ دادا یہ درندہ تو ہے سو پشت کا حرام زادہ۔“

”تم تو فلسفیانہ مو شگافیوں میں پڑ گئی ہو “ نو خیز شیر نے دانت پیستے ہوئے کہا ” میں تو مذاق کر رہا تھا ۔جو درندہ کہ ہرن ،نیل گائے اور بڑے بڑے دیو ہیکل جانور مارنے اور ان سے پیٹ بھرنے کی طاقت رکھتا ہو اسے بھلا ایک کم وزن اور بے وقعت بلی کو لقمہ تر بنانے کی کیا ضرورت ہے ؟تم تو قبل از مرگ واویلا مچا رہی ہو ۔جب میرا دور آئے گا تو تمھیں ایک شایان شان مقام ملے گا۔اچھا یہ تو بتاﺅ کہ میری جنگل کی بادشاہت کب شروع ہو گی ۔بوڑھا شیر بادشاہ تو اب جست لگانے اور شکار کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو چکا ہے ۔میری کچھ مدد کرو تا کہ اس جنگل کی بادشاہت میں اب سنبھال لوں۔جنگل کے قانون کے تحت کیا میں اپنے باپ کو معزول کر کے کسی تنگ و تاریک غار میں قید کر سکتا ہوں ؟“

” جنگل کے قانون کے مطابق تو صرف ایک بادشاہ کی موت کے بعد ہی اس کا جانشین جنگل کی بادشاہت سنبھال سکتا ہے ۔لیکن اس وقت بوڑھے شیر بادشاہ کی شکار کرنے کی صلاحیت بر قرار ہے کل اس نے دو ہرن اور ایک نیل گائے کو دوڑ کر دبوچا اور ڈکار لیا۔اس کو تو بزور طاقت ہی راستے سے ہٹانا ہو گا۔“

” اقتدار کی جنگ میں سب کچھ جائز ہے “ نو جوان شیر نے دہاڑتے ہوئے کہا ”میں اب مزید انتظار نہیں کر سکتا ۔میرے پاس کوئی اختیار ہی نہیں ۔ہماری بلی اور ہمیں ہی میاﺅں کرے ۔بہت ہو چکی اب میں ان جانوروں کو ایسا سبق سکھاﺅں گا کہ ان کو نہ صرف نانی بلکہ چھٹی کا دودھ بھی یاد آجائے گا۔اگر میں ان کو دن میں تارے نہ دکھا دوں تو میر ا نام بھی آسو بلا نہیں ۔تما م جانور مجھے بوڑھے شیر کے سامنے کٹھ پتلی سمجھتے ہیں ۔اب میں اپنے لیے خود مختاری کا راستہ چن رہا ہوں ۔ جنگل میں میری مطلق العنان بادشاہت کی راہ میں جو بھی دیوار بنے گا وہ نہیں رہے گا “

گدھ ،چمگادڑ اور الو یہ سب باتیں سن رہے تھے ۔وہ بہ یک آواز بولے ” تمھارے مطلق العنان اقتدار اور جنگل کی بادشاہت میں سب سے بڑی رکاوٹ تمھارا باپ بڈھا کھوسٹ شیر ہے ۔جب تک تم اس کا دھڑن تختہ نہیں کرو گے تمھیں اسی طرح ذلیل و خوار ہونا پڑے گا۔اس مقصد کے لیے تمھیں اپنے باپ کا خون کرنا ہو گا۔“

” میں یہ سب کچھ آج ہی کر و ں گا“ نو عمر شیر دہاڑا ” ساری جنگلی حیات اس بڈھے کھوسٹ معذور شیر سے تنگ ہے ۔اس کی کمزوری اب ایک عذاب بن گئی ہے ۔میں اس کا تیا پانچہ کر دوں گا۔جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات ہوتی ہے ۔اس بڈھے کھوسٹ جنگل کے بادشاہ کو اس کے جرم ضعیفی کی سزا ضرور ملے گی۔میں آج شام اس ناکارہ ننگ وجود کو عدم کی بے کراں وادیو ں میں پہنچا دوں گا۔جنگل کی بادشاہت کے لیے مجھے اپنے باپ کو اپنی راہ سے ہٹانا ہو گا۔آج کی رات اس بڈھے کھوسٹ شیر کے لیے موت کا پیغام لائے گی ۔ ہا۔۔ہا۔۔۔ہا۔۔۔“

نو عمر شیر ہوس جا و منصب اور بادشاہت کی اندھی تمنا سے مغلوب ہوش و حواس سے محروم ہو چکا تھا۔وہ سیدھا اپنے بوڑھے باپ اور جنگل کے بادشاہ کے غار میں پہنچا اور غصے سے دہاڑا” کہاں ہے جنگل کا بادشاہ؟ میں اسے معزول کر کے موت کی سزا دینے کا اعلان کرتا ہوں ۔آج سے میں جنگل کا بادشاہ ہوں “

بڈھے شیر کے پاس کھڑے ساتا روہن جو شیر کے بچے ہوئے ہرن ،بارہ سنگھے،بکرے اور اونٹ کھانے میں مصروف تھے چونکے اور تتر بتر ہو گئے ۔خارش زدہ سگان راہ جو بڈھے شیر کے غار کے قریب دم ہلاکر منفعت بخش مناصب کی ہڈیوں کی تلاش میں سر گرداں تھے دم دبا کر بھاگ گئے ۔محافظ بھیڑیے جو اپنی گرگ آشتی کی فطرت کی وجہ سے نفرت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے وہ سب وہاں سے رفو چکر ہو گئے ۔

اب نوجوان شیر نے اپنے ہی باپ پر حملہ کر دیا اور پلک جھپکتے میں بڈھے شیر کی شہ رگ میں اپنے دانت پیوست کر دیئے۔اپنے باپ کی شہ رگ کا خون پینے کے بعد اس نے اس کے جسم کی تکا بوٹی کردی اور تمام
گوشت چٹ کر گیا ۔جنگل کا بادشاہ تو بدل گیا مگر بے بس و لاچار جنگلی حیات کے حالات جوں کے توں رہے ۔

جنگل کے نئے بادشا ہ نے نظام سقے کی طرح کمزور جنگلی حیات کے چام کے دام چلائے۔اس نے تو خون آشامی کی نئی ہولناک داستانیں رقم کیں ۔جنگل کے تما م اثمار و اشجارسوکھ کا نٹا ہو گئے ۔سایہ دار درخت سوکھ کر ایندھن کی صورت بک گئے ۔شدید گرمی میں جنگلی حیات کو کہیں سر چھپانے کی جگہ نہ ملتی تھی ۔سارے جانور نئے بادشاہ سے نا خوش و بیزار دکھائی دیتے تھے ۔کئی جانور اس جنگل سے نقل مکانی کر گئے اور ساحل سمندر کے قریب واقع ایک نخلستان میں جا کر پنا ہ لی۔اس نخلستان میں ناریل کے بلند و بالا درخت بڑی تعدا میں اگے ہوئے تھے جن پر دو کلو گرام وزنی ناریل لگتے تھے ۔یہ جگہ تازہ ہوا اور ٹھنڈی سایہ دار آرام گاہ کے طور پر بہت پسندیدہ سمجھی جاتی تھی ۔جنگل کے نئے بادشاہ نے جب یہ دیکھا کہ جنگل کا جنگل ہی ویران ہو گیا ہے تو اس نے سوچاکہ کیوں نہ وہ بھی اس نخلستان کی جانب نقل مکانی کر لے جہاں اس کی رعایا نے خود ساختہ جلاوطنی اختیار کر رکھی ہے ۔کئی دن کا بھوکا پیاسا یہ ظالم درندہ جب اس سر سبز و شاداب نخلستان میں پہنچا تو اس کی جان میں جان آئی۔اس نے لپک کر دو ہرن مار گرائے اور ان کے گوشت سے ناشتہ کیا ۔ناشتے سے فارغ ہو کر وہ ایک ناریل کے درخت کے نیچے آرام کی غرض سے لیٹ گیا جلد ہی وہ گہری نیند کی آغوش میں چلا گیا ۔ناریل کے اس درخت کے اوپر ایک لنگور بیٹھا تھا ۔اس نے جب موذی درندے کو خواب استراحت کے مزے لیتے دیکھا تو اس کے اندر جوش انتقام پیدا ہو گیا ۔اسے اس درندے سے سخت نفرت تھی جس کی بے بصری ،کو ر مغزی ،شقاوت اور درندگی کی وجہ سے ہر طرف ویرانی ،مایوسی ،محرومی اور تباہی و بربادی نے ڈیرے ڈال رکھے تھے ۔

ناریل کے درخت کی چوٹی پر بیٹھے لنگور نے پہلے تو زور زور سے شیر کو گالیاں دیں ،اس کا منہ چڑایا،اس پر تھوکا اور اس پر گندگی پھینکی ۔شیر نے صرف ایک بار سر اٹھایا اور لنگور کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لیں ۔اس کے بعد لنگور نے ایک ایک کر کے ناریل توڑنے شروع کر دیئے اور پوری قوت کے ساتھ شیر کی پیٹھ پر برسانے شروع کر دیئے ۔شیر پے در پے ناریل کی شدید چوٹیں بڑے تحمل سے سہہ رہا تھا مگر مسلسل آنکھیں بند کر کے حالات کی بوالعجبی پر اس نے چپ سادھ لی تھی ۔کہتے ہیں شیر بھوک سے مر جاتا ہے مگر کتے کا بچا ہوا گوشت کبھی نہیں کھاتا۔اسی طرح شیر کبھی میدان سے پیٹھ نہیں دکھاتا۔لنگور نے تمام ناریل شیر کے جسم ،سر گردن اور ٹانگوں پر مارے اور درندے کو ادھ موا کر دیا ۔ لنگور کی طرف سے روا رکھی جانے والی اس تمام ایذا ،عقوبت اور ضربات پر کوئی رد عمل ظاہر نہ کیا ۔اس پر اسرار خاموشی نے لنگور کو فکر مند کر دیا کہ کہیں شیر کی آنکھیں ہی نہ مند گئی ہوں ۔اس نے چلا کر کہا: ” جنگل کے نام نہاد بادشاہ کیا میں نے آج تمھاری بے عزتی کی ہے ؟۔کیا میں نے تمھاری توہین ،تذلیل اور تضحیک کی ہے ؟“

” نہیں ۔۔۔ہر گز نہیں “ یہ تو ناریل کے درخت کی بلندی ہے جس نے مجھے خود اپنی نظروں میں بھی گرا دیا ہے اور پوری جنگلی حیات کے سامنے تماشا بنا دیا ہے ۔یہ اس ناریل کے درخت کی بلندی ہے جس پر تم بیٹھے ہوئے ہو۔اس بلند ی نے میری بے عزتی کی ہے اور مجھے کہیں کا نہیں چھوڑا ۔ایک حقیر لنگور کی کیا بساط ہے کہ وہ جنگل کے بادشاہ پر دو کلو سے زائد وزنی ناریلوں کی بوچھاڑ کر دے ۔آہ اس ناریل کے درخت کی بلندی جس نے ایک متفنی لنگو ر کو یہ موقع دیا کہ وہ جنگل کے بادشاہ کو مار مار کر ہلکان کردے ۔میرے ساتھ بد سلوکی اس ناریل کے درخت کی بلندی نے کی ہے ۔“
Dr. Ghulam Shabbir Rana
About the Author: Dr. Ghulam Shabbir Rana Read More Articles by Dr. Ghulam Shabbir Rana: 80 Articles with 230907 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.